پیکر علم و عمل امام زین العابدین -علیہ السلام

 علم اور عمل دو ایسی چیزیں ہیں کہ جن میں سے ہر ایک اپنی جگہ لائق تحسین اور قابلِ تعریف ہے لیکن تاریخ بشریت میں ان دونوں کا امتزاج خال خال ہی نظر آتا ہے کچھ لوگ ایسے ہیں جو زیورِ علم سے تو آراستہ ہیں لیکن عملی میدان ان کے ہاتھ سے جاتا رہتا ہے اور کچھ لوگ ایسے ہیں جو عمل کی انتہا کو پہنچے ہوئے ہوتے ہیں لیکن علمی میدان میں پیچھے رہ جاتے ہیں، اگر یہ دونوں ایک ہی شخصیت میں جمع ہوجائیں تو اسے ''نور علیٰ نور'' سے تعبیر کیا جاتا ہے۔

تاریخ میں ایسی چند ہستیاں نظر آتی ہیں جو عمل کے ساتھ ساتھ علمی کمالات میں بھی یدِ طولیٰ رکھتی ہیں، ہدایت کی جو شمع خالقِ کائنات نے انسانیت کی فلاح کے لیے روئے زمین پر فروزاں کی تھی انسانیت اسی شمع سے پروان چڑھنے والے انوار سے ضیاء پاشی کرتی نظر آتی ہے۔ یہ ایک مستقل بحث ہے کہ کسی رہبر کے لیے جملہ نیک صفات کا حامل ہونا از حد ضروری ہے یہ ہستیاں ان تمام صفات کی اوج پر نظر آتی ہیں۔ انہی ہستیوں میں سے ایک ہستی امام علی بن الحسین زین العابدین کی مقدس ذات ہے۔ آپ نے اس حد تک عبادت کی کہ لقب زین العابدین یعنی عبادت گزاروں کی زینت مشہور ہوا اور بارگاہِ ایزدی میں اس حد تک سجدہ ریز ہوئے کہ سید الساجدین یعنی سجدہ کرنے والوں کے سردار کے نام سے مشہور ہوئے۔ آپ کے علمی کمالات کا جائزہ لیا جائے تو اس حوالے سے بھی آپسب سے آگے نظر آتے ہیں، آپ کی دعاؤں کا مجموعہ ''صحیفہ سجادیہ'' انسان کو اپنے خالق حقیقی سے ہم کلام ہونے اور رازو نیاز کے آداب سکھانے کے ساتھ ساتھ ایک مکمل علمی خزانہ بھی ہے جس میں کائنات کے بہت سے اسرار و رموز بیان کیے گئے ہیں۔ آپ کا ایک اور علمی عطیہ ''رسالۃ الحقوق'' کی صورت میں ہے جس میں نہ صرف انسان کے اوپر دوسرے انسانوں کے حقوق بیان کیے گئے ہیں بلکہ انسان کے اوپر اپنے اعضاء کے حقوق بھی بیان کیے گئے ہیں بالفاظِ دیگر حقوق کی دنیا میں جو کام اقوام متحدہ میں موجود دنیا بھر کے ذہین لوگ انجام نہ دے سکے اسے امام سجاد نے انجام دیا۔ ان کے علاوہ آپ کی دیگر علمی خدمات ہیں جن کو اس مختصر سے مضمون میں سمیٹنا ممکن نہیں۔

یہ اس دنیا کا المیہ رہا ہے کہ اچھے کردار اور علمی صلاحیتوں کے مالک انسانوں کو قیادت و رہبری کا موقع نہیں دیا جاتا۔ ایسا ہی المیہ امام سجاد علیہ السلام کے ساتھ بھی پیش آیا۔ ٦١ ہجری میں واقعہ کربلا رونما ہوا ،عصرِ عاشور تک یزیدیت کے خلاف چلانے جانے والے مشن کے علمبردار امام حسین تھے اسی مشن کو عاشور کے بعد امام سجاد آگے لے کر چلے اور کوفہ و شام کے لوگ جو نواسہ رسول حضرت امام حسین کو باغی کہتے تھے ۔ امام سجاد نے پہچنوایا کہ باغی کون ہے اور راہِ حق پر کون ہے۔ اس سلسلہ میں امام سجاد نے مختلف خطبات دئیے ان میں سے امام سجاد ؑ کا وہ خطبہ جسے آپ نے یزیدی دربار میں دیا تھا قارئین کے سامنے پیش کررہے ہیں: اے لوگوں!خدا نے ہمیں چھ خوبیاں عطا فرمائی ہیں اور سات فضیلتوں سے نوازا ہے ،ہمیں علم ،حلم ، سخاوت ،فصاحت ، شجاعت اور مومنین کے دلوں میں محبت عطا فرمائی ہے ،اور ہمیں ان وجوہات کی بنا پر دوسروں پر فضیلت سے نوازا ہے کہ : اسلام کا عظیم الشان رسول, اس امت کا صدیق امیر المومنین علی ،بہشت میں فرشتوں کے ساتھ پرواز کرنے والاجعفر طیار ،اللہ اوراس کے رسولکا شیر امیر حمزہ اور رسول اکرم کے دو بزرگوار نواسے حسن و حسین ہم ہی میں سے ہیں ۔

