معاشرے کی اصلاح کیسے ممکن ہے؟

معاشرہ کا کردارکسی بھی ملک و قوم کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہوتا ہے، معاشرہ ایک ایسی بنیاد ہے کہ جس پر ملکوں اور قوموں کی خوشحالی اور فلاح و بہبود کا انحصار ہوتا ہے، جس ملک و قوم کو ایک اچھا اور بہترین معاشرہ نصیب ہوتا ہے خوشحالی اور فلاح و بہبود اس کا مقدر ہوتی ہے، اس کے بر عکس جب معاشرہ بگاڑ کا شکار ہوتا ہے تو خوشحالی اور فلاح و بہبود جیسی نعمتیں اس ملک و قوم سے کوسوں دور چلی جاتی ہیں۔
بد قسمتی سے جب ہم اپنے معاشرہ کا جائزہ لیتے ہیں تو وہ مجموعی لحاظ سے خرابی اور بگاڑ کا شکار نظر آتا ہے ،جھوٹ ،بددیانتی،کرپشن ،قتل و غارت ، لوٹ مار ،لسانیت ، عصبیت ،لڑائی جھگڑے وغیرہ یہ سب وہ خرابیاں ہیں جو ہمارے معاشرہ کے لیے ناسور بن چکی ہیں اوران کی وجہ سے ہمارا ملک اور معاشرہ جس زبوں حالی کا شکار ہے وہ ہم سب کی آنکھوں کے سامنے ہے ،یہ ایک ایسی تلخ حقیقت ہے جس سے ہم من حیث القوم بخوبی واقف بھی ہیں،یہی وجہ ہے کہ’’معاشرہ بہت خراب ہوچکا ہے‘‘جیسے جملے ہمیں اکثرو بیشتر اپنے ارد گرد کے ماحول میں سننے کو ملتے ہیں لیکن المیہ یہ ہے کہ معاشرہ کی اصلاح کی جانب کوئی توجہ دینے کے لیے تیار نہیں ہے،در اصل اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ایک بہت بڑا طبقہ ’’معاشرہ ‘‘کی حقیقت سے ہی واقف نہیں ہے یا پھر اس کی طرف توجہ نہیں ہے ،اس لیے ’’معاشرہ‘‘ کی حقیقت کو سمجھنا ضروری ہے ۔

’’معاشرہ‘‘ بنیادی طور پر افراد کے مجموعہ کو کہا جاتا ہے ،کسی بھی جگہ ایک ساتھ رہنے والے افراد کو مجموعی لحاظ سے ’’معاشرہ‘‘ کہا جاتا ہے،گویا ’’معاشرہ ‘‘در اصل افراد ہی کا نام ہے ۔پس جب ’’معاشرہ ‘‘افراد سے بنتا ہے تو پھر اس لحاظ سے اس کی صلاح و بگاڑ کا دارو مدار بھی افراد کی صلاح و بگاڑ پر ہے ،اس لیے معاشرہ کی اصلاح کے لیے افراد کی اصلاح بہت زیادہ ضروری ہے ۔ اب ہمارے یہاں یہ ہوتا ہے کہ ہر فرد معاشرہ کو برا بھلا کہنا تو ضروری سمجھتا ہے لیکن وہ یہ نہیں سمجھتا کہ خود وہ بھی اسی معاشرہ کا حصہ ہے اور معاشرہ کی اصلاح کے لیے خود اس کا بھی انفرادی اور اجتماعی لحاظ سے کردار ادا کرنا ضروری ہے ، اگر معاشرہ بگاڑ کا شکار ہے تو وہ خود اس سے بری الذمہ ہرگز نہیں ہے ،معاشرہ کی اصلاح کے لیے اس بنیادی سوچ کا من حیث القوم ہمارے اندر پیدا ہونا بہت ضروری ہے کیونکہ یہی سوچ ان شاء اﷲ معاشرہ کی اصلاح میں کلیدی کردار ادا کرے گی،جب معاشرہ میں بسنے والا ہر فرد اس سوچ کی بنیاد پر مذہب اسلام کی تعلیمات کی روشنی میں اپنی اصلاح کی فکر کرنا شروع کردے گا اور معاشرہ کی اصلاح کے لیے انفرادی اور اجتماعی سطح پر اپنا کردا ربھی ادا کرتا رہے گا تو پھر ایک نیک اور صالح معاشرہ کا وجود میں آنا کوئی مشکل نہیں ہے ۔
معاشرہ کی اصلاح کے لیے مذہب اسلام میں بیان کردہ معاشرتی احکام اور مسائل سے واقفیت بھی ضروری ہے ،قرآن و حدیث میں جا بجا معاشرتی احکام و مسائل کا بیان ہے ،ان سب کا احاطہ کرنا مشکل ہے البتہ قرآن کریم کے چھبیسویں پارے کی ’’سورۃالحجرات‘‘میں یکجا طور پر چند انتہائی اہم معاشرتی احکام مذکور ہیں اور اس مناسبت سے یہ سورت خصوصی اہمیت کی حامل ہے ،ذیل میں ان احکام کو ترتیب وار مختصر وضاحت کے ساتھ بیان کیا جارہاہے :

