صوفی

درویشی یا صوفی ازم سے لوگوں کے زہن میں عجیب عجیب تصویریں زہن میں آنے لگتی ہیں کہ ایک فقیر نما آدمی مراقبہ میں گم دنیا ترک کر کے عجیب سے حلیہ میں بیٹھا کسی جنگل کے کونے میں کمالات دکھا رہا ہے یا کوی وظیفہ کر رہا ہے اور ایک تحکمانہ انداز سے لوگوں کو احکامات دے رہا ہے
حالانکہ ایسا نہیں ہے اس کی ابتدا تو ہوتی ہے کسی بوڑھے کو اپنی گاڑی سے اتر کرسڑک پار کرانے کسی بھوکے کو کھانا کھلانے اور کھانا کھانے سے پہلے بسم الله پڑھنے اور ہر لقمہ پر ‫الْحَمْدُ لِلّٰهِ‬ پڑھنے سے اور کسی کے لیے مسکرانے سے اور پھر اس کی کوی حد نہیں کہ کہاں تک جا پہنچے اور پہنچ کر بھی پہنچا ہوا نہ ہو
حلیہ اس میں کچھ بھی ہو سکتا ہے ویسا بھی جیسا ہمارے زہنوں میں آتا ہے کہ ڈھیلا چولا بڑی سی داڑھی وغیرہ وغیرہ اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کلین شیو تھری پیس سوٹ پہنے گاڑی میں انگریزی گانا سنتا ہوا جا رہا ہو
اصل پہچان اس کا انسانوں سے رویہ خدمت خلق اور شفقت سے پیش آنا سوائےاستثنائ صورت کے کہ دنیا کے لوگوں میں بھی مختلف مزاج ہوتے ہیں مختلف پسند ہوتی ہے کسی کو رونق پسند ہوتی ہے کسی کو تنہائ یا لباس کا اسٹایل وغیرہ وغیرہ
اور آپ اس کے پاس بیٹھ کر اپنا مسئلہ ہی بھول جایں اور ایک خوشی سی ہو اس کے قریب ہونے سے اور وہ آپ سے اتنی دلچسپی سے بات کرے کہ اپ سے زیادہ عزیز کوی نہیں
اور انداز بھی ناصحانہ نہ ہو اور خاموشی سے کوئ اچھی بات بھی سرکا دے یا کچھ بھی نہ کہے اور آپ کو خود بخود اس کی صحبت میں اچھا کام کرنے کا دل چاہے
سوٹا لیے آپ کے پیچھے نہ پڑے کہ آپ بیزار ہو جائیں اور جبر تو ہے بھی نہیں ہمارے مزہب میں
ہاں اگر کوی علم وغیرہ سیکھنے باقائدہ جائیں تو استاد سکھانے کے لیے کچھ نرم گرم کہتے ہیں مزاج کے مطابق مگر علم سے زیادہ محبت اتارے آپ کے اندر اور
محبت بانٹنے کے طریقے سکھاے اور آپ اس کے پاس بیٹھ کر سکون محسوس کریں
اشفاق صاحب بھی یہی فرماتے تھے کہ بابا وہ ہوتا ہے جو لوگوں میں آسانیاں تقسیم کرے اور وہ قائد اعظم کو بھی بابا کہتے تھے کہ پوری قوم کو آسانی دلوائ آزاد ملک کی صورت میں اور خود خالی ہاتھ گئے اور کوی سسٹم بدلے بغیر اسی انگریزی قانون کی زبان میں اُن سے بات کی اور باباے قوم بنے

بات صوفیوں کی ہو رہی تھی اور اُن کی ایک خاص بات کہ وہ جہاں بھی ہوں گے وہاں کے طرز رہن سہن میں رہتے ہوے اسی زبان میں مخاطب ہونگے اور لوگوں کو ان کے قریب آتے ہوے جھجک محسوس نہ ہو یہی وجہ تھی کہ بر صغیر میں بعض بزرگوں نے بعض علاقوں میں ایک خاص ثقافت کے ہوتے ہوے ان سے کلام کرتے ہوے خدا کا کلام ان کو پہنچایا ور وہ انداز تکلّم قوالی کی صورت اختیار کر گیا مگر اصل بات اُن کا کردار تھا جس سے غیر مسلم بھی کھنچے چلے آے جو کہ سیکھا انہوں نے خدا کے کلام اور احکامات سے ہی تھا

آج جو کچھ پیسہ بٹورنے کے لیے ہورہا ہے چاہے گدّی نشینی ہو یا کوی دھمال ہو یا جو استخارے کی دکانیں کھلی ہوی ہوں گلیوں میں یا ٹی وی پراگراموں میں جن میں جن کا بسیرا ہو اور پروگرام کے وقت سویرا ہو اور دلوں میں اندھیرا ہو اور غرق سب کا بیڑا ہو اور پار اُن کا بیڑا ہو جس چینل کے مالک کا وہ بیڑا ہو جس نے اُٹھایا ہوا مفت میں قوم کا بیڑا ہو یا پیسے لے کر کسی کا سیدھا کام ٹیڑھا ہو یا مخالف پارٹی کو جڑ سے اُکھیڑا ہو

اصلی صوفی آپ کے دل کی صفائ کرے گا اور نقلی صوفی آپ کی جیب کا صفایا کرے گا کہ ہمدرد والوں کا صافی بھی کیا صفائ کرے گا اندر کی
اور آپ آخر دلبرداشتہ ہو کر عابدہ پروین کا گایا ہوا صوفیانہ کلام سننے پر مجبور ہو جایں گے

چھاپ تلک سب چھین لی نی رے موسے نیناں ملا کے

اور یہی نیناں ملانے کا شوق ہی مجھے صوفیوں کے پاس بیٹھنے نہیں دیتا اور میں کسی
پیار بھرے دو شرمیلے نین
جن سے ملا میرے دل کو چین
کی تلاش میں رہتا ہوں اور انہی میں صوفیانہ چین بڑے غور سے تلاش کرتا ہوں لیکن دل کا اطمنان پھر بھی نہیں ملتا اور تھک ہار کر تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ

اَلَا بِذِکۡرِ اللہِ تَطۡمَئِنُّ الۡقُلُوۡبُ

خوب سمجھ لو کہ ﷲ کے ذکر سے دلوں کو اطمینان ہوجاتا ہے

 

Noman Baqi Siddiqi
About the Author: Noman Baqi Siddiqi Read More Articles by Noman Baqi Siddiqi: 255 Articles with 262624 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.