میرے اس مختصر سے تعارف سے جو بھی مجھے پہچان گیا سو پہچان گیا اور جس نے ابھی تک نہیں پہچانا میں اسے اپنے حسب و نسب سے متعارف کراتا ہوں تو ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔

میں مکہ ومنیٰ کا فرزند ہوں ،میں زمزم اور صفا کا فرزند ہوں ،میں اس ہستی کا فرزند ہوں جس نے اپنی ردا کے ساتھ حجر اسود کو اٹھایا اور اپنی جگہ پر نصب کیا میں سب سے بہترین طواف و سعی کرنے والے کا فرزند ہوں ،میںب ہترین حج کرنے والے اور بہترین تلبیہ کہنے والے کا فرزند ہوں ، میں اس نبی کا فرزند ہوں جو براق پر سوار ہوا ،میں اس رسول ؐ کا فرزند ہوں جسے راتوں رات مسجد الحرام سے مسجد اقصیٰ تک سےر کرائی گئی ۔

میں اس کا فرزند ہوں جسے جبرائیل سدرۃ المنتہیٰ تک لے گئے ، اور میں اس کا فرزند ہوں جو مقام ِ قاب قوسین اوا دنیٰ کی منزل تک جا پہنچا ، میں اس کا فرزند ہوں جس نے آسمان کے فرشتوں کو نماز پڑھائی میں اس کا فرزند ہوں جس کی طرف رب جلیل نے وحی فرمائی ہے ، میں محمد مصطفیٰ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا فرزند ہوں ،میں علی مرتضیٰ کا فرزند ہوں ،میں اس کا بیٹا ہوں جس نے بڑے بڑے سرکشوں کی ناک زمین پر رگڑ ی آخر کار انہوں نے کلمہ توحید کا اقرار کیا ۔

میں اس کا فرزند ہوں جس نے رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے دوتلواروں اور دو نیزوں کے ساتھ جنگ کی ، جس نے دوبار ہجرت اور دوبار بیعت کی ، بدرو حنین میں کافروں کے ساتھ لڑے اور پلک جھپکنے کی دےر کے لئے خدا کے ساتھ کفر نہیں کیا۔

میں صالح المومنین کا فرزند ہوں ،میں وارث انبیاء کا فرزند ہوں ، میں ملحدین کو تباہ کرنے والے اور مومنین کے سردار کا بیٹا ہوں ، میں اس کا بیٹا ہوں جو مجاہدوں کا نور ہے ، عبادت گزاروں کی زینت ہے ،گریہ کرنے والوں کا سرتاج ہے ، سب صابروں میں سے بڑا صابر ہے ،تمام نمازیوں سے افضل ہے ، رب العالمین کے رسول یسین کی آل سے ہے ، میں اس کا فرزند ہوں کہ جبرائیل نے جس کی تائید کی ہے ، اور میکائیل نے جس کی نصرت کی ہے ۔

میں اس کا فرزند ہوں جس نے مسلمانوں کے حرم کی حفا ظت کی ، اور مارقین و ناکثین و قاسطین کے ساتھ جنگ کی اور دشمنانِ خدا کے ساتھ لڑتے رہے ۔

میں قومِ قریش کی قابلِ فخر ترین شخصیت کا فرزند ہوں ،میں اس ہستی کا بیٹا ہوں جس نے سب سے پہلے اللہ اور اس کے رسول صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت پر لبیک کہا اور نبوت کی تصدیق کی ، اس کا فرزند ہوں جو سابقین میں سب سے پہلا ہے ، اور حد سے تجاوز کرنے والوں کی کمر توڑنے والا ہے، مشرکین کو تباہ کرنے والا ہے ، میں اس کا فررزند ہوں جو منافقین کے سروں پر خدا کے برسنے والے تیروں میں سے ایک تیر ہے ، جو خدا کے عبادت گزاروں کی زبانِ حکمت ہے ، جو دینِ خدا وندی کا ناصرو مددگار ہے ، جو اللہ کے امر کا ولی ہے ، حکمتِ الٰہی کا بستان ہے ، اللہ کے علم کا حامل ہے ۔

