نماز کیا ہے اور ہم

نماز مومن کی معراج ھے اگر ہم نماز کی پابندی کرنے والے بن جاۓ تو ہمارے معاشرے کی ہر برائی جسکی وجہ ہم خود ہیں وہ ختم ھو جایں

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ”قیامت کے روز لوگوں سے انکے اعمال میں سے سب سے اوّل حساب نماز کا لیا جائیگا۔ (سنن ابوداﺅد) یہی حدیث مبارکہ الفاظ کے معمولی اختلاف کیساتھ جامع الترمذی میں بھی موجود ہے جبکہ سنن نسائی میں اس میں یہ الفاظ بھی شامل ہیں۔ ٭سو اگر نماز کا معاملہ درست ٹھہرا تو وہ بندہ فلاح ونجات پاگیا اور یہی معاملہ بگڑگیا تو وہ نامراد اور خسارہ پانے والا ہوا۔ (سنن نسائی)
رسول خدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم فرماتے ہیں:
” الصلوٰۃ میزان
ترجمہ: نماز ترازو ہے
پیغمبر صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ’’فجر کی دو رکعات (سنتیں) دنیا و ما فیہا سے بہتر ہیں‘‘۔ (صحیح مسلم:)
الصلوة معراج المومن
ترجمہ:نماز مومن کی معراج ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ’’اگر تمہارے گھر کے سامنے کوئی نہر بہتی ہو تو تم میں سے کوئی ہر روز پانچ بار اس میں غسل کرے تو کیا اس کے بدن پر کوئی میل کچیل باقی بچے گا‘‘؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کی: نہیں! اس کے بدن پر کوئی میل نہیں ہو گی۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ’’یہی مثال پانچ نمازوں کی ہے، اللہ تعالیٰ ان کے ذریعے گناہوں کو مٹا دیتا ہے‘‘۔ (صحیح بخاری:)۔
نماز سب ہے کہ انسان ہمیشہ خدا کی یاد میں رہے اور اسے بھولے نہ، نافرمانی ؤ سرکشی نہ کرے۔ خشوع و خضوع , رغبت و شوق کے ساتھ اپنے دنیاوی اور اخروی حصہ میں اضافہ کا طلب گار رہے۔ اس کے علاوہ انسان نماز کے ذریعہ ہمیشہ اور ہر وقت خدا کی بارگاہ میں حاضر رہے, اس کی یاد سے سرشار رہے۔ نماز گناہوں سے روکتی ہے اور مختلف برائیوں سے منع کرتی ہے سجدہ کا فلسفہ غرور و تکبر، خودخواہی اور سرکشی کو خود سے دور کرنا اور خدائے وحدہ لا شریک کی یاد میں غرق رہنا اور گناہوں سے دور رہنا ہے۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم نے فرمایا: ”نماز دین کا ستون ہے“۔ (شعب الایمان) ستون پر ہی کوئی عمارت استوار ہوتی ہے اور دین کی عمارت کا مرکزی ستون نماز ہے۔ یہ حدیث ہمیں اس امر کا احساس دلاتی ہے کہ نماز محض ذاتی مسئلہ یا انفرادی عمل نہیں ہے بلکہ اسلامی معاشرے کے حقیقی قیام اور بقا کیلئے اس فریضہ صلوٰة کی ادائیگی بہت ضروری ہے اور یہ اس کا نشان امتیاز ہے۔
نماز پنجگانہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پہلے نہ تو انبیاء کرام میں سے کسی نے ادا کی اور نہ ہی ان کی امت نے۔ البتہ ان پانچ نمازوں میں سے ہر ایک نماز کسی نہ کسی نبی نے ضرور ادا کی ہے اور قرآن کریم کی تعلیم کے مطابق دنیا میں کوئی رسول یا نبی ایسا نہیں آیا جس نے اپنی امت کو اﷲ تعالیٰ کے حکم سے خود نماز نہ پڑھائی ہو یا نماز کا حکم نہ دیا ہو۔
1۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے دعا کی :
رَبِّ اجْعَلْنِیْ مُقِيْمَ الصَّلٰوةِ وَمِنْ ذُرِّيَّتِیْ رَبَّنَا وَتَقَبَّلْ دُعَآءِo
ابراهيم، 14 : 40
’’اے میرے رب! مجھے اور میری اولاد کو نماز قائم رکھنے والا بنا دے، اے ہمارے رب! اور تو میری دعا قبول فرما لےo‘‘

