ہم مسلمان ہیں!

امتحانات کی آمد کے پیش نظر دل میں یہ مصمم ارادہ کیا تھا کہ سب کام چھوڑ کر اپنی پوری توجہ پڑھائی کی طرف مبذول کرنی ہے لیکن نئے تجربات اور حالات و واقعات کے مشاہدے نے ہمارے خیالات میں پھر سے ہل چل مچا دی اور ہم اپنے ذہن میں مچلتے منتشر اور بے ربط خیالات کو نوک قلم سے سنوارنے پر مجبور ہو گئے۔

ہوا کچھ یوں کہ شب برات کی مقدس رات میں ملنے والے پیغامات کی اکثریت اس رات میں کی جانے والی نفلی عبادات سے متعلق استفسار پر مشتمل تھی۔ پڑھ کر دل باغ باغ ہو گیا کہ ہماری عوام میں کس قدر شوق عبادت پیدا ہو گیا ہے۔ حالانکہ کل تک تو مسجدوں میں بمشکل ٢ یا ٣ صفیں بن پاتی تھیں اور فجر کے وقت نمازیوں کی تعداد دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا تھا۔ اچانک یہ انقلاب کیسا۔ بہرحال دیر آئید درست آئید۔ رات کو جب مسجد میں جانا ہوا تو شب بیداری کے لیے آئے ہوئے لوگوں کا جم غفیر دیکھ کر دل باغ باغ ہو گیا۔ بچوں سے لے کر بوڑھوں تک ہر عمر اور ہر طبقے کے لوگ با ادب بیٹھے بیان سن رہے تھے۔ شائد یہ سب اس رات کی برکت تھی کہ مسلمانوں میں جذبہ ایمانی پھر سے جاگ اٹھا تھا۔ آخر وہ وقت بھی آ ہی گیا کہ مسلمان اپنے شاندار ماضی کو اپنا مستقبل بنا سکیں گے۔ دل میں خیال اٹھا کہ علامہ اقبال زندہ ہوتے تو ایک نظم اس مقدس محفل کے نام ضرور کرتے۔

صبح ہم فجر کی نماز پڑھنے جب مسجد میں گئے تو نمازیوں کی تعداد حسب معمول تھی۔ پہلے تو دیکھ کر حیرت کا دھچکا لگا۔ پھر حسن ظن رکھتے ہوئے دل کو تسلی دی کہ شائد ابھی عادت نہ ہونے کے سبب آنکھ نہ کھلی ہو۔ ظہر کے وقت بھی وہی حال تھا۔ ہم نے سوچا کہ اس وقت لوگ دفاتر میں ہوں گے تو قریبی مساجد میں نماز ادا کر لی ہو گی۔ عصر کہ وقت بھی جب نمازیوں کی وہی تعداد دیکھی تو دل ڈوبنے لگا۔ ہم تو سمجھے تھے کہ مسلمان سدھر گئے ہیں پر مساجد کی ویرانی ہماری غلط سوچ کا ثبوت پیش کر رہی تھی۔

بہرحال مسجد سے بوجھل قدموں سے نکلے تو والدہ کا حکم یاد آگیا کہ نماز کے بعد افطاری کا سامان لیتے آنا۔ ہم مسجد میں نمازیوں کی تعداد پر غور کرتے ہوئے خراماں خراماں دہی بڑھوں کی دکان کی طرف بڑھ گئے۔ دکان پر خریداروں کا جم غفیر دیکھ کر ہم پریشان ہو گئے۔ یا اللہ یہ کیا ماجرا ہے! کسی خاتون نے اس قدر رش کی وجہ پوچھی تو ایک نوجوان فخر سے سینہ تان کر بولے "ہم مسلمان ہیں۔"

ہمارا تو ان کی بات سن کر حیرت سے پورے کا پورا منہ کھل گیا۔ جذبہ "مسلمانیت" کے سبھی راز فاش ہو گئے۔

بوجھل قدموں سے گھر کی راہ لی۔ ہمارے ذہن میں کہیں پڑھی ہوئی مثال آ رہی تھی کہ اگر کسی سے قرض لیا ہو اور قرض واپس کرنے کا وقت آ چکا ہو لیکن قرضدار بجائے قرض لوٹانے کے قرض خواہ کو کبھی کبھار تحائف پیش کر دیا کرے تو قرض خواہ قرضدار سے خوش ہگایا ناخوش؟؟؟

*سیدہ صدف یاسمین*

2 مئی2018

Sadaf Yasmeen
About the Author: Sadaf Yasmeen Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.