ماں کا دودھ

دنیا بھر میں ہر سال اگست کا پہلا ہفتہ ماں کے دودھ کا منایا جاتاہے اس کو منانے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ خواتین میں زیادہ سے زیادہ بچوں کو دودھ پلانے کا شعور اجاگر کیا جائے اس ہفتے کے دوران ماں کی طرف سے بچے کو دودھ پلانے کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے

دنیا بھر میں ہر سال اگست کا پہلا ہفتہ ماں کے دودھ کا منایا جاتاہے اس کو منانے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ خواتین میں زیادہ سے زیادہ بچوں کو دودھ پلانے کا شعور اجاگر کیا جائے اس ہفتے کے دوران ماں کی طرف سے بچے کو دودھ پلانے کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے اور جو خواتین اپنے بچوں کو دودھ نہیں پلاتیں انہیں معلومات فراہم کی جاتی ہیں کہ اگر مائیں بچوں کو دودھ پلائیں تواس کا نہ صرف بچے کو فائدہ ہے بلکہ وہ خود بھی مختلف بیماریوں سے محفوظ رہ سکتی ہیں ۔ ماں کا دودھ دوران حمل عورت کے اندر پیدا ہوتا ہے اور بچے کی پیدائش کے تقریباً 24 گھنٹوں بعد اس کی فراہمی ممکن ہوتی ہے۔ماں کا دودھ جنسی ہارمون پروجسٹرون اور پرولیکٹین سے مل کر بنتا ہے۔پرولیکٹین نامی ہارمون ایک طرف تو ماں کے اعصابی نظام کو کنٹرول کرتا ہے، دوسری جانب یہ پیدا ہونے والے دودھ کی مقدار کو بھی کنٹرول کرتا ہے۔ماں کے دودھ میں جادوئی اثر پایا جاتا ہے کیونکہ بچے کی پیدائش کے بعدچند ہفتوں کے دوران اْس کا مکمل نظام ہضم ماں کے دودھ سے ہی نشو و نما پاتا اور مضبوط ہوتا ہے۔ ماں کا دودھ بچے کو آنتوں کے انفیکشن سے بچاتا ہے، اْس کے نظام ہضم کو مضبوط بناتا ہے۔ ماں کا دودھ پینے والے بچے کے پیٹ میں ابھار یا سوجن نہیں ہوتی، نہ ہی اْسے قبض کی شکایت ہوتی ہے۔بچے کا مدافعتی نظام مضبوط بنانے اور اْسے مختلف الرجیز سے محفوظ رکھنے میں ماں کے دودھ سے بہتر دنیا کی کوئی چیز نہیں ہو سکتی۔ اس کے علاوہ ماں کا دودھ پینے والے بچے کے مسوڑے اور جبڑے بھی مضبوط ہوتے ہیں۔ماں کے دودھ میں موجود اہم ترین اجزاء معدنیات، وٹامن، چکنائی، امائینو ایسیڈ وغیرہ ہیں۔ اس کے علاوہ ڈی این اے کیلئے بنیادی اہمیت کے حامل نامیاتی مرکب نیوکلیو ٹائیڈ، توانائی فراہم کرنے والا کاربوہائیڈریٹ موجود ہوتا ہے جو بچے کی جسمانی نشو و نما کیلئے نہایت ضروری ہے۔بچے کی نشوونما کو ہم مختلف مرحلوں میں تقسیم کرتے ہیں جس میں سب سے پہلا مرحلہ ایک سے تین ماہ کا ہوتا ہے۔ اس دوران بچے صرف دودھ پر انحصار کرتے ہیں۔نوزائیدہ بچوں کیلئے سب سے زیادہ اہمیت ماں کے دودھ کی ہوتی ہے جس کے ذریعے بچے کو وٹامن ڈی ملتا رہتا ہے اور اسے دوسری کسی چیز کی ضرورت نہیں ہوتی۔ جیسے جیسے دن گزرتے ہیں ویسے ویسے بچے کی دودھ کی طلب بڑھتی چلی جاتی ہے۔ پہلے اگر وہ دن میں 5مرتبہ دودھ پیتا ہے تو رفتہ رفتہ وہ اس سے زیادہ مرتبہ اور زیادہ مقدار میں دودھ پینے لگتا ہے۔یاد رکھیں کہ بچہ اپنی بھوک کے مطابق ہی دودھ پیتا ہے اس لئے اگر وہ کسی وقت سو رہا ہے تو اسے اٹھاکر دودھ پلانے کی ضرورت نہیں ہے۔ماں کے سینے میں ہر روز ایک لیٹر تک دودھ بنتا ہے۔ ایک شیر خوار ایک وقت میں 200 سے 250 ملی لیٹر تک دودھ پیتا ہے۔ تاہم ماں کے سینے میں دودھ کی پیداوار کی مقدار بچے کی ضرورت کے مطابق تبدیل ہوتی رہتی ہے۔ عالمی ادارہ صحت ڈبلیو ایچ او اور مختلف قوموں کے کمیشن ماؤں کو مشورہ دیتے ہیں کہ وہ بچے کو کم از کم چھ ماہ تک دودھ پلائیں اور چوتھے مہینے سے بچے کو اضافی غذا دینا شروع کریں۔بچے کو دودھ پلانے کی میعاد مختلف ثقافتوں میں مختلف ہے۔ وسطی افریقہ میں مائیں اپنے بچوں کو عموماً ساڑھے چار سال کی عمر تک اپنا دودھ پلاتی ہیں جس کا مطب یہ ہوا کہ اوسطاً ایک ماں 16 ہزار لیٹر دودھ پیدا کرسکتی ہے۔ مجموعی طور پر دنیا کی تمام ثقافتوں سے تعلق رکھنے والی ماؤں کے دودھ پلانے کی میعاد اوسطاً 30 ماہ بنتی ہے۔قرآن مجید میں بھی ماؤں کو بچوں کو دودھ پلانے کی تلقین کی گئی ہے ، تحریر ہے کہ’’اور مائیں اپنی اولاد کو دو سال کی مکمل مدت تک دودھ پلائیں (یہ اس کیلئے ہے) جو مدت رضاعت مکمل کرنا چاہتا ہے۔‘‘ (آیت نمبر 233 سورہ البقرہ) ۔ہم سمجھتے ہیں کہ ماں کا دودھ پلانا ماں اور بچے دونوں کی صحت کیلئے مفید ہے کیونکہ ایک سروے کے مطابق چھاتی کے کینسر کی ایک سب سے بڑی وجہ ماؤں کا بچوں کو اپنا دودھ نہ پلانا ہے اور ماؤں کے بچوں کو دودھ نہ پلانے کی وجہ سے ہی چھاتی کے سرطان کی شرح میں اضافہ ہورہا ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ خواتین میں بچوں کو دودھ پلانے کے حوالے سے شعور و آگاہی پیدا کی جائے اور اس مقصد کیلئے مختلف تقریبات کا آغاز کیا جائے جن کی بدولت گھریلوخواتین کو اس بات کی تلقین کی جائے کہ وہ اپنے بچے کو اپنا ہی دودھ پلائیں۔

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

Wajahat Hussain Qazi
About the Author: Wajahat Hussain Qazi Read More Articles by Wajahat Hussain Qazi: 17 Articles with 15140 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.