2۔ قرآن حکیم میں حضرت اسماعیل علیہ السلام کا عمل مذکور ہے :

وَكَانَ يَأْمُرُ أَهْلَهُ بِالصَّلاَةِ وَالزَّكَاةِ وَكَانَ عِندَ رَبِّهِ مَرْضِيًّاO

مريم، 19 : 55

’’اور وہ اپنے گھر والوں کو نماز اور زکوٰۃ کا حکم دیتے تھے اور وہ اپنے رب کے حضورمقامِ مرضیّہ پر (فائز) تھے (یعنی ان کا رب ان سے راضی تھا)o‘‘

3۔ حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم نے آپ کو نماز کا طعنہ دیا :

قَالُواْ يَا شُعَيْبُ أَصَلاَتُكَ تَأْمُرُكَ أَن نَّتْرُكَ مَا يَعْبُدُ آبَاؤُنَا أَوْ أَن نَّفْعَلَ فِي أَمْوَالِنَا مَا نَشَاءُ إِنَّكَ لَأَنتَ الْحَلِيمُ الرَّشِيدُO

هود، 11 : 87

’’وہ بولے اے شعیب! کیا تمہاری نماز تمہیں یہی حکم دیتی ہے کہ ہم ان (معبودوں) کو چھوڑ دیں جن کی پرستش ہمارے باپ دادا کرتے رہے ہیں یا یہ کہ ہم جو کچھ اپنے اموال کے بارے میں چاہیں (نہ) کریں؟ بے شک تم ہی (ایک) بڑے تحمل والے ہدایت یافتہ (رہ گئے) ہوo‘‘

4۔ حضرت لقمان علیہ السلام نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا :

يَا بُنَيَّ أَقِمِ الصَّلَاةَ وَأْمُرْ بِالْمَعْرُوفِ وَانْهَ عَنِ الْمُنكَرِ وَاصْبِرْ عَلَى مَا أَصَابَكَ إِنَّ ذَلِكَ مِنْ عَزْمِ الْأُمُورِO

لقمٰن، 31 : 17

’’اے میرے فرزند! تو نماز قائم رکھ اور نیکی کا حکم دے اور برائی سے منع کر اور جو تکلیف تجھے پہنچے اس پر صبر کر، بے شک یہ بڑی ہمت کے کام ہیںo‘‘

امام حلبی، امام رافعی کی شرح مسند شافعی کے حوالے سے لکھتے ہیں حدیث مبارکہ میں ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام نے صبح کی نماز پڑھی، حضرت داؤد علیہ السلام نے ظہر کی نماز پڑھی، حضرت سلیمان علیہ السلام نے عصر کی نماز پڑھی، حضرت یعقوب علیہ السلام نے مغرب کی نماز پڑھی اور حضرت یونس علیہ السلام نے عشاء کی نماز پڑھی۔

طحاوی، شرح معانی الآثار، کتاب الصلاة، باب الصلاة الوسطی اي الصلوات، 1 : 226، رقم : 1014

عشاء کی نماز سب سے پہلے حضرت یونس علیہ السلام نے پڑھی لیکن ان کی یا اور کسی نبی کی امت نے یہ نماز نہیں پڑھی۔ امتیوں میں صرف حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کو اس نماز کے پڑھنے کا شرف حاصل ہوا ہے۔

امام ابو داؤد اپنی سند کے ساتھ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

اَعْتِمُوْا بِهَذِهِ الصَّلَاةِ، فَاِنَّکُمْ قَدْ فَضِّلْتُمْ بِهَا عَلَی سَآئِرِ الْأُ مَمِ، وَلَمْ تُصَلِّهَا اُمَّةٌ قَبْلَکُمْ.