میں اس کا فرزند ہوں جو جوانمرد اور سخی ہے ، خوبصورت ہے ، تمام خوبیوں کا مجموعہ ہے ، سید بزرگوار ہے ، بطحا کا رہنے والا ہے ، راضی برضائے الٰہی ہے ، مشکلات میں آگے بڑھنے ولا ہے ، صابر ہے ، ہمیشہ روزے سے رہنے والا ہے ، ہر آلودگی سے پاک اور بہت بڑا نمازی ہے۔

میں اس کا بیٹا ہوں جس نے دشمن کی کمر توڑ کے رکھ دی ، میں اس کا بیٹا ہوں جس نے کفر کی تمام جماعتوں کو شکست دے کر تتر بتر کردیا ، جس کا دل ثابت و استوار ، جس کا ارادہ محکم اور پائیدارہے ، جس کا وار بہت کاری ہے ، جو شیر کی مانند شجاع ہے ، حجاز کے بیشہ شجاعت کا شیر ہے ، عراق کے لوگوں کا سردارو رہنما ہے ، مکی ہے مدنی ہے ، خیفی اور عقبی ہے ، بدری و احدی ہے ، شجری اور مہاجر ہے ۔

وہ عربوں میں ہو تو ان کا سردار ہوتا ہے اور میدانِ جنگ میں ہو تو شیر خدا ہو تا ہے ، خدا کے دو مشعروں ___مزدلفہ اور عرفات کا وارث ہے ، پیغمبر کے دو نواسوں حسن اور حسین کا والد ہے ، لوگوں!یہی میرا دادا علیبن ابی طالب ہے ۔

پھر فرمایا:میں فاطمۃ الزہراءکا فرزند ہوں ! میں تمام عورتوں کی سردار کا فرزند ہوں ۔

اسی طرح آپ اپنا تعارف کراتے رہے یہاں تک کہ دربار میں ایک کہرام برپا ہو گیا ،لوگوں کی دھاڑیں بلند ہو ہو کر یزید کے تاج و تخت اور قصر و محل پر برقِ اجل بن کر گر رہی تھیں ، یزید کو خطرہ لاحق ہو گیا کہ کہیں کوئی فتنہ نہ کھڑا ہو جائے جس سے دربار میں انقلاب آجائے ،لہٰذا اس نے مؤذن کو اذان کہنے کا حکم دے دیا ، مؤذن نے اذان کہنا شروع کردی اور امام نے خطبہ دینا بند کردیا۔

جب مؤذن نے کہا:اللہ اکبر، امام نے فرمایا:''اللہ سے بالا تر کوئی چیز نہیں ،جب اس نے کہا: اشھد ان لا الہ الا اللہ۔ تو امام نے فرمایا: ''اللہ سے بالا تر کوئی چیز نہیں ،جب اس نے کہا: اشھد ان محمد الرسول اللہ، تو امام نے فرمایا:''اللہ سے بالا تر کوئی چیز نہیں ،جب اس نے کہا: یزید! یہ محمد (مصطفی)میرے نانا ہیں یا تیرے ؟اگر تو کہتا ہے کہ تیرے نانا ہیں تو غلط کہے گا اور کافر ہو جائے گا اور اگر کہتا ہے کہ میرے نانا ہیں ،تو پھر تو نے اس کی عترت کو کیوں تہہ تیغ کیا ؟

تاریخ شاہد ہے کہ امام سجاد ع کے ان ایمان افروز کلمات کو سن کر یزید کے دربار میں ہلچل مچ گئی اور ان کلمات کا یزید پر اتنا اثر پڑا کہ یزید نادم ہوا اور اس نے امام سجاد سے معافی مانگی اور رسول زادیوں اور اہلبیت کی ناموس کو رہا کر دیا۔

رب العزت سے ہماری دعا ہے کہ ہمیں علم و عمل کے حقیقی وارثین سے متمسک رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
Jamil Hussain
About the Author: Jamil Hussain Read More Articles by Jamil Hussain: 5 Articles with 9729 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.