NA.192 کی موروثی سرگزشت اور دخترِ ڈیرہ غازی خان

محترمہ زرتاج گل نے قبیلہ ،وزیراحمدزئی صوبہ KPK(سرحد) کے علاقہ فاٹا میں گل شیرخان وزیر کے ہاں آنکھ کھولی۔ گل شیرخان وزیر کی اولاد میں اُن کی تین بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے لیکن اُن کا ایک بیٹا لاہوربم بلاسٹ میں جامِ شہادت نوش کر چکا ہے۔محترمہ زرتاج گل کے والدگرامی نہایت پڑھے لکھے شخصیات میں سے ایک ہیں۔جنھوں نے پشاور یونیورسٹی سے انجنئیرنگ کیا بعدازاں ملک وقوم کی خدمت کے لیے واپڈا میں ملازمت اختیارکی اور مذکورہ محکمہ سے چیف انجینئرکے عہدہ سے ریٹائرڈ ہوئے ۔گل شیرخان وزیر ایک باشعور انسان ہیں جنھوں نے اپنی اولاد کی تعلیم وتربیت میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔محترمہ زرتاج گل ایک باصلاحیت طالبہ کی حیثیت سے ’’کوئین مَیری کالج،لاہور‘‘ سے گریجویشن کے بعد ’’نیشنل کالج آف فائن آرٹس ‘‘سے ماسٹر کا امتحان پاس کیا۔زمانۂ طالب علمی ہی سے انھوں نے سوشل ورکر کے طورپر ۲۰۰۵ء میں شوکت خانم کینسرمیموریل ہسپتال کے لیے چندہ مہم کی Compaignچلائی۔ بعدازاں ۲۰۱۰ء میں ان کی شادی دیرہ غازی خان کے تعلیم یافتہ اخوندخاندان میں اخوندہمایوں رضاخان سے ہوئی اور اسی سال انھوں نے سیاست میں پہلاقدم رکھا۔ان کے شوہر اخوندہمایوں رضاخان پہلے پاکستان تحریکِ انصاف کاحصہ تھے۔ چناں چہ وہ پاکستان تحریکِ انصاف کی Core Commiteeکی ممبر بن گئیں اور ساتھ ہی انھیں پنجاب خواتین وِنگ کی صدارت کا عہدہ بھی سونپاگیا۔سیاست میں آتے ہی محترمہ زرتاج گل نے دیرہ غازی خان میں پاکستان تحریک کے لیے محنت اورلگن سے کام کیا۔ ان کی سرشت اور صلاحیتوں کو دیکھ کر دیرہ غازی خان کے عوام نے انھیں خوش آمدید کہا اور جوق درجوق پاکستان تحریکِ انصاف کا حصہ بنتے گئے۔

قومی الیکشن ۲۰۱۳ء میں انھیں پاکستان تحریکِ انصاف کی طرف سے NA.172کاٹکٹ جاری کیا گیا۔مذکورہ الیکشن میں ان کا مقابلہ حافظ عبدالکریم (پاکستان مسلم لیگ۔نون) اور سردار جمال خان (بطورآزاداُمیدوار) سے ہوا۔دیرہ غازی خان میں محترمہ کی الیکشن Compaignسے لوگوں نے گہرا اثر لیا اور کہا:
؂ تم اُگاؤ شجر محبت کے
ہم پرندے بُلا کے لاتے ہیں

۲۰۱۳ء کے قومی الیکشن میں حافظ عبدالکریم (پاکستان مسلم لیگ ۔نون)49142ووٹ لے کر کامیاب قرار پائے اور محترمہ زرتاج گل نے 38393ووٹ لے کرRunner upچیف آف لغاری ٹرائب سردار جمال خان لغاری سے 968قدم پیچھے رہی۔فی الحقیقت محترمہ زرتاج گل نے دیرہ غازی خان کے روایتی اور جاگیردارانہ نظام کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا دی تھی۔وہ الیکشن تو ہار گئی تھیں لیکن ان کے عزم و حوصلے جوان رہے۔خدامعلوم وہ سیاست میں کس کی مقلّد ہیں کہ انھوں نے اپنے ووٹر کے اعتماد واعتبار کو متزلزل ہونے سے بچائے رکھا۔وہ ہار کر بھی اپنے حلقہ کے عوام میں موجود رہیں یہاں تک کہ مسرّت وشادمانی سے لے کر غم وحزن تک لوگوں کا ساتھ دیا۔وہ اس فرسودہ سیاسی نظام اور زِشت رُو جاگیردارانہ سیاست کے مقابلے میں شعوروآگہی بانٹتی رہیں۔ان ایّام میں ان کاموضوعِ بحث ووٹ،ووٹر اور کامیاب ہونے والے اُمیدوار کے فرائض اور منصب رہا۔اس طرح ان کی سوچ وفکر مدبّرانہ صورت اختیار کرتی گئی۔