ابو داؤد، السنن، کتاب الصلاة، باب في وقت العشآء الاخرة، 1 : 173، رقم : 421

’’اس نماز (عشاء) کو تاخیر سے پڑھا کرو کیونکہ تمہیں اس نماز کی وجہ سے پچھلی تمام امتوں پر فضیلت دی گئی ہے اور تم سے پہلے کسی امت نے یہ نماز نہیں پڑھی۔‘‘
وَأَقِمِ الصَّلَاةَ لِذِكْرِي
میری یاد کے لیے نماز قائم کرو۔

—  قرآن: سورۃ طٰہٰ:14

اس آیت کی روشنی میں نماز کا سب سے اہم فلسفہ یاد خدا ہے اور یاد خدا ہی ہے جو مشکلات اور سخت حالات میں انسان کے دل کو آرام اور اطمینان عطا کرتی ہے ۔

أَلَا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ
آگاہ ہو جاؤ کہ یاد خدا سے دل کو آرام اور اطمینان حاصل ہوتا ہے۔

—  قرآن: سورۃ الرعد:28

رسول خدا صلی اللہ علیہ آلہ وسلم نے بھی اسی بات کی طرف اشارہ فرمایا ہے :

” نماز اور حج و طواف کو اس لیے واجب قرار دیا گیا ہے تاکہ ذکر خدا ( یاد خدا ) محقق ہو سکے۔
حضرت علی رضی اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ خدا وند عالم نے نمازکو اس لیے واجب قرار دیا ہے تاکہ انسان تکبر سے پاک و پاکیزہ ہو جائے ۔ نماز کے ذریعے خدا سے قریب ہو جاؤ ۔ نماز گناہوں کو انسان سے اس طرح گرا دیتی ہے جیسے درخت سے سوکھے پتے گرتے ہیں،نماز انسان کو ( گناہوں سے) اس طرح آزاد کر دیتی ہے جیسے جانوروں کی گردن سے رسی کھول کر انہیں آزاد کیا جاتا ہے
نماز کے واجب ہونے کا سبب،خدا وند عالم کی خدائی اور اسکی ربوبیت کا اقرار، شرک کی نفی اور انسان کا خداوند عالم کی بارگاہ میں خشوع و خضوع کے ساتھ کھڑا ہونا ہے۔ نماز گناہوں کا اعتراف اور گذشتہ گناہوں سے طلب عفو اور توبہ ہے۔ سجدہ، خدا وند عالم کی تعظیم و تکریم کے لیے خاک پر چہرہ رکھنا ہے۔
حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی فرماتی ہیں کہ خدا وند عالم نے نماز کو واجب قرار دیا تاکہ انسان کو کبر و تکبر اور خود بینی سے پاک و پاکیزہ کر دے۔
صلوٰۃ " (نماز) کے لغوی معنی "دعا" کے ہیں۔ فرمانِ باری تعالٰیٰ ہے "
خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلَاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ
اے پیغمبر! ان لوگوں کے اموال میں سے صدقہ وصول کرلو جس کے ذریعے تم انہیں پاک کردو گے اور ان کے لیے باعثِ برکت بنو گے، اور اُن کے لیے دعا کرو۔ یقینا! تمہاری دعا ان کے لیے سراپا تسکین ہے، اور اللہ ہر بات سنتا اور سب کچھ جانتا ہے. سورۃ التوبہ:103
جبکہ فرمانِ نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہے:
” اذا دعى أحدكم فليجب فاِن كان صائماً فليصلِ و اِن كان مفطراً فليطعم [1]
ترجمہ: جب تم میں سے کسی کو دعوت دی جائے تو وہ اسے قبول کرلے پھر اگر وہ روزے سے ہو تو دعا کردے اور اگر روزے سے نہ ہو تو (طعام) کھالے “
اور اللہ کی جانب سے "صلوٰۃ" کے معنی بہترین ذکر کے ہیں جبکہ ملائکہ کی طرف سے "صلوٰۃ" کے معنی دعا ہی کے لیے جائیں گے۔ ارشادِ باری تعالٰیٰ ہے:

إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا
بے شک اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم بھی اُن پر درود بھیجو، اور خوب سلام بھیجا کرو.سورۃ الاحزاب:56
ہشام بن حکم نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے سوال کیا : نماز کا کیا فلسفہ ہے کہ لوگوں کو کاروبار سے روک دیا جائے اور ان کے لیے زحمت کا سبب بنے؟
آپ نے جواب میں فرمایا:
” نماز کے بہت سے فلسفے ہیں انہیں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ پہلے لوگ آزاد تھے اور خدا و رسول کی یاد سے غافل تھے اور ان کے درمیان صرف قرآن تھا امت مسلمہ بھی گذشتہ امتوں کی طرح تھی کیونکہ انہوں نے صرف دین کو اختیار کر رکھا تھا اور کتاب اور انبیاء کو چھوڑ رکھا تھا اور ان کو قتل تک کر دیتے تھے ۔ نتیجہ میں ان کا دین پرانا (بے روح) ہو گیا اور ان لوگوں کو جہاں جانا چاہیے تھا چلے گئے۔ خدا وند عالم نے ارادہ کیا کہ یہ امت دین کو فراموش نہ کرے لہذا اس امت مسلمہ کے اوپر نماز کو واجب قرار دیا تاکہ ہر روز پانچ بار آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو یاد کریں اور ان کا اسم گرامی زبان پر لائیں اور اس نماز کے ذریعہ خدا کو یاد کریں تاکہ اس سے غافل نہ ہوں اور اس خدا کو ترک نہ کر دیا جائے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ’’صفوں کو درست کرو، کندھوں کے درمیان برابری کرو، صفوں میں خلل کو بند کرو، اپنے ساتھیوں کیلئے نرمی پیدا کرو اور شیطان کیلئے خالی جگہ نہ چھوڑو، جو صفوں کو ملاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو ملا دیتا ہے، جو توڑتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو توڑ دیتا ہے‘‘ (صحیح ابن خزیمہ)۔
حضرت امام غزالی ؒ اپنی کتاب تبلیغ دین میں جو ظاہری اعمال کے دس اصول بیان کرتے ہیں ان میں سب سے پہلا نماز ہے، وہ لکھتے ہیں کہ حق تعالیٰ فرماتا ہے کہ ”میر ی یاد کے لئے نماز قائم کرو“ اور جناب رسول اللہ صلی علیہ وسلم فرماتے ہیں ”نماز دین کاستون ہے“ خوب سمجھ لو کہ تم نماز میں اپنے پروردگار سے باتیں کرتے ہو لہذا دیکھ لیا کرو کہ نماز کیسی پڑھ رہے ہو اور چونکہ اللہ پاک نے اقامتہ صلوۃ یعنی نماز کے درست کرنے کا حکم فرمایا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ نماز اور نماز کے متعلق تمام ضرورتوں کو پوری رعایت کرو، لہذا نماز میں ان تینوں باتوں کا پورا لحاظ رکھنا چاہیے۔
