اہل عزیمت

رنگ و نور .سعدی کے قلم سے
اللہ تعالیٰ کے ’’ انبیاء‘‘ کو تو دین کی خاطر بہت ستایا ہی گیا . مگر انبیاء علیہم السلام کے علاوہ بھی جو کامیاب لوگ گزرے ہیں وہ بھی بہت سی آزمائشوں اور تکلیفوں میں ڈالے گئے. ہم جب بھی حضرات صحابہ کرام کے واقعات پڑھتے ہیں، امت مسلمہ کے بڑے فقہاء، محدثین ا ور ائمّہ کے حالات پڑھتے ہیں تو . آزمائشوں اور تکلیفوں کی عجیب عجیب داستانیں سامنے آتی ہیں. مگر ان کامیاب لوگوں میں سے کوئی بھی ایسا نہیں ہے جو کسی آزمائش میں پڑ کر اپنے راستے سے ہٹا ہو یا اُس نے اپنے برحق مؤقف کو تبدیل کیا ہو. آج ساری دنیا کے مسلمان حضرت امام ابوحنیفہ(رح) ، حضرت امام مالک(رح)، حضرت امام شافعی(رح). اور حضرت امام احمد بن حنبل(رح) کی تقلید کرتے ہیں اور آج تک اُن سے دین سیکھتے ہیں . آپ صرف ان چار ائمّہ کے حالات ہی پڑھ لیں تو حیران ہوں گے کہ یہ تمام جلیل القدر حضرات خود مسلمانوں کے ہاتھوں ستائے گئے. ان حضرات کو ستانے والے تو تاریخ کا کُوڑا بن گئے جبکہ ان حضرات کے صدقات جاریات کے چشمے آج بھی رواں دواں ہیں.

حضرت امام ابوحنیفہ(رح) . آپ کا نام ’’ نعمان‘‘ اور لقب ’’امام اعظم‘‘ ہے. ۰۸ھ یا ۱۷ھ کوفہ میں پیدا ہوئے. کوفہ وہ شہر ہے جس میں ایک ہزار پچاس صحابہ کرام نے سکونت اختیار فرمائی. ان میں سے چوبیس ’’اصحاب بدر ‘‘تھے. حضرت امام ابوحنیفہ(رح) تابعی ہیں آپ نے تقریباً چھبیس صحابہ کرام کی زیارت کی. خاندان نبوت میں سے ’’ واقعہ کربلا‘‘ کے بعد کئی افراد نے حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کی خصوصاً محمد ذوالنفس الزکیہ(رح) نے مدینہ منورہ میں اور اُن کے بھائی ابراہیم بن عبداللہ(رح) نے کوفہ میں ’’ منصور‘‘ کے خلاف تحریک کھڑی کی. حضرت امام ابوحنیفہ(رح) نے برملا اُن کی تائید کی، مشہور ہے کہ ’’ منصور‘‘ نے حضرت امام صاحب(رح) کو ’’قاضی القضاۃ‘‘ بنانے کی پیشکش کی مگر امام صاحب(رح) نے انکار فرما دیا.اس کے نتیجے میں منصور نے آپ کو۷۴۱ھ میں قید کرا دیا.اور آپ کو کھانے میں زہر دیا.جب اس زہر کا اثر حضرت امام صاحب(رح) نے محسوس کیا تو سجدہ کیا اور اسی حالت میں انتقال فرمایا . یہ رجب ۰۵۱ھ کا زمانہ تھا. آج دنیا میں ایک بھی ’’ منصوری‘‘ نہیں جبکہ .’’ احناف‘‘ کی تعداد الحمد للہ کروڑوں میں ہے. کچھ لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ حضرت امام صاحب(رح) کا مسلک نعوذ باللہ حدیث کے خلاف ہے. وہ لوگ کم علم اور نادان ہیں. حضرت امام ابوحنیفہ(رح) کے علم، تقویٰ، امامت اور فقاہت کی گواہی تو امام المجاہدین حضرت عبداللہ بن مبارک(رح) جیسے جلیل محدث بھی دیتے ہیں. بات آزمائش کی چل رہی تھی. چھوٹی چھوٹی آزمائشوں پر دین بدلنے والے، راستہ چھوڑنے والے اور جھک جانے والے لوگ کامیابی سے دور ہو جاتے ہیں. ہمیں چاہیے کہ امت مسلمہ کے کامیاب افراد کے حالات پڑھتے رہا کریں اور اللہ تعالیٰ سے اُن جیسی استقامت مانگا کریں.

