نسخہ کیمیاء

ایک مجذوب ستر پوشی کے تکلفات سے عاری دنیا و مافیا سے غافل استغراق کی حالت میں پڑا ہوا تھا۔ معتقدین کا جھمگٹا لگنے لگا اور دیکھتے ہی دیکھتے بوڑھے، جوان، خواتین، ونو عمر سب ہی قسم کے معتقدین کا غفیر جمع ہوگیا۔ کچھ ''بنیاد پرستوں'' نے ستر پوشی کا مسئلہ اٹھا دیا۔ چندہ جمع کیا گیا اور ایک خوبصورت سا لنگوٹ بنوا کر مجذوب بابا کی ستر پوشی کردی گئی۔ بابا کے آستانے پر دیگیں اترنے لگیں اور لنگر جاری ہوگیا، جب کبھی استغراق کی حالت سے باہر آتے تو کچھ نوالے ''بابا'' کی حلق سے بھی نیچے اتار دیئے جاتے زیادہ خدام کو اپنی فکر رہی اس لئے وہ کچھ زیادہ ہی مجذوب کی دیکھ بھال کرنے لگے۔

ایک دن کھانا کھاتے ہوئے سالن کے کچھ قطرے لنگوٹ پر گر گئے اس روز تو چوہوں کی عید ہوگئی اور لنگوٹ مچھر دانی کا سماں پیش کرنے گا۔ معتقدین کو فکر لاحق ہوئی کہ چوہے کہیں حدود سے زیادہ آگے نہ نکل جائیں ۔ چنانچہ ان''دہشت گردوں'' سے نمٹنے کے لئے ایک ''بلی'' پالی گئی بلی کے لئے دودھ درکار تھا، اس مقصد کے حصول کے لئے ایک عدد بکری کا بندوبست کیا گیا، بکری کی دیکھ بھال کے لئے ایک گدڑیا رکھا گیا اور اس طرح زندگی کی گاڑی اپنی منزل کی طرف رواں رہی۔ ایک دن گدڑیا کسی کام سے گیا ہوا تھا ، بکری بھوک کے مارے چلانے لگی بلی نے بھی دودھ کے انتظار میں میاؤں میاؤں کر کے ایک عجیب سماں برپا کر دیا۔ بابا کے استغراق میں خلل پیدا ہوا اور نیم وا آنکھوں سے اس چڑیا گھر لو تعجب کے ساتھ دیکھتے ہوئے آہستہ آہستہ لب ہلانے لگے جیسے کچھ کہنا چاہتے ہوں۔ معتقدیں گوش پرآواز تھے، کانوں کو ہونٹوں کے قریب کر کے بات سمجھنے کی بھرپور کوشش کی گئی ، معلوم ہوا کہ بابا پوچھ رہے ہیں'' یہ سب کیا ہنگامہ ہے؟'' جواب ملا کہ یہ بکری آپ کے وسیع تر مفاد کے لئے پالی گئی ہے اس کا دودھ بلی کو پلایا جاتا ہے پھر لب ہلے پوچھا'' بلی کس کے لئے پالی گئی ہے؟'' جواب ملا کے چوہوں کو مارنے لے لئے '' چوہے کہاں سے آئے'' جواب ملا کہ آپ کی لنگوٹ کو کاٹ کر سوراخ کردیتے ہیں۔ بابا نے فوراً لنگوٹ کھول کر ایک طرف پھینکتے ہوئے کہا کہ ''یہ ساری مصیبت اس لنگوٹ کی ہے''۔

فرقہ واریت کا لنگوٹ پاکستانی مجذوب کو اس طرح پہنا دیا گیا کہ سُنی اکثریت کے اعلیٰ الرغم اودھ کے نوابوں اور رانیوں کے رسم ورواج کو قانونی شکل دے دی گئی۔ عاشورہ پر دُلدُل وماتمی جلوس کا سڑکوں اور گلیوں سے گزرنا انتہائی ضروری ہے، لہٰذا سال بھر میٹنگیں چلتی ہیں کہ یہ تمام رسوم و رواج امن سے سرانجام پا جائیں۔ علماء و مشائخ کی میٹنگ، بجلی وپانی کے محکمہ کے اہلکاروں کی میٹنگ، سڑکوں کی تعمیر کے محکمہ والوں کی میٹنگ، پولیس کے اہلکاروں کی میٹنگ، ایجنسیوں کی میٹنگ، کابینہ کی میٹنگ، سٹی گورنمنٹ کی میٹنگ، انتظامیہ کی میٹنگ جس طرح سعودی حکومت ایک حج سے دوسرے حج کے انتظام میں مشغول ہوجاتی ہے اسی طرح حکومت پاکستان ایک محرم کے بعد سے دوسرے محرم کی تیاری میں لگ جاتی ہے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان بنا ہی اس مقصد کے لئے تھا یہی دو قومی نظریہ کی بنیاد ہے، اگر محرم میں ایک مخصوص فرقے کی رسوم و رواج ادا نہ ہوسکیں تو پاکستان اقوام عالم کی دوڑ میں بہت پیچھے رہ جائے گا، جدید ٹیکنالوجی اور ایٹمی توانائی کے حصول سے ہم محروم رہ جائیں گے۔ روڈ بلاک کردیئے جاتے ہیں۔ ٹریفک روک دیا جاتا ہے ۔ سُنی اکثریتی علاقوں میں فرقہ وارانہ نعرے گونجتے لگتے ہیں، سڑکوں پر بائی پاور اسپیکر لگا دیئے جاتے ہیں اور تازہ دم مگر افسردہ طبع نرم خومذہبی رہنماوں کی تقاریر سنوانے کے لئے پولیس رینجرز، فوج، غرض تمام ادارے مصروف کار ہوجاتے ہیں۔

پرنٹ اور الیکڑونک میڈیا اس میں روح رواں کا کردار ادا کرتا ہے۔ کیا یہ کوئی قرآن و حدیث میں بیان شدہ کسی متفقہ مذہبی فریضہ کو ادا کیا جا رہا ہے؟ یا جدید ٹیکنالوجی اور انٹرنیٹ کے کوئی مسائل ہیں جنھیں حل کرنے کے لئے اس قدر توانائی صرف کی جارہی ہے، یا پھر ہماری گرتی ہوئی معیشت کو سہارا دینے کے لئے کوئی نسخہ کیمیاء دریافت کیا گیا ہے؟ آخر یہ سب کیا ہے؟ سرکاری اور نجی اداروں اور افراد کے ذریعے جس قدر اخراجات اس فرقہ وارانہ لنگوٹ کے تحفظ پر خرچ کئے جاتے ہیں اگر ان کا تخمینہ لگایا جائے تو کروڑوں نہیں اربوں کے حساب سے ہوگا اور اگر ایک منصوبہ بندی کے تحت یہی رقوم قومی اور ملکی مفادات کے لئے صرف کی جائیں تو چند سالوں لے اندر طب و صحت، مواصلات، تعلیم اور غربت جیسے مسائل کو نہایت خوش اسلوبی سے حل کرکے ملک کو ترقی کی شاہراہ پر گامزن کیا جاسکتا ہے، مسئلہ صرف لنگوٹ کو اتار کر پھینکنے کا ہے۔۔۔
Khalid Shahzad Farooqi
About the Author: Khalid Shahzad Farooqi Read More Articles by Khalid Shahzad Farooqi: 44 Articles with 45253 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.