کاپی پیسٹ

میرے ایک دوست جو سوشل میڈیا پر بہت زیادہ ایکٹو ہیں ، عموماً کوئی نہ کوئی ٹویٹ شیئر کرتے ہیں تو میں موصوف کی سوچ ،بچار اور فہم و فراست پر حیران ہوتا ہوں اور عموماً اپنے خیالات کا اظہار یا انگوٹھے کی علامت سے پسند (Like)کرکے کرتا ہوں یا پھرپوسٹ کے نیچے بنے ڈبہ میں اپنے خیالات کا اظہار کچھ یو ں کر دیتا ہوں:واہ کیا بات ہے۔۔۔موصوف بھی پوسٹ پر میرے خیالات پڑھ کر انگوٹھے کے نشان سے پسند(Like)کا اظہار کرتے ہیں یا پھر میرے خیالات کے جواب میں کچھ یوں جواب دیتے ہیں :شکریہ جناب۔۔۔

چند دن پہلے موصوف کی ایک اور ٹویٹ موصول ہوئی ، چوں کہ موصوف حالات کے تناظر میں اس ٹویٹ کی تشہیرمیں لیٹ ہوگئے تھے اس لیے میں اس ٹویٹ کو پہلے ہی اصلی حالت میں پڑھ چکا تھا ۔ میں نے اس بار موصوف کی ٹویٹ پر پسند(Like) کا اظہار کرنے کے بجائے پوسٹ کے نیچے ڈبہ میں موصوف سے پوچھا کہ حضور یہ تو فلاح لکھاری کی پوسٹ ہے اور یہ پوسٹ انھوں نے پرسوں رات اپنے سوشل میڈیا کے اکاؤنٹ پر اپنی تصویر اور نام کے ساتھ لگائی تھی ۔موصوف کا جواب موصول نہ ہونے پر میں حیران ہوا کہ ویسے تو تعریفی خیالات پر موصوف فوراً ’’شکریہ جناب‘‘ سے نوازتے ہیں مگر آج جواب ہی نہیں دے رہے ۔ خیر میں نے دوبارہ پوچھا تو موصوف کا جواب آیا کہ جی جناب یہ ٹویٹ انھی لکھاری کی ہے۔اس پر میں نے موصوف سے کہا کہ حضور یہ تو آپ نے چوری کی ہے کہ ان کا نام اور تصویر ہٹا کر اپنے اکاؤنٹ سے بھیج دی ہے گو کہ آپ نے اس شہ پارہ پر اپنا نام یا تصویر نہیں لگائی ہے مگر میرے سمیت بیشتر افراد تو آپ کی ان ٹویٹس سے یہی سمجھتے ہیں کہ یہ آپ ہی کی سوچ ، بچار یا فہم و فراست کا نچوڑ ہے یہ تو آپ نے غلط کیا ہے ، اگر آپ کو وہ شہ پارہ پسند ہے اور آپ یہ سمجھتے ہیں کہ عوام الناس تک یہ شہ پارہ پہنچنا چاہیے تو آپ کم از کم اس شہ پارہ کے لکھنے والے کا نام تو ساتھ رہنے دیں یا چلیں یہ نہیں کرسکتے تو لفظ ’’منقول‘‘ یا ’’کاپی پیسٹ ‘‘ لکھ دیں ۔ میری یہ دلیل سن کر موصوف تھوڑاغصہ ہوئے (جو سوشل میڈیا پرسوشل میڈیا فلسفیوں کا وطیرہ ہے)اور فرمانے لگے کہ اتنا وقت کہاں ہوتا ہے کہ یہ سب لکھتارہوں۔ جس پر میں نے موصوف سے کہا کہ پھر تو آپ اصل شہ پارہ سے لکھاری کا نام اور تصویر ہٹا کر وقت ہی ضائع کرتے ہیں آپ اس شہ پارہ کو اصل حالت میں رہنے دیں اور لکھاری کا نام اور تصویر نہ ہٹائیں تو آپ کا مزید وقت بچ جائے گا۔میرے اس جواب(Reply) پر موصوف ایسے غائب ہوئے کہ مجھے شک ہونے لگا کہ شاید انھوں نے میری اس گستاخی پر مجھے اپنی سوشل میڈیا فرینڈ لِسٹ سے ہی خارج کردیا ہے مگر میری بچت ہوگئی۔