دوسرے بڑے امام حضرت امام مالک(رح) ہیں. آپ کا نام مالک، والد کا نام انس اور کنیت ابوعبد اللہ ہے. آپ کا لقب امام دارالہجرۃ ہے. امام مالک(رح) کی پیدائش ۳۹ھ مدینہ طیبہ میں ہوئی. آپ بلندپایہ محدث، فقیہ اور عاشق رسولﷺ ہیں. خاندانِ نبوت کے ایک بزرگ محمد ذوالنفس الزکیہ(رح) نے جب مدینہ منورہ میں ’’ منصور‘‘ کی حکومت کے خلاف علم بغاوت بلند کیا تو امام مالک(رح) نے اُن کا ساتھ دیا جس کے نتیجہ میں والیٔ مدینہ جعفر بن سلیمان نے غضبناک ہو کر حضرت امام صاحب کی پشت پر ستّر کوڑے لگوائے، ان کوڑوں نے آپ کی پیٹھ کو خون سے بھر دیا. اور دونوں ہاتھ مونڈھوں سے اتر گئے، اس کے بعد آپ کو سوار کر کے پورے شہر میں گھومایا گیا. جی ہاں رُسوا کرنے کے لئے . مگر امام دارالہجرۃ اُس وقت بھی ’’ کلمۂ حق‘‘ بلند فرما رہے تھے. جعفر بن سلیمان دنیا سے چلا گیا . مگر امام مالک(رح) سے آج بھی مسلمان فیض یاب ہوتے ہیں . ہمارے غیر مقلد بھائی بہت زور لگاتے ہیں کہ اماموں کی تقلید نہ کرو مگر آخر میں خود بھی تقلید پر مجبور ہوتے ہیں اور بہت بُری طرح ہوتے ہیں. اللہ تعالیٰ نے اس امت کو ان چار ائمّہ پر اتفاق اور اتحاد نصیب فرمایا. اور ان ائمّہ کرام کی تحقیقات پر ساری امت مسلمہ نے اعتماد کیا. مسلمانوں کو چاہیے کہ ان چاروں میں سے کسی ایک کے دامن سے وابستہ ہو کر سنت رسولﷺ اور جماعتِ صحابہ(رض) سے جُڑے رہیں. انشا اللہ بہت سے تفرقوں اور فتنوں سے بچے رہیں گے. بات آزمائشوں کی چل رہی تھی. آج ماشائ اللہ امام مالک(رح) کے نام پر دنیا کے کئی ملکوں میں بڑے بڑے ادارے، جامعات اور دارالتصنیف چل رہے ہیں. الجزائر اور افریقہ کے کئی ممالک میں امام صاحب کی تقلید کی جاتی ہے. جبکہ خود یہ جلیل القدر امام پوری زندگی کرائے کے مکان میں رہے.

تیسرے بڑے امام حضرت امام شافعی(رح) ہیں. آپ کا نام ’’ محمد‘‘ والد کا نام ادریس اور کنیت ابوعبداللہ ہے. آپ کا لقب ’’ ناصر السنّہ‘‘ ہے. آپ رجب ۰۵۱ھ بمقام غَزّہ پید اہوئے اور رجب ۴۰۲ھ چوّن سال کی عمر میں وفات پائی. اللہ تعالیٰ نے آپ کو عجیب صلاحیتوں سے نوازہ کہ اتنی چھوٹی سی عمر میں علم فقہ اور حدیث کے مستند امام قرار پائے. آپ جوانی کے زمانے نجران کے عامل بھی رہے مگر اپنے گورنر کو ظلم و ستم سے روکنے کی وجہ سے آپ کو گرفتار کر لیا گیا. دراصل والیٔ یمن بہت سفاک و ظالم تھا، حضرت امام صاحب اس کو ظلم و زیادتی اور بے انصافی سے روکتے تھے. اُس نے ناراض ہو کر ہارون رشید کو خط لکھا کہ شافعی(رح) ’’ علوی سادات‘‘ کے ساتھ ہیں، جس سے بڑا اندیشہ ہے. جب یہ خط ہارون رشید کو ملا تو وہ آپے سے باہر ہو گیا اور والیٔ یمن کو خط لکھوایا کہ شافعی(رح) اور اُن کے تمام ساتھیوں کو فوراً دارالخلافہ بھیج دو . حکم کی تعمیل ہوئی اور شافعی(رح) گرفتار کر کے دربار خلافت بھیجے گئے . حضرت امام محمد(رح) نے دربار میں جا کر اُن کو رہائی دلائی اور اُن کو اپنے حلقۂ درس میں لے گئے جہاں دیکھتے ہی دیکھتے محمد بن ادریس(رح) . امت مسلمہ کے بڑے امام ’’ امام شافعی‘‘ بن گئے . آج مصر، انڈونیشیا، ملائشیا، سری لنکا اور معلوم نہیں کن کن ملکوں میں حضرت امام شافعی(رح) کے کروڑوں مقلدین ان کے لئے صدقہ جاریہ ہیں .