1۔کسی بھی خبر پر بغیر تحقیق یقین کرکے اس پر عملی کاروائی کرنا :یہ ایک بہت ہی خطرناک معاشرتی برائی ہے اور بد قسمتی سے معاشرہ میں یہ بہت عام ہے ،ہوتا ہے کہ کسی کے متعلق کہیں سے بھی کوئی خبر یا بات سننے کو ملتے ہی تحقیق کی زحمت کیے بغیر نہ صرف یہ کہ اس پر یقین کرلیا جاتا ہے بلکہ اس پر عملی کاروائی بھی شروع کردی جاتی ہے ،بعد میں پتہ چلتا ہے کہ وہ خبر جھوٹ اور غلط تھی لیکن اس وقت تیر کمان سے نکل چکا ہوتا ہے اس لیے ندامت ہی نصیب ہوتی ہے ،اس لیے کسی کے متعلق کوئی خبر یا بات معلوم ہو تو اس پر یقین کرنے اور کوئی کاروائی کرنے سے پہلے اس کی اچھی طرح تحقیق کرنا ایک انتہائی اہم معاشرتی ذمہ داری اور حکم ہے ۔

2۔لڑائی کرنے والوں میں صلح کرنا:معاشرہ میں بسنے والے افراد کے درمیان اختلافات اوربسا اوقات لڑائی جھگڑے کا ہونا ایک فطری بات ہے ،ایسی صورت حال میں باقی لوگوں کے لیے محض تماشہ دیکھنے کے بجائے غیر جانبداری اور عدل و انصاف کے ساتھ ان کے درمیان صلح صفائی کرکے ان کے اختلافات اور لڑائی جھگڑے کو ختم کرنا ایک اہم معاشرتی ذمہ داری ہے، پھراگربالفرض ان میں سے ایک فریق دوسرے کے خلاف ظلم پر اتر آئے تو پھر ظالم جب تک اس ظلم سے باز نہ آجائے، مظلوم کی نصرت و حمایت کرنا بھی ضروری ہے ۔

3۔کسی دوسرے مسلما ن بھائی بہن کا مذاق اڑانا :یہ ایک انتہائی مذموم معاشرتی عمل ہے جس سے سختی کے ساتھ منع کیا گیا ہے ،در اصل مذہب اسلام میں ہر مسلمان کی عزت نفس کا بہت خیال رکھا گیا ہے اور اسی وجہ سے ہر ایسا عمل جواس عزت نفس کو مجروح کرے ،اس سے منع کیا گیا ہے ، ظاہر ہے کسی کے مذاق اڑانے اور تمسخر کرنے سے یقینا اس کی عزت نفس مجروح ہوتی ہے اس لیے یہ عمل ممنوع ہے، اﷲ تعالی نے مردوں اور عورتوں کو الگ الگ مخاطب کرکے اس عمل سے بچنے کا حکم دیا ہے جس سے اس کی برائی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے ،بہر حال یہ بھی ایک بڑی معاشرتی برائی ہے جس سے بچنا ضروری ہے ۔

