ہاں جماعتِ اسلامی ناکام جماعت ہے

سیاسی جماعتیں اور آمریتیں
ہاں جماعت اسلامی ناکام جماعت ہے اسے موقع پرستی نہیں آتی ،وہ چاہتی تو آمروں کے لگائے گئے مارشل لاء کی حمایت کر کے کئی فوائد حاصل کرسکتی تھی لیکن جماعت اسلامی نے ہر دور میں مارشل لاء کی مخالفت کی ہے۔ ایوب دور میں مولانا مودودی کو سزائے موت سنائی گئی جو بعد ازاں عالمی دباؤ پر ختم کی گئی۔ مولانا مودودی کو جب سزائے موت سنائی گئی تو سنانے کے بعد جج نے پوچھا “مولانا آپ کو اس پر کچھ کہنا ہے اور مولانا نے بلا تامل جواب دیا کہ مجھے اس پر کچھ نہیں کہنا ہے زندگی اور موت کے فیصلے زمین پر نہیں بلکہ آسمانوں پر ہوتے ہیں“ ایوب ہی کے دور میں جماعت اسلامی کے خلاف کریک ڈاؤن کیا گیا اور اس کو کالعدم قرار دیا گیا۔ ایوب ہی کے دور میں جماعت اسلامی کے جلسہ عام میں فائرنگ کی گئی اور ایک کارکن کو شہید کیا گیا اور اسی جلسہ عام میں مولانا مودودی اسٹیج پر کھڑے تھے اور کسی نے کہا “مولانا گولیاں چل رہی ہیں آپ بیٹھ جائیں“ تو مولانا مودودی نے تاریخی جملہ کہا تھا “اگر آج میں بھی بیٹھ گیا تو کھڑا کون رہے گا ؟ “ ایسے لوگ بھلا کہیں کامیاب ہوتے ہیں؟ ہاں مشکل وقت میں ملک سے بھاگنے والے،آمروں سے ڈیل کرنے والے،موقع کی مناسب سے اصول اور پارٹیاں بدلنے والے ہی کامیاب ہوتے ہیں جماعت اسلامی تو ناکام جماعت ہے۔

جماعت اسلامی نے ضیاء الحق کے مارشل لاء کی بھی مخالفت کی، ابتدا میں جماعت اسلامی نے ضیاء الحق کو پارلیمنٹ کے ذریعے باہر کرنے کی کوشش کی اور اس کی کابینہ میں شامل رہی لیکن محض آٹھ یا نو ماہ بعد ہی اس کی کابینہ سے الگ ہوگئی۔ اس حوالے سے جب اس وقت کے امیرِ جماعت میاں طفیل محمد سے سوال کیا گیا تو مجھے اس وقت پورا فقرہ یاد نہیں لیکن انہوں نے کچھ اس قسم کا جملہ کہا تھا کہ “اگر شیشے کے گھر میں ایک بھپرا ہوا سانڈ گھس جائے تو آپ کیا کریں گے؟ اس کےساتھ سختی کریں گے تو وہ پورے گھر کو تہس نہس کردے گا اس لئے گھر کو بچانے کے لئے ضروری ہے کہ سانڈ کو پچکار کر قابو کیا جائے “ جماعت اسلامی پر ضیاء الحق کی باقیات کا طعنہ تو دیا جاتا ہے لیکن لوگ بھول جاتے ہیں کہ مسلم لیگ جونیجو گروپ، میاں نواز شریف، مخدوم شاہ محمود قریشی، جناب سید یوسف رضا گیلانی جیسے لوگ بھی ضیا الحق کی کابینہ میں شامل تھے اور اس وقت ایم کیو ایم نومولود تھی اس لئے اس کو اہمیت نہیں دی گئی ورنہ اس کے ریکارڈ کو دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ اگر موقع ملتا تو وہ بھی اس سے پورا فائدہ اٹھاتی۔

مشرف دور میں جماعت اسلامی نے ایم ایم اے کے پلیٹ فارم سے الیکشن میں حصہ لیا ، اور جنرل مشرف کی سترہویں ترمیم پر حمایت کے لئے ایک معاہدہ کیا جس کے تحت جنرل مشرف کو ٣١ دسمبر ٢٠٠٤ تک آرمی چیف کا عہدہ چھوڑنے کا پابند کیا۔ وعدہ خلافی مشرف نے کی،معاہدہ مشرف نے توڑا لیکن افسوس کہ ہمارے سیاست دان اور سیاسی پارٹیاں اور ان کے حامی اخلاقی گراوٹ کی اس سطح پر ہیں کہ ایک جھوٹے اور فریبی ،وعدہ خلاف فرد کو کچھ کہنے کے بجائے جماعت اسلامی اور ایم ایم اے کو مورود الزام ٹھہراتے ہیں۔

اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ جو لوگ ایم ایم اے کو مشرف کی حمایت پر طعنہ دیتے ہیں وہی تمام لوگ مشرف کی کابینہ میں شامل تھے، ایم کیو ایم مشرف کے آٹھ سالہ دور میں مزے کرتی رہی، اس دور میں صوبائی وزارت داخلہ،مذہبی امور کی وزارت،پورٹ اینڈ شپنگ کی وزارت اور دیگر اہم پوسٹس، کراچی و حیدر آباد کی نظامت ایم کیو ایم کے پاس تھی۔ ق لیگ آج تمام خرابیوں کی جڑ مشرف کو کہتی ہے لیکن اس وقت وہ مشرف کو بیس سال تک باوردی صدر منتخب کرنے کا اعلان کررہی تھی۔ پی پی پی اور بی بی بیک وقت سیاسی جماعتوں،امریکہ اور مشرف سے مذاکرات کرتے رہے ایک طرف سیاسی جماعتوں کو اپنے ساتھ لگائے رکھا اور دوسری جانب مشرف کے ساتھ بھی ڈیل کی جاتی رہی۔ یہ ساری باتیں ایک طرف لیکن جب آمریت کے ہاتھ مضبوط کرنے کی بات آتی ہے تو سب کا نزلہ ایم ایم اے اور اس میں بھی جماعت اسلامی پر ہی گرتا ہے۔

سترہویں ترمیم پر جماعت اسلامی کو طعنہ دینے والوں سے ایک سوال پوچھنا چاہوں گا کہ کیا جنرل مشرف کو سترہویں ترمیم پر صرف جماعت اسلامی یا ایم ایم اے نے ووٹ دیا تھا؟ کیا دیگر تمام جماعتوں نے اس ترمیم کےخلاف ووٹ دیا تھا؟ اور محض جماعت اسلامی کے اکیلے ووٹوں سے سترہویں ترمیم منظور کی گئی تھی۔؟ اس سوال کا جواب معلوم کریں گے تو سارے لوگ بغلیں جھانکتے نظر آئیں گے۔ جواب ہے کہ نہیں۔ جماعت اسلامی اگر اس کی مخالفت کرتی جب بھی سترہویں ترمیم منظور کرالی جاتی، لوٹے اس وقت بھی موجود تھے۔ ہارس ٹریڈنگ اس وقت بھی عروج پر تھی اور گھوڑے تیار تھے کہ اگر ہماری قیمت لگائی جائے تو ہم بِکنے کو تیار ہیں لیکن جماعت اسلامی نے ایک کوشش کی کہ اپنے ووٹ کے ذریعے آمر کو وردی اتارنے پر مجبور کیا جائے اور اس مطلق العنان آمر کو معاہدہ کرنا پڑا، لیکن اگر کوئی فرد وعدہ کر کے مکر جائے تو کیا کہا جاسکتا ہے؟

جو لوگ بھی جماعت اسلامی کے اندر داخل ہوئے اور بعد میں الگ ہوئے اس کی وجہ جماعت اسلامی کی کمزوری نہیں بلکہ جماعت اسلامی کے اخلاقی معیار کی بلندی ہے جس کو ہر کوئی فرد نہیں پاسکتا۔ لوگ جماعت اسلامی کو بھی ایک عام جماعت سمجھ کر اس میں شامل ہوتے ہیں لیکن جب معلوم ہوتا ہے کہ جناب جماعت اسلامی آپ کے غلط کام میں مدد گار نہیں ہوگی،میرٹ کے خلاف آپ کی سفارش نہیں کرے، آپ چاہے کوئی ٹاؤن ناظم ہیں یا رکن اسمبلی آپ سے سے پندرہ روزہ اور ماہانہ بنیادوں پر آپ کے معمولات کی رپورٹ طلب کی جائے گی کہ جناب ذرا بتائیں کہ اس ماہ کتنی نماز فجر باجماعت ادا کی کیں؟ کتنے کارکنان سے ملاقات کی ؟ حلقے میں کتنے لوگوں سے رابطہ کیا؟ اور ایسے دیگر معاملات ہیں جن پر جماعت اسلامی اپنے کارکنان کی باز پرس کرتی ہے تو جو تھڑ دلے ہوتے ہیں ،وہ جو جماعت اسلامی کو اپنے مفاد کے لئے استعمال کرنا چاہتے ہیں،وہ جو جماعت اسلامی کو ایک عام سیاسی جماعت سمجھتے ہیں، وہ جماعت اسلامی ( یا جمعیت ) سے نکلنے میں ہی عافیت محسوس کرتے ہیں۔ کیوں کہ عدالت،نیب،پولیس ،تھانہ کچہری تو بعد کی بات ہے یہاں تو ہر ماہ آپ کو اپنا احتساب کرنا ہوتا ہے۔

