جائزہ کاموں میں سفارش کا اجر و ثواب

تحریر: ام محمد عبداﷲ، جہانگیرہ
بیگم صاحبہ! آج کل بارشیں بہت ہو رہی ہیں۔ کچا مکان ہے۔ چھت ٹپکنے لگتی ہے۔ بہت مشکل ہو جاتی ہے اگر آپ مجھے کچھ رقم دے دیں تو مہربانی ہو گی۔ برکت بی بی امی جان سے کہہ رہی تھیں۔ سلمان نے نگاہ اٹھا کر انہیں دیکھا۔ برکت بی بی بیچارگی جبکہ امی بیزاری لیے تھیں۔ ابھی جاؤ میں پھر دیکھوں گی۔ وہ اسے اٹھانا چاہتی تھیں۔ بیگم صاحبہ تو میں کب آؤں؟ اس نے پوچھا۔ میں اگر کوئی بندوبست کرسکی تو کوئی بچہ بھیج دوں گی. تم مت آنا۔ امی جان نے ٹکا سا جواب دیا۔وہ سخت دل نہیں تھیں، اکثر لوگوں کے کام آتیں لیکن اس وقت مہینے کا اختتام تھا اس لیے وہ برکت بی بی کی مدد سے ہچکچا رہی تھیں۔

سارا دن سلمان کا ذہن برکت بی بی کے بوسیدہ مکان میں اٹکا رہا۔ وہ جانتا تھا برکت بی بی سچ کہہ رہی تھیں۔رات ہو چکی تھی۔ اوہو! بجلی پھر چلی گئی۔ امی جان یہاں بہت گرمی ہے۔ میں اور سائرہ تھوڑی دیر کے لئے چھت پر چلے جائیں سلمان نے امی سے پوچھا۔ چلے جاؤ لیکن ذرا دھیان سے۔

چھت کی کھلی فضا کمرے کے بند ماحول سے بہتر تھی۔ہلکی ہلکی ہوا چل رہی تھی۔ چودھویں کا چاند اپنی حسین جگمگاہٹ کے ساتھ بادلوں میں نکلتا چھپتا دلکش منظر پیش کر رہا تھا۔ سلمان اور سائرہ چھت کی دیوار کے ساتھ کچھ اس طرح لگ کر کھڑے ہوئے کہ سارے شہر کا منظر ان کی نگاہوں کے سامنے آگیا۔ دور جی ٹی روڈ پر گاڑیوں کی قطار، دور بہت دور اونچے اونچے پہاڑ اور ان پر کھڑے درخت۔ کتنا اچھا لگ رہا ہے۔ سائرہ نے اشارہ کیا۔ جی ہاں سلمان نے تائید کی لیکن پھر خود بخود اس کی نظریں کالونی کے اس طرف کچی بستی کی جانب مڑ ئیں۔ جہاں انسانوں کی دریافت کردہ سہولیات تو مفقود تھیں لیکن قدرت کی چاندنی اتنی ہی فیاضی سے وہاں بھی بکھری ہوئی تھی جتنی کہ یہاں۔ برکت بی بی کا گھر بھی تو اسی کچی بستی میں ہے، اس نے سوچا۔

سائرہ تمہیں پتا ہے برکت بی بی امی سے کچھ قرض مانگ رہی تھیں۔ سلمان نے سائرہ کو مخاطب کیا۔ جی ہاں دن میں کچھ ایسی بات ہورہی تھی۔ سائرہ نے جواب دیا۔ امی اس کی مدد کرنے سے ہچکچا رہی تھیں۔ سلمان نے سائرہ کو بتایا۔ اچھا! میں نے توجہ نہیں کی۔ سائرہ نے جواب دیا۔ سائرہ میرا دل چاہ رہا ہے۔ میں امی سے برکت بی بی کی سفارش کروں۔ وہ ضرورت مند ہے۔ امی صدقہ و خیرات اکثر دیا کرتی ہیں۔ اس مرتبہ برکت بی بی کو دے دیں، سلمان نے سائرہ کی جانب دیکھا۔ جی بھیا۔ سفارش سے یاد آیا وہ حدیث بھی ہے ناں۔اشفعوا تو جروا، جائز سفارش کرو اجر پاؤ گے۔ تو تمہارا کیا خیال ہے؟سلمان نے سائرہ سے پوچھا۔ اس سے پہلے کے سائرہ جواب دیتی ابا جان جو ابھی اوپر آئے تھے پیار سے بچوں سے پوچھنے لگے۔ بچے چھت پر کیا کر رہے ہیں؟ بابا جانی ہم امی جان سے برکت بی بی کی سفارش اور حدیث اشفعوا تو جرو ا سفارش کرو اجر پاو گے پر بات کر رہیہیں۔ آپ ہماری رہنمائی کریں۔