سوشل میڈیا کا جال جب سے وبال بنا ہے اندھا دھند ’’کاپی پیسٹ ‘‘ کا رجحان کچھ زیادہ ہی ہوگیا ہے۔اندھا دھند کاپی پیسٹ سے مراد بنا سوچے سمجھے،بنا تحقیق یا غور و فکر کیے دوسروں کے نظریات ا ور خیالات کو کاپی کرکے پیسٹ کرنا اوراس کی زیادہ سے زیادہ تشہیر کی ہرممکن کوشش کرناہے۔مشاہدہ میں بارہایہ بات آچکی ہے کہ اس طرح بنا تحقیق اور بغیر سوچے سمجھے پھیلائی گئی خبر یا مواد زیادہ تر افواہوں یا جھوٹ کا مجموعہ ہوتے ہیں جس کابھید جب بعدمیں کھلتا ہے تو اس طرح بناسوچے سمجھے بناتحقیق کے خبر پھیلانے والے افراد کو دوقسم کی جماعتوں میں تقسیم کیاجاسکتاہے:ایک وہ جن کواپنے اس کیے پر بعد میں بھید کھلنے پرندامت کاسامناکرنا پڑتاہے ۔دوسرے قسم کی جماعت ایسے لوگوں پرمشتمل ہے جوبناتحقیق جھوٹی خبر یاکسی قسم کے مواد کی تشہیر کرتودیتے ہیں مگرجب بعد میں بھید کھلتاہے تو نادم ہونے کے بجائے ہٹ دھرمی کامظاہرہ کرتے ہوئے اپنے کیے پر اَڑے رہتے ہیں ۔۔۔دوسرے قسم کے افراد پرکیابحث کی جائے مگر یہ بات حقیقت ہے کہ اگر ہم اپنے آس پاس پھیلے ذرائع پر دھیان دیں تو ہمیں جابجاایسی جماعت بہ کثرت ملے گی،اس جماعت سے بچنااور ان کی خبروں پرکان نہ دھرنا ہمارے بس میں ہے۔۔۔اگرہم چاہیں تو

اب ہم آتے ہیں پہلی قسم کے افراد کی طرف کہ جو بناتحقیق کسی خبر کی تشہیر میں اپناحصہ تو ڈالتے ہیں مگربعد میں خبر کے جھوٹاہونے کا جب علم ہوتا ہے تو ندامت محسوس کرتے ہیں۔ ایسے افراد کے بار ے میں اﷲ تعالیٰ قرآن پاک میں فرماتے ہیں :اے ایمان والو!اگرکوئی فاسق تمھارے پاس کوئی خبر لے کر آئے ،تو اچھی طرح تحقیق کرلیا کرو،کہیں ایسا نہ ہوکہ تم نادانی سے کچھ لوگوں کو نقصان پہنچابیٹھواور پھراپنے کیے پر پچھتاؤ(سورۃ الحجرات)۔لہٰذا بعد کی ندامت و شرمندگی سے بچنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ بات پھیلانے سے پہلے جہاں خوب سوچ بچار کر لیناچاہیے وہاں ہی اپنی ذاتی پسند و ناپسند کوبالائے طاق رکھتے ہوئے خبر کی سچائی کی تحقیق کرلینی چاہیے ۔ایک حدیث میں ارشاد نبوی صلی اﷲ علیہ وسلم ہے کہ آدمی کے جھوٹاہونے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات کو آگے پھیلادے(صحیح مسلم)۔ایک اور جگہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دیگر مسلمان محفوظ رہیں ۔

