حضرت یونس علیہ السلام

حضرت یونس علیہ السلام نے اپنی قوم سے دور چلے جانے کا ارادہ کیا اور دریائے دجلہ کے کنارے پہنچ گئے۔ جہاں ساحل پر مسافروں سے بھری کشتی موجود تھی۔ آپ علیہ السلام اس میں سوار ہوئے اور کشتی دریا کی موجوں کے رحم و کرم پر چل پڑی۔ جب دریا کے بیچ میں پہنچی تو سمندری طوفان نے گھیر لیا۔ طوفانی موجیں اور تیز ہوا کے جھکڑ اسے ادھر اُدھر لے جانے لگے تو یہ خدشہ پیدا ہوا کہ کشتی ڈوب جائے گی۔ملاح اپنی کوششوں میں مصروف تھے اور زائد سامان بھی پھینکا جارہا تھا۔ شاید طوفان سے نجات حاصل ہوجائے۔ آپ علیہ السلام طوفان سے بے خبر کشتی میں سوئے ہوئے تھے جب کہ دیگر مسافر خوف و ہراس میں مبتلا تھے اور اپنے دیوتاؤں کو پکار رہے تھے۔ اتنے میں کسی نے ملاح کو بتایا کہ ایک درویش صفت انسان طوفان سے بے نیاز کشتی میں سو رہا ہے اور وہ اگر بیدار ہو کر دُعا مانگے تو شاید ہم سب بچ جائیں۔ یہی بات ہو رہی تھی کہ ایک شخص نے کہا۔ ’’اس کشتی میں کوئی گناہ گار بندہ سوار ہے اگر اسے دریا میں پھینک دیا جائے تو ہم سب عذاب سے بچ جائیں گے ‘‘۔ جب حضرت یونس علیہ السلام کو بیدار کیا گیا اور آپ ؑ نے گناہ گار بندے والی بات سنی تو آپ ؑ نے فرمایا۔ ’’وہ گناہ گار بندہ میں ہی ہوں، مجھے دریا میں پھینک کر اپنے آپ کو بچا لو ‘‘۔ لیکن مسافروں نے آپ ؑکی بات پر یقین نہیں کیا اور کہا۔ ’’ ہم آپ کو دریا میں نہیں پھینک سکتے اور کشتی میں گناہ گار کون ہے؟ اس کے لئے قرعہ نکالیں گے ‘‘۔

جب قرعہ اندازی ہوئی تو اس میں حضرت یونس علیہ السلام کا نام نکلا۔ جیسا کہ ارشاد ربانی ہے۔ ’’اور بے شک یونس ( علیہ السلام ) نبیوں میں سے تھے جب بھاگ کر بھری ہوئی کشتی کے پاس پہنچے، پھر قرعہ اندازی ہوئی تو یہی مغلوب ہوئے ‘‘۔مسافروں کو شدید حیرت و تعجب میں دیکھ کر آپ علیہ السلام نے فرمایا۔ ’’میں یروشلم کا رہنے والا ہوں۔ مجھے اﷲ تعالیٰ نے ایک لاکھ سے زائد نفوس پر مشتمل شہر نینوا (عراق) کے لئے پیغمبر بنا کر بھیجا۔ وہ لوگ انتہائی خوش حال ہیں جس کی وجہ سے مغرور اور سرکش ہوگئے ہیں۔ جب میں نے اُن کو بت پرستی سے منع کیا اور اُن سے خدائے وحدہ لاشریک کی تعلیمات بیان کیں تو میرے مخالف ہوگئے اور انہوں نے مجھے قتل کرنے کی دھمکیاں دیں اور میں اﷲ تعالیٰ کے حکم کے بغیر اپنی قوم کو بد دعائیں دے کر نکل آیا۔ میں ہی اپنے رب کا نافرمان ہوں ‘‘۔

جب طوفان شدت اختیار کر گیا تو مسافروں نے حضرت یونس علیہ السلام کو اُٹھا کر پانی میں پھینک دیا۔ بحر و بر کے مالک اور خالق کے حکم سے ایک مچھلی نے جھپٹ کر آپ ؑ کو نگل لیااور آپ ؑ تین دن اور تین رات مچھلی کے پیٹ میں رہے۔ وہاں بھی اﷲ تعالیٰ کی عبادت میں مشغول رہے۔ جیسا کہ فرمان ایزدی ہے۔ ’’تو پھر انہیں مچھلی نے نگل لیا اور وہ خود اپنے آپ کو ملامت کرنے لگے۔ پس اگر یہ پاکی بیان کرنے والوں میں سے نہ ہوتے تو قیامت تک اُس کے پیٹ میں رہتے ‘‘۔ اور یہ دعا مانگتے رہے ۔ ’’ تیرے سوا کوئی معبود نہیں، تو پاک ہے بے شک میں ہی ظالموں میں سے ہوں‘‘۔ اس دعا کے طفیل مچھلی نے آپ علیہ السلام کو ساحل پر اُگل دیا۔ قرآن ِ مجید میں ارشاد ہے۔ ’’پس انہیں ہم نے چٹیل میدان میں ڈال دیا اور وہ اُس وقت بیمار تھے اور ہم نے ان پر سایہ کرنے والا ایک بیل دار درخت اُگادیا اور ہم نے انہیں ایک لاکھ سے زائد آدمیوں کی طرف بھیجا۔ پس وہ ایمان لائے اور ہم نے انہیں ایک زمانہ تک عیش و عشرت دی ‘‘۔ اور جب حضرت یونس علیہ السلام دوبارہ نینوا پہنچے تو قوم نے نہایت پُرتپاک استقبال کیا کیوں کہ آپ ؑ کی بد دعا کے نتیجے میں جب عذاب الہٰی نازل شروع ہوا تب آپ ؑ کی قوم نے عذاب سے قبل خلوص دل سے توبہ کرلی جو کہ اﷲ تعالیٰ نے قبول فرمائی۔
 

Shoukat Ullah
About the Author: Shoukat Ullah Read More Articles by Shoukat Ullah: 209 Articles with 267782 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.