کراچی میں پانی کے بحران کی حقیقت !

 اﷲ تعالیٰ کی حضرت انسان پر بے شمار نعمتیں ہیں ، جن کو حضرت انسان شمار ہی نہیں کرسکتا۔ انہی میں ایک اہم نعمت پانی ہے ، پانی کے بغیر حضرت انسان کی زندگی مکمل ہی نہیں ۔ اس نعمت کو حاصل کرنے کے لیے انسان کیا کیا نہیں کرتاہے۔ لیکن ان دنوں کراچی کے شہری اﷲ تعالیٰ کی اس نعمت سے محر وم ہیں۔ جس کی ایک وجہ بارش کا نہ ہونا ہے ، تو اور بھی کئی وجوہات ہیں جو تحریر میں آگے چل کر آپ کے سامنے آئینگے۔
ڈھائی کروڑ کی آبادی والے شہر کراچی کو روزانہ کی بنیاد پر 11سو ملین گیلن پانی درکار ہیں ۔ اس ضرورت کو پورا کرنے کیلئے بہترین منصوبہ بندی اور جدید انفرا اسٹرکچر نہایت ضروری ہے مگر حکومت کی بے نیازی اور انتظامیہ کی مبینہ کرپشن اور نااہلی نے اسے ایک ایسا مسئلہ بنادیا ہے جو حل ہونے کا نام نہیں لے رہا۔خطرے کی دوسری گھنٹی 24 ہزار ایکڑ سے زائد پر محیط حب ڈیم ہے، جہاں بارشیں نہ ہونے کے باعث پانی کی سطح ڈیڈ لیول کے قریب آگئی ہے ( ایسا کہنا ہے واٹر بو رڈ کے ذمہ د اروں اور میڈیا والوں کا )اور کراچی شہرکا سب بڑاضلع، ضلع غربی پانی کے بدترین بحران کا شکار ہے۔

کراچی کو حب ڈیم سے یومیہ 100 ملین گیلن پانی فراہم کیا جاتا ہے، دیگر اضلاع کا زیادہ تر انحصار کینجھر جھیل پر ہے، جبکہ اورنگی ٹاؤن ، بلدیہ ٹاوؤن، سائٹ ٹاؤن، کیماڑی اور دیگر علاقوں پر مشتمل ضلع غربی کا بیشتر انحصار حب ڈیم پر ہے۔ ذرائع کے مطابق ڈیم میں پانی کم ہونے کے بعد ضلع غربی کو متبادل ذرائع سے پانی فراہم کیا جائیگاتو بحران پورے شہر میں پھیلنے کا خدشہ ہے ۔موجودہ صورت حال یہ ہے کہ حب ڈیم کے کیچمنٹ ایریا پب، کرتھر، دھاجی اور شمالی بلوچستان میں ممکنہ بارشوں سے واٹر بورڈ حکام کو امید ہے کہ ضلع غربی کو یومیہ 8کروڑ گیلن پانی فراہم کیا جاسکے گا،جس سے اورنگی ، شیرشا، قصبہ کالونی، بنارس، کیماڑی اور کھاردار،اولڈ سٹی ایریا اور اطراف پانی کے بحران میں واضح کمی آئے گی۔حب ڈیم سے23 کلو میٹر طو یل کینال کے ذریعے پانی لائنوں کے ذریعے شہر میں سپلائی کیا جاتا ہے، تاہم ڈیم میں پانی ہی نہ ہو تو اتنی بڑی مقدار میں سپلائی ممکن ہی نہیں۔

عید سے کچھ دنوں قبل کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈکا اہم اجلاس ایم ڈی خالد شیخ کی سربرائی میں منعقد ہوا ،اجلا س میں کراچی میں پانی کے بحران پر غور کیا گیا ، جبکہ ضلع غربی میں پانی کی کمی پوری کرنے کے لیے ایک بار پھر حب ڈیم کے نچلے حصے میں موجود مضر صحت پانی متاثرہ علاقوں کو فراہم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ واضح رہے اس سے قبل 2016ء میں بھی جب حب ڈیم خشک ہونے لگاتھا تو اس وقت بھی ایک ایسا ہی منصوبہ 28 کروڑ روپے کی لاگت کا بناکر اس پر عمل در آمد کیا گیا تھا تاہم خوش قسمتی سے اس منصوبے کے افتتاح کے ساتھ ہی بارش ہونے کی وجہ سے منصوبے کے تحت ڈیم کی نچلی سطح سے پانی حاصل نہیں کیا جاسکا تھا۔