’’پاکستان مسلم لیگ ۔ن‘‘کی روایتی اور مطلق العنان حکومت کا گزشتہ دور متنازعہ اور کانسی ٹیوشن کے متناقض رہا۔سانحہ ماڈل ٹاؤن لاہور،پانامہ لیکس،حدیبیہ پیپرملز،ایون فیلڈمحل ،اسلام آباد میں احتجاجی دھرنوں میں عوام پر تشدّد اور صوبوں کے درمیان عصبی تصادم نے پاکستان تحریکِ انصاف کے اُمیدوار ،ٹائیگرز اور ووٹرز کو ناصرف چوکنا کیا بلکہ ان کاسیاسی گراف بھی اوپر ہوتا چلاگیا۔مزیدبراں ۲۰۱۷ء کی مردم شماری نے جلتی پر تیل کاکام کیا۔اس طرح دوسرے صوبوں کی خودمختاری بھی مجروح ہوئی۔قومی اسمبلی کی نشستوں میں کافی حدتک تضاد واقع ہوا۔صوبہ پنجاب کی 141قومی نشستوں کے مقابلے باقی تینوں صوبے 131قومی نشستیں رکھتے ہیں جو کہ یہ ایک کھلا تضاد اور واضح استحصال ہے۔حالاں کہ آبادی اورانتظامی امورکے لحاظ سے صوبہ پنجاب کو تین حصوں میں تقسیم ہونا چاہیے تاکہ دوسرے صوبوں کی خود مختاری اور اعتماد بحال رہے لیکن ایساکہاہوتا ،تخت لاہور کے مہاراجے اس ضمن میں مجموعۂ اضداد ہیں۔

ان حالات وواقعات کے پیش نظر علی الخصوص پاکستان تحریک ِ انصاف نے دھرنوں کے اختتام ہی سے اپنی الیکشن compaignشروع کردی تھی۔علاوہ ازیں ۲۰۱۷ء کی مردم شماری کے بعد کچھ نئے حلقے وجودمیں آئے اور پرانے حلقوں کا جغرافیہ بھی متاثر ہوا۔ضلع دیرہ غازی خان میں حلقہ بندی کی ذمہ داری سابق صدر سردارفاروق احمدخان لغاری مرحوم کے فرزندارجمند جناب اویس خان لغاری کو سونپی گئی۔جنھوں نے اپنے فرائض اچھے اور احسن طریقے سے نبھائے اورحلقوں کی جوڑ توڑ میں ان کو جتنی داد دی جائے کم ہے۔ حلقوں کی جغرافیائی اعتبار سے ان کی مدبّرانہ سوچ لائقِ صدتحسین ہے۔’’پاکستان مسلم لیگ ن‘‘نے منہ بِسورتے اپنے پانچ سال مکمل کیے بعدازاں ایک عبوری سیٹ اپ قائم ہوا۔اس عبوری سیٹ اپ کے دوران پارٹیوں میں جوڑ توڑ کا عمل شروع ہوا تو دیرہ غازی خان سے سردارمقصوداحمدخاں لغاری اورسابق گورنر سردار ذوالفقار علی خان کھوسہ نے پاکستان تحریکِ انصاف میں شامل ہونے کاعندیہ دیا ۔اس دوران لوگوں میں ایک کھلبلی سی مچی کہ شاید محترمہ زرتاج گل اورحنیف خان پتافی کی حیثیت پارٹی میں ایک کارکن کی سی ہوگی لیکن راقم الحروف زرتاج گل کے حوالے سے کُلی طور پر مطمئن تھا کہ اس کے حلقے میں کوئی اور نہیں آسکتا اور ہوابھی ایسے!۔