4۔طعنہ دینا :طعنہ زنی یہ ایک مذموم عمل ہے جس سے منع کیا گیا ہے ۔ہمارے معاشرے میں ایک دوسرے کو طرح طرح کی اور برسوں پرانی باتوں پر طعنے دے کر اذیت دینا عام ہے ،اس سے بچنا ضروری ہے ۔
5۔ایک دوسرے کو برے القاب سے پکارنا:معاشرے میں بسنے والے افراد کا ایک دوسرے کو برے ناموں اور القابات سے پکارنا اور یاد کرنا در اصل ایک دوسر ے کی عز ت نفس سے کھیلنے کے مترادف ہے اور یہ عمل عزت و احترام کے اس رشتہ کے بھی منافی ہے جس کا ایک معاشرہ کے لوگوں کے درمیان موجود ہونا نہایت ضروری ہے اس لیے اس سے بھی منع کیا گیا ہے ۔ ایک دوسرے کو اچھے ناموں اور القابات سے پکارنا اور یاد کرنا کرنا چاہیے ،یہی مذہب اسلام کی تعلیم ہے ۔

6۔دوسروں کے متعلق منفی سوچ رکھنا اور بد گمانی کرنا:انسان کی سوچ اس کے افعال و اعمال میں انتہائی اہم کردار ادا کرتی ہے ،انسان اپنی زندگی میں جو بھی فیصلہ اورعملی اقدام کرتا ہے اس کی بنیاد اس کی سوچ ہوتی ہے کیوں کہ انسان ہرمعاملہ میں سب سے پہلے اپنی عقل کے ذریعہ سوچنے کے بعد دل سے فیصلہ کرتا ہے اور اس کے بعد آخر میں اپنے اعضاء و جوارح کے ذریعہ اس کو عملی جامہ پہناتا ہے اس بنا پر انسان کی سوچ کا درست ہونا انتہائی ضروری ہے۔ سوچ کے درست ہو نے کی ایک اہم اور بنیادی جہت یہ ہے کہ انسان اپنی سوچ ہمیشہ ہر وقت صرف’’منفی‘‘نہ رکھے بلکہ’مثبت ‘‘رکھے ،اپنی زندگی میں جو بھی فیصلہ کرے،جو بھی عملی اقدام کرے خواہ اس کا تعلق اس کی اپنی ذات سے ہو یا دوسروں سے ہو، اس کی بنیاد صرف منفی سوچ نہ ہو کیوں کہ جس فیصلہ اور عمل کی بنیاد مثبت سوچ کے بجائے صرف منفی سوچ ہوتی ہے اس کے نتائج بھی منفی ہی ظاہر ہونے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں ۔ مذہب اسلام نے دوسروں کے متعلق بلا کسی وجہ کے منفی سوچ قائم کرنے اور بد گمانی کرنے سے منع کیا ہے اس لیے اس سے بچنا ضروری ہے۔

7۔ایک دوسرے کی ٹوہ اور جاسوسی میں لگے رہنا:ایک معاشرہ میں رہنے والے افراد کوایک دوسرے کی کمزوریوں اور برائیوں کی جستجو میں لگے رہنے سے منع کیا گیا ہے ،اس سے آپس میں اعتماد کا رشتہ بھی ختم ہوجا تا ہے جو ایک معاشرہ کے لیے نقصان دہ ہے ،ہر انسان کو اپنی کمزوریوں اور برائیوں پر نظر رکھتے ہوئے ان کی اصلاح کی فکر کرنی چاہیے ۔

8۔غیبت کرنا:کسی دوسرے مسلمان کے پیٹھ پیچھے اس کی برائی بیان کرنا’’غیبت ‘‘ کہلاتی ہے ،مذہب اسلام نے اس سے بہت سختی کے ساتھ منع کیا ہے ،اﷲ تعالی نے قرآن کریم کی اسی سورت میں اس عمل کو دوسرے مردہ مسلمان کے گوشت کو کھانے سے تشبیہ دی ہے ،جناب رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس کو زنا سے بھی بد تر گناہ قرار دیا ہے ۔بد قسمتی سے یہ مرض ہمارے معاشرے کے خواص و عوام میں اس قدر عام ہوچکا ہے کہ اس کی برائی ہی اب دلوں سے ختم ہوچکی ہے ، یہ ایک بہت بڑا لمحہ فکریہ ہے ،اس لیے اس قبیح فعل کی برائی دل میں پیدا کرنا اور اس سے بچنا نہایت ضروری ہے ۔