اس بات کو بھی ذہن نشین کریں کہ 2016ء میں واٹر بورڈ کی اپنی لیبارٹری کے انچارج نے ڈیم کے نچلے حصے میں موجود پانی کو انسانی صحت کے لیے مضر قرار دیا تھا۔ اس کے باوجود کنٹریکٹر معراج اینڈ کو سے مبینہ طور پر بغیر ٹینڈرز موٹریں اور پمپ حاصل کرلی گئیں تھیں جو تاحال ڈیم کے قریب ہی اسٹور کی ہوئیں ہیں۔ اخباری رپورٹ و باخبر ذرائع سے یہ معلوم ہوا ہے کہ واٹر بورڈ حکام نے ایک بار پھر ڈیم میں پانی کم ہونے پر نچلی سطح سے بڑے پمپوں کی مدد سے پانی حاصل کرنے کا فیصلہ کیا ہوا ہے ،اس ضمن میں ایم ڈی کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ نے متعلقہ انجینئرز کو ہنگامی بنیاد پر اقدامات کی ہدایت بھی کی ہے۔ رپورٹ کے مطابق ادارے کے سینئر انجینئرز اس مضر صحت پانی کو حاصل کرنے کی مخالفت کررہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ منصوبہ اس لیے بھی ناقابل عمل ہے کہ پروجیکٹ کے لیے بورڈ کے لیبارٹری انچارج بھی مخالفت کرچکے ہیں جبکہ ٹینڈرز وغیرہ کی کاروائی مکمل ہونے تک بارشیں ہوجائیں گی۔

واضح رہے کہ کراچی کے مختلف علاقوں میں گزشتہ ڈیڑھ ماہ سے پانی کا بحران شدت اختیار کرچکا ہے اور شہر کراچی کے مختلف علاقوں میں پانی کی فراہمی نہ ہونے کی وجہ سے شہریوں کی جانب سے احتجاج کا سلسلہ بھی جاری ہے۔رمضان المبارک کے بابرکت مہینے میں جس قسم کی تکلیف میں عوام سروں پر لاد کر بورنگ کا پانی حاصل کیا اس کا احساس حکمرانوں کو نہیں کیوں کہ ان کے گھروں میں پانی ختم بھی ہوجائے تو ان سیٹنگ ٹینکر مافیا کے ساتھ ہوتی ہے۔

حب ڈیم میں پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش 350فٹ تک ہے اور ڈیم کا ڈیڈ لیول 275فٹ قرادیا گیا ہے ،گزشتہ دن راقم کا ڈیم پر جانے کا اتفاق ہوا ، اس وقت بھی پانی کی سطح 286 فٹ پر موجود ہے ، یعنی ڈیڈ لیول تک پہنچے میں ابھی بھی 11فٹ کی گنجائش ہے۔ مگر کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ ایک مہینے قبل سے ہی ڈیڈ لیول ،ڈیڈلیول کا گن گانے لگی ہے ۔ جبکہ اس وقت بلوچستان کے کئی کھیتوں اور اینڈسٹریل ایریاز کو پانی فراہم کرنا مکمل طور پر بند ہے ، اس وقت حب ڈیم صرف حب شہر، لسبیلہ شہر اور کراچی کو پانی فراہم کررہا ہے۔ اگر بغیر کسی روکاورٹ کے ان تینوں شہروں کو پانی فراہم کیا جاتا رہے ، تو ایک فٹ پانی 6دن میں ختم ہوگا ، جبکہ ابھی ڈیڈ لیول پر پہنچنے کے لیے مزید دوماہ لگے نگے۔ تب تک مون سون کی بارشیں مکمل ہوکر پانی ڈیم پر پہنچ بھی گیا ہوگا ۔