کاپی پیسٹ کا ایک اور بڑا نقصان یہ ہورہا ہے کہ عملی سرگرمیوں میں شمولیت بالکل ناپید ہورہی ہیں ۔سستی اور کاہلی کا یہ عالم ہے کہ کاپی پیسٹ کر کے یہ سمجھا جاتا ہے کہ اصلاح و تربیت کا فریضہ ادا کر کے بری الذمہ ہوگئے ہیں ۔اپنی سوچ کو اہمیت نہیں دی جاتی ہے جس سے اس کاپی پیسٹ کا یہ بھی نقصان ہورہا ہے کہ ذہنی قابلیت کو زنگ لگ رہا ہے کیوں کہ کاپی پیسٹ کا عمل مطالعہ ، تحقیق اور لکھنے کے عمل سے بہت زیادہ سہل اور جلدی ہوجاتا ہے اس لیے محنت اور کوشش کیے بنا ہم یہ عمل آسانی سے کر کے ذہن کو بھی سوچنے سے آزادی دلوا دیتے ہیں جس کی وجہ سے ہماری اپنی قابلیت اس آسان عمل سے زنگ آلود ہوجاتی ہے اور آسانی طلبی کی عادت جسم میں سرایت کر جاتی ہے ۔اس آسان طلبی کی وجہ سے کتب کے مطالعہ کے ساتھ ساتھ تحقیق کا رجحان بھی کم ہوتا جارہا ہے ۔

کاپی پیسٹ کے عمل سے ہم دانستہ یا نہ دانستہ طور پر چوری بھی سرزد کر جاتے ہیں جس کا ادراک کبھی کبھی ہمیں ہوتا بھی ہے اور کبھی کبھی ہم اس کو عام سی بات سمجھ کر پس پشت ڈال دیتے ہیں ۔مثلاً ایک مصنف اپنی تصنیف کی گئی کتاب کے شروع میں قانونی چارہ جوئی کرتے ہوئے اس کتاب کے اندر سے کسی قسم کے مواد کے کاپی کرنے سے منع کرتا ہے مگر اس کے باوجود ایک شخص سہل پسندی کو اپناتے ہوئے یا ذہنی کمزوری کوچھپاتے ہوئے اس کتاب میں سے کچھ مواد مصنف کی اجازت کے بنا کاپی کر کے اپنے نام سے چھپوا لیتا ہے تو سراسرچوری کے زمرے میں آئے گی جو نہ مذہباًاور نہ ہی اخلاقاً پسند کی جائے گی ہاں اگر کچھ پسند آیا ہے اور ایک بندہ چاہتا ہے کہ مصنف کی تصنیف سے یہ لے کر پھیلایا جائے تاکہ اور لوگ بھی مستفید ہوں تو اس کا حل یہی ہے کہ مصنف سے اجازت لی جائے ، اگر اجازت لینا ممکن نہیں ہے تو پھر مصنف کی تصنیف سے جو حصہ لیا جارہا ہے وہ کہیں پیسٹ کرتے ہوئے مصنف اور تصنیف کی مکمل تفصیل لکھ دی جائے جس سے مصنف بھی خوش ہوگا اور پسند کی گئے مواد سے دوسرے افراد بھی مستفید ہوں گے ۔

مختصر یہ کہ ہمیں زندگی کے ہر معاملہ میں چھوٹی چھوٹی اور بہ ظاہر عام لگنے والی باتوں کو اتنا ہلکا نہیں لینا چاہیے کہ ہم ثواب کماتے ہوئے گناہ سرزد کر جائیں ۔کاپی پیسٹ ایک چھوٹا سا اور عام سا عمل دکھائی دیتا ہے دوسرا معاشرے میں بھی اس کا پرچار عام ہے مگر یہ چھوٹا سا عمل بڑی تباہی کا موجب بھی بن سکتا ہے لہٰذا اس کا واحد حل احتیاط ہے اگر کی جائے تو۔۔۔
 

Nusrat Aziz
About the Author: Nusrat Aziz Read More Articles by Nusrat Aziz: 100 Articles with 78314 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.