میڈیا ہماری نظریاتی سرحدوں کا محافظ

آج کی دنیا ایک چھوٹا سا گاؤں بن چکی ہے جہاں ہر ایک ہر وقت دوسرے سے با خبر ہے۔ اسی با خبری کی وجہ سے ہی ہر ایک دوسرے پر کڑی نظر رکھے ہوئے ہے۔اقوام، اقوام کے سامنے فوری جوابدہ ہیں تو حکومتیں عوام کے سامنے یوں کسی کو پہلے کی طرح کھل کھیلنے کا موقع کم ملتا ہے۔ ہر ایک پر میڈیا کے کیمرے کی آنکھ مرکوز ہے اور اچھی بات تو یہ ہے کہ یہ زد سب کے لیے برابر ہے۔اب کسی ملک کی خبر نا ممکن نہیں اور کسی معاشرے کا کلچر اجنبی نہیں رہا کہ ظاہر ہے الیکٹرانک میڈیا پلک جھپکنے سے پہلے جہاں خبر آپ تک پہنچا دیتا ہے وہیں معاشروں کے اندر کے حالات اور رہن سہن سے بھی آپ کو خبردار کر دیتا ہے۔ لیکن اس ہما ہمی میں جو ایک کام بہت مشکل ہے وہ ہے کسی ملک کے لیے اپنی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت۔ یہ سرحدیں آپس میں کچھ اس طرح گڈ مڈ ہوگئیں ہیں کہ نظریوں اور ثقافتوں کی تمیز مشکل ہوگئی ہے۔ میڈیا ایک ایسا طاقتور ذریعہ ہے کہ جس نظریے کو ابھارنا چاہے ابھار دے اور جس کو دبانا چاہے دبا دے اسے میڈیا کی خوش قسمتی سے زیادہ اس کی ذمہ داری گردانا جائے تو زیادہ موزوں ہوگا کیونکہ آج ہم جن حالات سے گزر رہے ہیں وہاں اس ملک کے ہر فرد کو بطور فرد لیکن سب سے بڑھ کر ہر ادارے کو بطور ادارہ اپنی ذمہ داریوں کو نبھانا ہے اور اس عزم سے نبھانا ہے کہ تاریخ کا دھارا موڑا جا سکے۔ اور میڈیا کی یہ ذمہ داری اس لیے زیادہ ہے کہ اُس نے تاریخ بنانی بھی ہے اور تاریخ کا ریکارڈ بھی رکھنا ہے۔ اُسے یہ یاد رکھنا چاہیے کہ اگر جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کے لیے افواج پاکستان کو ذمہ داری سونپی گئی ہے تو نظریاتی سرحدوں اور نظریہ پاکستان کی حفاظت میڈیا اور افواجِ پاکستان کی مشتر کہ ذمہ داری ہے۔ جس طرح فوج ان ذمہ داریوں کا حلف اٹھاتی ہے میڈیا کو بھی حلفیہ اس کو قبول کرنا چاہیئے۔لیکن دکھ اُس وقت ہوتا ہے جب ہم ایسا کوئی منظر اپنے ٹیلی وژن سکرین پر نہیں دیکھ پاتے۔ ہمارے نیوز چینلز آج کل کے پسندیدہ ترین چینلز ہیں۔ لیکن اِن چینلز سے کبھی کبھی انتہائی غیر ذمہ داری کا ثبوت دیا جاتا ہے اور ’’صحافتی جرأت‘‘ کی آڑ لے کر قومی اداروں کو خوامخواہ کی تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ کافی عرصہ تک یہ کھیل افواج پاکستان کے ساتھ کھیلا گیا اور صرف ایک شخص جس کو سیاستدانوں نے صدر منتخب کیا تھا کسی فوجی سپاہی یا افسر نے نہیں اُس کے تمام اعمال اور تمام فیصلوں کا ذمہ دار فوج کو ٹھہرایا گیا اور اس بات کو عوام کے ذہنوں میں اس طرح راسخ کیا گیا کہ ابھی تک اس کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔ دو چار دن پہلے ایک انتہائی پڑھے لکھے صاحب سے ملاقات ہوئی تو موصوف نے فوج پر کچھ اس طرح تنقید کی اور اس لہجے میں کی جیسے وہ کسی دشمن ملک کی فوج کا ذکر کر رہے ہوں۔ اور ساتھ ہی انہوں نے میڈیا کا حوالہ دیا۔اگر میڈیا ایک پڑھے لکھے شخص کے ذہن کو اس طرح ڈھال سکتا ہے تو ایک اَن پڑھ آدمی کے معاملے میں تو اُسے کسی مشکل کا سامنا ہی نہیں کرنا پڑے گا۔اگر تفریحی چینلز کو لیا جائے تو انہیں تو دل کسی طرح بھی اپنا ماننے کو تیار ہی نہیں ہوتا ایسے ایسے مناظر نظر آتے ہیں الامان الحفیظ۔ غیر ملکی چینلوں سے مقابلے کے نام پر ہم نے اپنی ثقافت اور کلچر کو مار دیا ہے اب صرف دفن کرنا باقی ہے یعنی نہ کہانی ہماری نہ معاشرت نہ لباس نہ خیالات اور اگر ذرا اشتہارات پر نظر پڑے تو پھر تو کوئی اور ہی دنیا نظر آتی ہے۔ایک موبائل فونز کے اشتہارات کو لیجیے اور سوچئیے کہ وہ کیا بتانا چاہتے ہیں موبائل فون یا کوئی اور تعلیم۔ اور میوزک چینل پر تو نظر نہ ہی پڑے تو اچھا ہے۔