وہ وقت بہت کڑا ہوتا ہے جب ہر ماہ کے آخر میں جائزہ کا اجتماع ہوتا ہے۔ اور اجتماع کے آخر میں ناظم یا امیر خواہ حلقے کا ہو۔ زون کا ،شہر کا ہو یا صوبے کا، وہ اپنے آپ کو پیش کرتا ہے اور پکارتا ہے “ناظم کا احتساب “ اور اس کے بعد کارکنان جس بے رحمی سے اپنے ناظم کے پورے ماہ کے روز شب کے دوران ناظم سے سرزد ہونی والی غلطیوں اور اس کی کوتاہیوں پر اس سے باز پرس کرتے ہیں۔ اس کے غلط فیصلوں پر بے رحمی سے تنقید کرتے ہیں۔ جماعت اسلامی پر تنقید کرنے والے اس سخت قسم کے احتساب کا تصور بھی نہیں کرسکتے، اس لئے کہ ان کے نزدیک جو ذمہ دار ہوتا ہے،جو انچارج ہوتا ہے۔ جو سربراہ ہوتا ہے وہ ہر تنقید ہر احتساب سے بالا تر ہوتا ہے لیکن جماعت اسلامی میں ذمہ دار سب سے پہلے خود اپنے آپ کو احتساب کے لئے پیش کرتا ہے اس کےبعد کسی کارکن کا احتساب کرتا ہے۔ یہ شہادت گہہ الفت میں قدم رکھنا ہے لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلماں ہونا ۔

ہاں جماعت اسلامی ایک ناکام جماعت ہے کیوں کہ اس کو اصولوں کو قربان کر کے مفادات حاصل کرنا نہیں آتا، زیادہ دور نہ جائیں اسی دور میں دیکھ لیں کہ کیا مسلم لیگ ن ،کیا ق لیگ، کیا صدر،کیا وزیر اعظم اور کیا رحمان ملک و دیگر،جس کو دیکھو وہ ایم کیو ایم کی منتیں کرتا نظر آتا ہے اور نائن زیرو کے چکر لگاتا نظر آتا ہے، لیکن اسی ایم کیو ایم کا اعلیٰ سطح کا وفد خود چل کر جماعت کے مرکز منصورہ پہنچتا ہے اور اسے تعاون طلب کرتا ہے۔ اگر جماعت اسلامی ایک کامیاب جماعت ہوتی، اگر اس کو سیاست آتی تو وہ اس موقع سے فائدہ اٹھاتی، کچھ مفادات حاصل کرلیتی، لیکن انہوں نے بطور مہمان ایم کیو ایم کے وفد کا استقبال ضرور کیا لیکن وقتی مفادت کے تحت موجودہ سیاسی کشمکش کا حصہ بننا گوارہ نہ کیا۔

ہاں جماعت اسلامی ایک ناکام جماعت ہے کیوں کہ جس ملک میں عوامی نمائندے اقتدار میں آکر اپنی جیبیں بھرتے ہیں،اپنے مفادات حاصل کرتے ہیں اسی ملک میں صوبہ خیبر پختنخواہ کا سینیئر وزیر جب بجٹ پیش کرتا ہے تو معلوم ہوتا ہے اس نے وزیروں کی تنخواہوں میں اضافے کے بجائے ان میں ایک ایک ہزار روہے کمی کی ہے اور سب سے پہلے اپنی تنخواہ میں دو ہزار روپے کمی کی ہے۔( پاکستان کی تریسٹھ سال کی تاریخ میں کوئی ایسی مثال ہے تو پیش کردیں)

جس ملک میں اولاد کی تعلیم کو والدین ایک بوجھ سمجھتے ہیں اور اپنا پیٹ کاٹ کر اپنے بچوں کو تعلیم دلاتے ہیں اس ملک کے ایک صوبے خیبر پختونخواہ میں، بچیوں کے لئے تعلیم پرائمری تک تعلیم مفت کردی جاتی ہے۔ اور کراچی جیسے شہر میں تو سٹی ناظم نعمت اللہ ایک انوکھی مثال قائم کرتے ہیں کہ مڈل تک بچیوں کی نہ صرف تعلیم مفت کرتے ہیں بلکہ ان کے لئے سٹی گورنمنٹ کی جانب سے وظیفہ بھی مقرر کیا جاتا ہے تاکہ والدین بچیوں کو تعلیم دلا سکیں ( تریسٹھ سال میں کوئی ایسی مثال ہے تو پیش کریں ) اور یہ بھی واضح رہے کہ ان کے بعد آنے والے سٹی ناظم نے اس پروگرام کو ختم کردیا تھا۔