امت مسلمہ کے چوتھے بڑے امام حضرت امام احمد بن حنبل(رح) ہیں. ربیع الاوّل ۴۶۱ھ میں پیدا ہوئے اور ربیع الاوّل ۱۴۲ھ ستتر سال کی عمر میں انتقال فرمایا. آپ علم، زُہد، توکّل اور استغنائ میں منفرد شان رکھتے تھے. ساری زندگی کسی بادشاہ اور خلیفہ کا عطیہ قبول نہ فرمایا. جب عباسی خلفائ کے زمانے میں ’’ خلق قرآن‘‘ کا فتنہ سرکاری سرپرستی میں گرم ہوا تو حضرت امام احمد بن حنبل(رح) ا سکے مقابلے میں سینہ سپر ہو گئے. حالانکہ اس سے پہلے آپ کے عباسی خلفائ سے اچھے تعلقات تھے، خلیفہ متوکل آپ کا عقیدت مند اور قدر دان تھا اس کے حکم پر آپ نے چند دن اسلامی لشکر میں قیام بھی فرمایا، اس عرصہ میں آپ شاہی مہمان تھے آپ کے لئے خلیفہ کی طرف سے روزآنہ پُر تکلف کھانا آتا تھا جس کی قیمت کا اندازہ ایک سو بیس درہم روزانہ تھا. مگر امام صاحب نے کبھی اس کھانے کو چکھا تک نہیں، آپ مسلسل روزے رکھتے رہے. مگر جب عباسی خلفائ نے فتنہ خلق قرآن کی باقاعدہ سرپرستی شروع کی تو امام صاحب(رح) نے اس کا ڈٹ کر مقابلہ کیا. نتیجہ ظاہر ہے حکمران آپ کے دشمن ہو گئے. آپ کو اٹھائیس ہفتے تک قید رکھا گیا، اس دوران آپ کو کئی بار کوڑوں سے مارا گیا. امام بخاری(رح) فرماتے ہیں کہ میں نے سنا کہ امام احمد(رح) کو ایسے کوڑے لگائے گئے کہ اگر ایک کوڑا ہاتھی کو لگتا تو چیخ مار کر بھاگتا. امام صاحب(رح) کوڑوں سے لہولہان ہو جاتے مگر اپنے موقف پر ڈٹے رہتے اور فرماتے’’ اعطونی شیئًا من کتاب اللہ وسنۃ رسولہ حتیٰ اقول بہ‘‘. یعنی میرے سامنے کتاب اللہ یا سنت رسول اللہﷺ سے کوئی دلیل پیش کرو تاکہ میں اس کو مان لوں . ماشا اللہ کیا عظیم استقامت ہے. بڑھاپے کی حالت میں اتنا تشدد. بالآخر ظلم کرنے والے ہار گئے اور فتنہ خلق قرآن ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اپنی موت آپ مر گیا. دین کی خدمت کرنی ہو اور آخرت کی کامیابی حاصل کرنی ہو تو آزمائشیں اور تکلیفیں سہنی پڑتی ہیں. اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے.
الٓمّٓ ﴿۱﴾اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ یُّتْرَکُوْآ اَنْ یَّقُوْلُوْآ اٰمَنَّا وَھُمْ لَا یُفْتَنُوْنَ﴿۲﴾وَلَقَدْ فَتَنَّا الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ فَلَیَعْلَمَنَّ اللّٰہُ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا وَلَیَعْلَمَنَّ الْکٰذِبِیْنَ﴿۳﴾
’’ ترجمہ: کیا لوگ خیال کرتے ہیں، یہ کہنے سے کہ ہم ایمان لائے ہیں چھوڑ دیئے جائیں گے اور انکی آزمائش نہیں کی جائے گی، اور جو لوگ ان سے پہلے گزر چکے ہیں ہم نے انہیں بھی آزمایا تھا، پس اللہ تعالیٰ انہیں ضرور معلوم کرے گا جو سچے ہیں اور اُن کو بھی جو جھوٹے ہیں‘‘.﴿سورۂ عنکبوت﴾
’’ یعنی زبان سے ایمان کا دعویٰ کرنا کچھ سہل ﴿ یعنی آسان﴾ نہیں جو دعویٰ کرے﴿ وہ﴾ امتحان وابتلا کے لئے تیار ہو جائے، یہ ہی کسوٹی ہے جس پر کھرا کھوٹا کسا جاتا ہے، حدیث میں ہے کہ سب سے سخت امتحان انبیا کا ہے، اُن کے بعد صالحین کا ، پھر درجہ بدرجہ اُن لوگوں کا جو اُن کے ساتھ مشابہت رکھتے ہوں، نیز امتحان آدمی کا اُس کی دینی حیثیت کے موافق ہوتا ہے، جس قدر کوئی شخص دین میں مضبوط اور سخت ہو گا اُسی قدر امتحان میں سختی کی جائے گی‘‘﴿ تفسیر عثمانی﴾