9۔مساوات:یہ ایک انتہائی اہم معاشرتی اصول ہے جس کو اس سورت کے آخر میں بیان کیا گیا ہے اور یہی ماقبل میں مذکور معاشرتی برائیوں سے بچنے کا ایک آسان نسخہ بھی ہے ،در اصل انسان جب غیبت ،طعن و تشنیع اور عیب جوئی کرتا ہے ،دوسروں کا مذاق اڑاتا ہے اور ان کو برے القابات سے یاد کرتا ہے تو اس کی ایک بنیادی وجہ یہ ہوتی ہے کہ وہ خود کو دوسروں سے بہتر سمجھ رہا ہوتا ہے ،اس لیے ان تمام معاشرتی برائیوں کو بیان کرنے کے بعد آخر میں ’’مساوات‘‘ کی تعلیم دی گئی ہے کہ بنی نوع انسان سب آدم و حوا ء علیھما السلام کی اولاد ہیں ،کسی کو دوسرے پر رنگ،نسل،قوم و قبیلہ یا کسی اور سبب سے کو ئی فضیلت و برتری حاصل نہیں ہے ،فضیلت و برتری کا ایک ہی ذریعہ ہے اور وہ ’’تقوی‘‘یعنی اﷲ تعالی کا ڈر اور خوف ہے ۔

یہ چند اہم معاشرتی احکام ہیں جن کو اﷲ تعالی نے بندوں کے لیے اس سورت میں بیان کیا ہے ۔آج ہمارے معاشرہ کی برائیوں میں سے ایک بڑی برائی آپس کے اختلافات اور لڑائی جھگڑے ہیں ،کسی بھی ذریعہ اور رشتہ سے باہم منسلک افراد کے درمیان نفرت،اختلافات اور لڑائی جھگڑے معمول کا حصہ ہیں ، میاں بیوی کا رشتہ ہو ،قرابت داری کا رشتہ ہو ،مالک اور ملازم کا رشتہ ہو ،کاروباری رشتہ ہووغیرہ غیرہ ان سب رشتوں میں جڑے ہوئے افراد کے مابین اختلافات اور لڑائی جھگڑے کثرت کے ساتھ دیکھنے کو ملتے ہیں اور اسی وجہ سے جلد یا بدیر یہ رشتے ختم ہوجاتے ہیں اور اگر باقی بھی رہتے ہیں تب بھی الفت اور محبت کا عنصر تو بہر حال مفقود ہوتا ہے ،اگر ہم پس پردہ اس کے اسباب اور وجوہات پر غور کریں توہمیں اس سب کے پیچھے بنیادی اور کلیدی کرداران مذکورہ معاشرتی احکام سے رو گردانی کا نظر آئے گا ۔اس لیے اگر ہم معاشرہ کی اصلاح چاہتے ہیں، معاشرہ سے اختلافات اور لڑائی جھگڑوں کا خاتمہ اور اس میں امن و محبت اور سکون و اطمینان دیکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں قرآن و حدیث میں ذکر کردہ ان معاشرتی احکام کو اپنا نا ہوگا ،اور بات پھر وہی ہے کہ یہ معاشرے میں بسنے والے ہر فرد کی ذمہ داری ہے کیونکہ افراد ہی سے معاشرہ بنتا ہے،اگر ہم سب نے معاشرتی احکام کو سیکھ کر ان کے مطابق زندگی گزارنے اور معاشرہ کی اصلاح میں اپنا بھر پور کردار ادا کرنے کی نیت کرلی اور ایسا کر دکھایا تو یقینااسی سے ان شاء اﷲ ایک نیک اور اچھا معاشرہ وجود میں آئے گا۔

Mufti Usman Uddin
About the Author: Mufti Usman Uddin Read More Articles by Mufti Usman Uddin: 7 Articles with 5037 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.