اب قارئین کے ذہن میں یہ بات آئیگی کے حب ڈیم میں پانی ہونے کہ باوجود اور حب ڈیم سے کراچی کے طرف آنے والے نہر ہر وقت پانی سے بھرا ہونے باوجود ضلع غربی میں پانی کا شاٹینگ کیوں؟

جس کا جواب یہ ہے ٹینکر مافیا ۔ اس وقت کراچی میں سب سے مضبوط مافیا یہی ٹینکر مافیا ہی ہے ، کئی سیاسی جماعتوں کے نچلے سطح کی قیادت میں کئی قائدین اس وقت اپنے اپنے ہائیڈرین چلارہے ہیں ، اس کے فوائد صرف نچلے سطح کی قیادت کو نہیں اپری سطح کو بھی کمیشن ملتا ہے ، اس لیے وہ بھی خاموش ہے ۔ سابقہ حکمران جماعت کے کئی زمہ داران اس بہتی گنگا میں نہارہے ہیں۔ میں ان مافیا کے سرغنوں کے نام تو نہیں لکھ سکتا کیوں میں اتنا بڑا صحافی یا کالم نویس نہیں کہ کل ان کا ری ایکشن برداش کرسکوں مگر یہ حقیقت ہے کہ پانی کا موجودہ بحران مصنوعی ہے ۔ کراچی کے عوام کا پانی چوری کر کے عوام کو ہی مہنگے داموں میں فروخت کیا جارہاہے۔ اس میں اپر سے لیکر نیچے تک سب ملوث ہے۔

اس علاوہ پانی کے بحران میں بھی تھوڑی بہت حقیقت ہے ، کیوں کہ بحران اب کراچی کا نہیں پورے پاکستان کا بنتا جارہا ہے،کراچی کے ساتھ ملک بھر میں پانی کی قلت سنگین مسئلہ اختیار کرچکی ہے اور چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان میاں ثاقب نثار کی جانب سے قلت آب کے مسئلے پر ازخود نوٹس بھی لیا گیا ہے۔اس کے علاوہ گزشتہ روز واٹر اینڈ پاور ڈویلپمنٹ اتھارٹی (واپڈا) کے چیئرمین لیفٹننٹ جنرل (ر) مزمل حسین نے سینیٹ کمیٹی کو بتایا تھا کہ اگر پاکستان مستقبل کے تباہ کن خطرات سے بچنا چاہتا ہے تو اسے اپنے کھیتی کے طریقہ کار، پانی کے استعمال کی عادت اور منصوبہ بندی میں تبدیلی کرنا ہوگی اور پانی کی متعدد اسٹوریج بنانے کے ساتھ ساتھ 1960 کے سندھ طاس معاہدے کو جارحانہ خارجہ پالیسی کا حصہ بنانا ہوگاانہوں نے بتایا تھا کہ پاکستان پانی کی قلت کا خطرناک حد تک سامنا کرنے والے 15 ممالک میں شامل ہوچکا ہے اور ملک کو بڑھتی ہوئی آبادی کے درمیان فرق کو ختم کرنے اور بڑی تعداد میں پانی کے ذخائر کے لیے گنجائش کرنے کی ضرورت ہے۔

واضح رہے ہمارا پڑوسی ملک ہندوستان کے پاس اس وقت 5 ہزار 102چھوٹے بڑے ڈیمز موجود ہے اور کئی زیر تعمیر اس کے مقابلے میں پاکستان میں کل 155 ڈیمز ہے، کچھ کے منصوبے ہونے کہ باجود سیاسی چلقشوں کی وجہ رکے ہووے ہیں۔ جبکہ ہندوستان کی 170 دن تک پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش کے مقابلے میں پاکستان صرف 30 دن تک پانی ذخیرہ کرسکتا ہے۔

اﷲ تعالیٰ سے دعا ہے کہ یااﷲ میرے ملک کو خشک سالی سے محفوظ رکھیوں(آمین)
 

Inayat Kabalgraami
About the Author: Inayat Kabalgraami Read More Articles by Inayat Kabalgraami: 94 Articles with 85136 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.