ان تمام باتوں کو پڑھ کر آپ ڈرنہ جائیں کہ پھر تو سچا مسلمان بننا کافی تکلیف دہ کام ہو گا. ایسا نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کسی پر اس کی ہمت اور طاقت سے بڑی آزمائش نہیں ڈالتے. اور جن لوگوں کو اللہ پاک اپنے دین کی سربلندی کے لئے منتخب فرماتے ہیں، ان کے لئے تکلیفوں کو برداشت کرنا بھی آسان فرما دیتے ہیں. بات یہ سمجھانا مقصود ہے کہ سچے دین اور دین کے سچے کام میں آزمائشیں اور تکلیفیں آتی ہیں. آج وبا چل پڑی ہے کہ دین کا کام تو کیا جائے مگر امن خطرے میں نہ پڑے. اور کچھ لوگ اپنے ظاہری امن کو بہت بڑی چیز سمجھ کر اُن اہل عزیمت پر تنقید کرتے ہیں جو آزمائشوں سے گزر چکے ہیں کچھ دن پہلے ایک صاحب کہہ رہے تھے کہ سید احمد شہید(رح) نے کیا کیا. رائے بریلی سے اُٹھے اور بالاکوٹ میں آ کر شہید ہو گئے اور کام ختم. اس لئے جہاد نہیں کرنا چاہیے بلکہ پر امن کام ڈھونڈنے چاہئیں. عجیب ظالمانہ جَہالت ہے، سید احمد شہید(رح) کا کام تو ماشا اللہ آج بھی جاری ہے جبکہ اُن کی شہادت کو دو سو سال ہو رہے ہیں. کوئی مخصوص نام تو ضروری نہیں ہے. انڈیا والوں نے کئی ناموں پر پابندی لگا دی. اب امریکہ کو شوق چڑھا ہے کہ ہر آئے دن کسی مسلمان تنظیم یا مسلمان رہنما پر پابندی لگا دیتا ہے. ان دنوں الرحمت ٹرسٹ اور اُس کے کئی خدّام پابندی کی زد میں ہیں. ان سب کو مبارک کہ ماشا اللہ آپ اس زمانے میں ظالموں، قاتلوں اور کافروں کو کھٹک رہے ہیں. ’’ لیغیظ بہم الکفار‘‘ کہ کافر اُن سے غیظ کھاتے ہیں یہ حضرات صحابہ کرام کی صفت ہے. اب جو بھی حضرات صحابہ کرام کے راستے کو اختیار کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے یہ کیفیت نصیب فرماتے ہیں. ان پابندیوں سے نہ کوئی خوف ہے اور نہ . الحمدللہ کوئی ڈر. نہ انشا اللہ ان کے خلاف کوئی اپیل کی جائے گی اور نہ اُن کو ہٹانے کے لئے کوئی بھیک مانگی جائے گی. زمین تنگ ہوتی ہے تو ہو جائے، ایک دن تو انشا اللہ اُس کا سینہ کھل ہی جائے گا. مجاہدین تو ماشا اللہ اہل عزیمت ہیں، اپنے جسموں کے ٹکڑے کرانے کی خواہش دل میں لئے پھرتے ہیں. مجاہدین کی قیادت کو بھی عام مجاہدین سے بڑھ کر باہمت ہونا چاہیے. یہ بالکل اچھا نہیں لگتا کہ . ٹی وی اور میڈیا پر آ کر صفائی دی جائے کہ ہمارا جہاد سے کوئی تعلق نہیں اور ہماری درخواست ہے کہ ہم سے پابندی ہٹا لی جائے . زندگی کے چار سانس ہیں . ممکن ہے جھکنے اور دبنے سے پابندی تو ہٹ جائے . مگر پابندی ہٹتے ہی موت آ جائے.

پاک ہے وہ اللہ جس کے قبضے میں ہر چیز کی حکومت ہے اور ہم سب نے اُسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے .
وصلی اﷲ تعالیٰ علیٰ خیر خلقہ سید نا محمد وآلہ وصحبہ و بارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا
Shaheen Ahmad
About the Author: Shaheen Ahmad Read More Articles by Shaheen Ahmad: 99 Articles with 198181 views A Simple Person, Nothing Special.. View More