میرا یہ سب کچھ کہنے کا مقصد میڈیا کو برا بھلا کہنا ہرگز نہیں لیکن مجھے ہی کیا اس قوم کو میڈیا سے بہت سی امیدیں ہیں بلکہ ہر طرف پھیلی ہوئی مفاد پرستی اور خودغرضی میں یہی میڈیا ہی امید بن کر سامنے آتا ہے کہ یہی وہ محاذ ہے جہاں سے ہم اپنی نظریاتی جنگ لڑ سکتے ہیں اور یہاں سے وہ کچھ آنا چاہیے جو کہ اسلامیہ جمہوریہ پاکستان کی ضرورت ہے جدیدیت بری نہیں ہے لیکن نظریہ حیات کی قیمت پر نہیں۔ قوم کو شعور وآگہی دیں انہیں اپنی قوم دکھائیں۔ بڑے بڑے شاہانہ گھر، طرز زندگی، لباس کی ضرورت پوری نہ کرنے والے لباس یہ سب کچھ معاشرے میں فرسٹریشن کو فروغ دے رہے ہیں اور مقابلے کی دوڑ کا باعث بن رہا ہے۔ قناعت پسندی کی بجائے ہل من مزید کی ایک وجہ یہ سب بھی ہے۔آج کی نسل گود مادر اور درسگاہوں سے زیادہ اس میڈیا سے متاثر ہوتی ہے اسلیئے احتیاط انتہائی ضروری ہوجاتی ہے۔

حقائق صرف سیاسی نہیں سماجی بھی ہوتے ہیں انہیں بھی سامنے لانا انتہائی ضروری ہے۔ معاشرتی حقائق کو سامنے لانا زیادہ مشکل ہے انہیں سامنے لایا جائے اور پھر اس ذریعے کو محاذ اور درس گاہ بنا کر قوم کی تقدیر بدلنے کا کام لیا جائے۔

آزادی صحافت کو آزادی صحافت کے اصولوں کو مدنظر رکھ کر کیا جائے اور میڈیا ایک مشینری جذبے کے تحت سپاہیانہ اور مجاہدانہ جذبے سے ملکی مسائل کے خلاف سینہ سپر ہوجائے۔اگر ہم نے اپنی نظریاتی سرحدیں خالی چھوڑ دیں تو اگر جغرافیائی اکائی کے طور پر ملک محفوظ بھی رہے تو ہم اپنا ملی تشخص کھودینگے۔اس ملک کی حفاظت ہمیں ہر محاذ پر کرنی ہے اور نظریہ پاکستان کو بحیرہ عرب یا بحر ہند میں غرق ہونے سے بچانا ہے اور اس تحفظ کی ذمہ داری میڈیا کو قبول کرنا ہوگی۔ محاذ کوئی بھی آسان نہیں ہوتا اور نظریاتی محاذ تو اہم ترین ہے۔ میڈیا کو یہ محاذ سنبھالنا پڑے گا اور اسے جتنی بھی مخالفت اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑے بین الاقوامی معیار سے بڑھ کر قومی معیار اور مفاد کو مدنظر رکھنا ہوگا قومی تشخص کی ہر قیمت پر حفاظت کرنی ہوگی قومی اداروں کی مضبوطی کے لیے انتہائی ایمانداری اور غیرجانبداری سے کام کرنا ہوگا اور قوم کو detrack ہونے سے بچانا ہوگا۔
Naghma Habib
About the Author: Naghma Habib Read More Articles by Naghma Habib: 514 Articles with 508875 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.