۲۰۱۸ء کے قومی الیکشن میں سابقہ حلقہ NA.172کا نمبرتبدیل ہوکر NA.191ہوگیا۔بالآخر عمران خان نے NA.191کا ٹکٹ محترمہ زرتاج گل کو جاری کردیالیکن مدّمقابل اُمیدواران کے پینل میں تبدیلی رونماہوئی۔ چوں کہ جغرافیائی اور سیاسی صورت حال کے اعتبار سے یہ حلقہ حافظ عبدالکریم اور سردارجمال خان لغاری کا بنتا تھا،حافظ عبدالکریم سنیٹر منتخب ہوگئے تھے اور سرداراویس احمدخان لغاری نے اپنے بڑے بھائی سردارجمال خان لغاری کو سرے سے ہی ۲۰۱۸ء کے الیکشن سے دور رکھا ۔خدامعلوم یہ کون سی دانش مندی ہے۔

حالیہ الیکشن میں حلقہ NA.191پر ایک درجن اُمیدواروں نے حصہ لیا ۔دراصل مقابلہ محترمہ زرتاج گل اور اویس خان لغاری کے درمیان تھا۔ اس حلقہ میں سرداراویس خاں لغاری کوموروثی تُمن داری ،پاکستان مسلم لیگ ۔نون کی ٹکٹ اوردوبار فیڈرل منسٹر ہونے کی برتری حاصل تھی۔مجھے یہ شرف حاصل ہے کہ متعدد صحافی دوست میرے ہم جلیس ہوا کرتے ہیں ۔کثیر صحافی برادری کی Opinionتھی کہ زرتاج گل کا سردار اویس خاں لغاری سے مقابلہ نہ ہونے کے برابر ہے لیکن میری رائے ان کے برعکس رہی۔ کیونکہ صحافی وقت کے ساتھ سفرکرتاہے اور اس کے مقابلے ایک دانش ور اور سوشل ورکر ہمیشہ سیاسی پارٹیز کے نظریات اور منشور کا تجزیہ کرتا ہے۔درخواست انٹری سے لے کرپچیس جولائی ۲۰۱۸ء تک یہی بحث وتکرار رہا۔راقم الحروف ببانگِ دُہل کہہ چُکا تھا کہ NA.191پر محترمہ زرتاج گل صاحبہ Confirmممبر قومی اسمبلی ہیں۔اس میں میری کوئی دوسری رائے نہ تھی۔

بالآخر پچیس جولائی ۲۰۱۸ء کا سورج طلوع ہوا تو ووٹ کاسٹنگ کا سلسلہ شروع ہوا ،لوگوں کے جذبات سردار اویس خان لغاری کے لیے سازگار نہ تھے ۔نیز یہ کہ ہم نے پہلی بار قومی الیکشن میں شفافیت اور منظم نظام کو دیکھا۔حالیہ الیکشن میں الیکشن انتظامیہ کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے ۔مگر ہمارے موروثی سیاست دانوں کے مزاج اوررویّوں پر حبیب جالبؔ کا یہ شعر صادق آتا ہے کہ:
؂یہ لوگ اس کو ہی جمہوریت سمجھتے ہیں
کہ اقتدار رہے ان کے جانشینوں میں

شام ہوتے ہی جب رزلٹ آنا شروع ہوئے تو NA.191پر محترمہ زرتاج گل 79817ووٹ لے کر کامیاب قرارپائیں۔سرداراویس خاں لغاری 54548ووٹ لے کر Runner upرہے۔سابق چیف منسٹر سردار دوست محمدخان کھوسہ 31997ووٹ لیکر تیسرے نمبر پر جب کہ پاکستان پیپلزپارٹی کی اُمیدوار پروین اختر 7961ووٹ لے کر چوتھے نمبرپر رہی۔یوں دیرہ غازی خان کی ایک قومی اسمبلی کی نشست پر پہلی بارایک خاتون کامیاب ہوئیں۔لہذا محترمہ زرتاج گل کو خاتونِ اوّل اور دخترِ دیرہ غازی خان ایسے القابات دینے کے سوا کوئی اور چارہ کار نہیں۔ آئندہ مؤرخ انھی القابات سے انھیں مخاطب کرے گا۔ مگر بقول غالب!
؂ جراحت ، تحفہ الماس ،ارمغاں داغِ جگر ہدیہ
مبارک باد اسد غمخوارِ جانِ دردمند آیا
٭٭٭

Farid Sajid Lighari
About the Author: Farid Sajid Lighari Read More Articles by Farid Sajid Lighari: 3 Articles with 5856 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.