آؤ بیٹھتے ہیں۔ ابا جان نے چھت پر پڑے بنچ پر بیٹھتے ہوئے سائرہ اور سلمان کو اپنے دائیں بائیں بٹھا لیا۔ یہ حدیث صحیح بخاری اور مسلم شریف میں ہے۔ حضرت ابو موسی اشعری راوی ہیں۔ اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم کے پاس جب کوئی ضرورت مند آتا تو آپ اپنے شرکائے مجلس کی طرف متوجہ ہوتے اور فرماتے اس کے لئے سفارش کرو تمہیں بھی اجر دیا جائے گا اور اﷲ اپنے نبی کی زبان پر جو پسند فرماتا ہے فیصلہ فرما دیتا ہے۔ بابا جانی نے بچوں کو حدیث کی تفصیل بتاتے ہوئے کہا۔ ہر اچھے اور نیکی کے کام کے لئے سفارش نہ صرف پسندیدہ ہے بلکہ اس پر اجر و ثواب بھی ہے۔ ابو سفارش ہم کن کن کاموں میں کر سکتے ہیں؟ سائرہ نے پوچھا۔ بیٹے ہر جائز اور نیکی کے کام میں سفارش کی جاسکتی ہے، ابو نے بتایا۔

جیسے کسی غریب ذہین بچے کی کسی تعلیمی ادارے میں مفت داخلے کی سفارش ، کسی غریب کو کھانا کھلانے کی سفارش سلمان سوچتے ہوئے بولا۔ کسی باصلاحیت نوجوان کی نوکری کے لئے سفارش یا پھر کوئی بھی نیکی کا کام کرنے پر انعام دئیے جانے کی سفارش۔ سائرہ نے بھی چند مثالیں دیں۔ بالکل میرے بچو ! بابا جان اپنے بچوں کی ذہانت پر بہت خوش ہوئے بچو! یاد رکھنا ناجائز کاموں پر سفارش نہیں ہے۔ ناجائز کام؟ ناجائز کام کون سے ہوتے ہیں بابا جانی؟سلمان نے پوچھا۔ حرام کام مثلا شراب کی بوتل دینے کی سفارش۔سود لینے کی سفارش یا پھر کسی نکمے اور غیر مستحق شخص کو نوکری دئیے جانے کی سفارش وغیرہ۔ ہاں وہ واقعہ تو تم جانتے ہی ہو جس میں فاطمہ نامی ایک عورت چوری کے جرم میں نبی صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں لائی گئی اور آپ نے اس کا ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا۔ تو لوگوں نے حضرت اسامہ بن زید (رضی اﷲ تعالی عنہ) سے کہا کہ آپ دربار رسالت میں اس عورت کی سفارش کریں کہ اس کا ہاتھ نہ کاٹا جائے۔ جب حضرت اسامہ نے اس عورت کی سفارش کی تو نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس سفارش کو ناپسند فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا۔ کیا تم اﷲ کی حدود میں سفارش کرتے ہو اگر فاطمہ بنت محمد بھی چوری کرتی تو اس کے ہاتھ بھی کاٹ دئیے جاتے۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ حرام کاموں اور اﷲ کی حدود میں سفارش نہیں ہے۔ جزاک اﷲ خیرا کثیرا بابا جانی۔ سلمان اور سائرہ بات سمجھ جانے کی خوشی میں بابا جانی سے لپٹ گئے۔بجلی آگئی ہو گی جا کر سونا چاہیے۔ بابا جانی بولے۔

امی جان! برکت بی بی واقعی ضرورت مند ہیں۔ آپ ان کی مدد کر دیں۔ سلمان نے ناشتے پر امی جان کو مخاطب کیا۔ جی امی جان میں بھی انکی سفارش کرتی ہوں۔ سائرہ نے امید بھری نظروں سیانہیں دیکھا۔ آپ بچوں کی یہی سفارش ہے۔ امی جان بولیں تو ٹھیک ہے لیکن اس نیکی کے کام میں آپ کو بھی حصہ لینا ہوگا۔ وہ دل دل میں بچوں کی اچھی سوچ پر بہت خوش ہوئیں تو سوچا کہ چلو ذرا ان کا امتحان بھی ہو جائے۔ یہ رہا ہمارا حصہ سائرہ اور سلمان نے اپنا کوائن باکس امی جان کی جانب بڑھایا۔ ہم دونوں کیرم بورڈ کے لئے پیسے جمع کر رہے تھے۔ یہ آپ برکت بی بی کے لئے رکھ لیں ہم پھر جمع کر لیں گے۔

امی اور با با جانی ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر مسکرا دئیے ان کے دل گواہی دے رہے تھے کہ ہمارے بچے اﷲ تعالی کے فرمانبردار اور اسوہ رسول پر عمل کرنے والے ہونگے۔ ان شاء اﷲ
 

Maryam Arif
About the Author: Maryam Arif Read More Articles by Maryam Arif: 1317 Articles with 1041030 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.