ہاں جماعت اسلامی ایک ناکام جماعت ہے جس ملک میں عوامی نمائندے اقتدار میں آنے کے بعد لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم کرتے ہیں، اپنی جائیدادیں بناتے ہیں ،اس ملک میں جماعت اسلامی کے لوگ اقتدار کے ایوانوں سے واپس آئے ہیں تو پلے کچھ بھی نہیں ہوتا۔ سابق ایم پی اے نصر اللہ خان شجیع ٥ سال تک اسمبلی کے ممبر اور ڈپٹی پارلیمانی لیڈر رہتے ہیں لیکن جب ٥ سال کے بعد اقتدار سے باہر آتے ہیں معلوم ہوتا ہے ان کے پاس آج تک اپنی ذاتی موٹر سائیکل تک نہیں ہے ۔ محمد حسین محنتی منتخب ہونے سے پہلے جس جگہ رہتے تھے آج بھی اسی گھر میں رہائش پذیر ہیں۔ لئیق خان اورنگی ٹاؤن سے منتخب ہوتے ہیں اور ٥ سال کے بعد جب حکومت ختم ہوتی ہے تو اسی اورنگی ٹاؤن میں اسی مکان میں رہ رہے ہیں۔

ہاں جماعت اسلامی ناکام جماعت ہے کہ اس کو موقع سے فائدہ اٹھانا نہیں آتا،صوبہ خیبر پختونخواہ کے سینئر وزیر ٥ سال تک اقتدار میں رہتے ہیں اور جب حکومت ختم ہوتی ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس کے حکومت میں آنے سے پہلے وہ جس دو کمرے کے چھوٹے سے مکان میں رہتے تھے آج بھی اسی مکان میں رہائش پذیر ہیں۔ جس ملک میں عوامی نمائندے اور حکومتی اہلکار غیر ملکی دوروں پر اربوں روپے اڑاتے ہیں اور جب یہ مرد درویش غیر ملکی دورے پر جاتا ہے تو وہاں کسی فائیو اسٹار ہوٹل میں ٹھہرنے کے بجائے مسجد میں قیام کرتا ہے اور اپنے ساتھیوں کو بھی اپنے ساتھ ہی مسجد میں ٹھہراتا ہے۔ ایک ایسے (تریسٹھ سالوں میں کوئی ایسی مثال ہے تو پیش کریں ) ایک ایسے ملک میں جہاں عوامی نمائندے اپنے آپ کو احتساب سے بالاتر سمجھتے ہیں کوئی فرد یا کارکن تو دور کی بات ملکی عدالتیں ،چیختی چلاتی رہ جاتی ہیں اور یہ لوگ قانون کا مذاق اڑاتے رہتے ہیں ۔ایسے ملک میں ایک مرد درویش اقتدار کے ٥ سال پورے کرنے کے بعد پہلا جمعہ پشاور کی تاریخی مسجد مہابت خان میں ادا کرتا ہے اور نماز کے بعد مسجد میں یہ اعلان کرتا ہے کہ “ کہ لوگوں میں پانچ سال تک تمہارے صوبے کا سینیر وزیر رہا ہوں،اس دوران میں نے کوئی زیادتی کی ہو،کسی کا حق مارا ہو،کسی کے ساتھ ظلم کیا ہو،کوئی غلط کام کیا ہو تو میں یہاں موجود ہوں آؤ اور میرا احتساب کرو، مجھ سے حساب لو “ ( اعتراض کرنے والے تریستٹھ سالوں میں کوئی ایک تو ایسی مثال پیش کردیں) یہ کوئی الف لیلیٰ زمانے کے قصے میں آپ کو نہیں سنا رہا بلکہ یہ سب اسی دور کے واقعات ہیں۔

ہاں جماعت اسلامی ایک ناکام جماعت ہے اسے اصولوں کو بیچنا نہیں آتا،اسے ذاتی مفادات کی سیاست نہیں آتی،۔ شعر میں ذرا سی ترمیم کے ساتھ عرض کیا ہے کہ
ان کا جو کام ہے وہ اہل سیاست جانیں
ہمارا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے
Saleem Ullah Shaikh
About the Author: Saleem Ullah Shaikh Read More Articles by Saleem Ullah Shaikh: 534 Articles with 1458174 views سادہ انسان ، سادہ سوچ، سادہ مشن
رب کی دھرتی پر رب کا نظام
.. View More