اول: نماز سے پہلے وضو کی نگہداشت کرو اور اس کا طریقہ یہ ہے کہ وضو میں جس قدر سنتیں اور مستجاب ہیں ان کو بجا لاؤ اور ہر عضو کے دھونے کے وقت وہ دعا پڑھو جو حدیث میں آئی ہے اور اس کے ساتھ ہی کپڑوں کااور وضو کے پانی کا خیال رکھو کہ وہ پاک ہوں لیکن اس میں اتنا مبالغہ نہ کرو کہ وسوسہ تک نوبت پہنچ جائے کیونکہ یہ وسوسہ شیطانی ہے اور شیطان اکثر عبادت کرنے والے نیک بندوں کے اوقات شش و پنج میں ضائع کرتا ہے۔ وضو کرنے اور کپڑوں کی طہارت میں ایک عجیب حکمت: جاننا چاہیے کہ نمازی کے کپڑوں کی مثال ایسی ہے جیسے اندر کا چھلکا اور قلب کی مثال ایسی ہے جیسے اندر کی گری اور مغز۔ ظاہر ہے کہ مقصود مغز ہو ا کرتا ہے، اسی طرح اس ظاہری پاکی سے بھی قلب کا ناپاک ہونا اور نورانی بنانا مقصود ہے،شاید تم کو یہ شبہ ہو کہ کپڑے کے دھونے سے قلب کس طرح پاک ہو سکتا ہے۔ لہذا سمجھ لو کہ حق تعالیٰ نے ظاہر اور باطن میں ایک ایسا خاص تعلق رکھا ہے جس کی وجہ سے ظاہری تعلق کا اثر باطنی طہارت تک ضرور پہنچتا ہے چنانچہ جب چاہے دیکھ لو کہ جب تم وضو کر کے کھڑے ہوتے ہو تو اپنے قلب میں ایسی صفائی اور انشراح پاتے ہو جو وضو سے پہلے نہ تھی اور ظاہر ہے کہ یہ وضو ہی کا اثر ہے جو بدن سے بڑھ کر دل تک پہنچتا ہے۔
نماز کے جملہ ارکان خواہ سنتیں ہوں یا مستجاب اور ذکر ہو یا تسبیح سب کو اپنے قاعدے پر ادا کرو اور یاد رکھو کہ جس طرح بدن کی ظاہری طہارت نے قلب کی باطنی صفائی میں اثر دکھایا تھا اسی طرح بلکہ اس سے بھی زیادہ نماز کے ارکان کا اثر قلب میں ہوتا ہے اور نورانیت پیدا کرتا ہے اور جس طرح مریض کو دوا پینے سے ضرور نفع ہوتا ہے اگر چہ دوا کے اجزاء کی تاثیروں سے واقف نہ ہو، اسی طرح تم کو نماز کے ارکان ادا کرنے سے ضرور نفع پہنچے گا اگرچہ تمہیں اس کے اسرار اور رموز سے واقفیت نہ ہو۔ جاننا چاہیے کہ جاندار مخلوق کی طرح حق تعالیٰ نے نماز کو بھی ایک صورت اور روح مرحمت فرمائی چنانچہ نماز کی روح تو نیت اور قلب ہے اور قیام و قعود نماز کا بدن ہے اور رکوع و سجود نماز کا سر اور ہاتھ پاؤں ہیں اور جس قدر اذکار و تسبیحات نماز میں ہیں وہ نماز کے آنکھ کان وغیرہ ہیں اور اذکار و تسبیحات کو سمجھنا گویا آنکھ کی بینائی اور کانوں کی قوت سماعت وغیرہ ہے۔ اور نماز کے تمام ارکان کو اطمینان اور خشوع و خضو ع کے ساتھ ادا کرنا نماز کا حسن یعنی بدن کا سڈول اور رنگ و روغن کا درست ہونا ہے۔ الغرض اس طرح پر نماز کے اجزاء اور ارکان کو بحضور قلت پورا کرنے سے نماز کی ایک حسین و جمیل اور پیاری صورت پیدا ہو جاتی ہے اور نماز میں جو تصرف نمازی کو حق تعالیٰ سے حاصل ہوتا ہے اس کی مثال ایسے سمجھو جیسے کوئی خدمت گار اپنے بادشاہ کی خدمت میں کوئی خوبصورت کنیز ہدیتہ پیش کرے اور اس وقت اس کو بادشاہ سے تقرب حاصل ہو،پس اگر تمہاری نمازمیں خلو ص نہیں ہے تو گویا مردہ اور بے جان کنیز بادشاہ کی نذر کر رہے ہو اور ظاہر ہے کہ یہ ایک ایسی گستاخی و بے باکی ہے کہ ایسا گستاخ شخص اگر قتل کر دیا جائے تو عجب نہیں، اگر نماز میں رکوع و سجدہ نہیں ہے تو گویا لنگڑی، لولی، اور اپاہج لونڈی نظر کرتے ہو اور اگرذکر و تسیبح اس میں نہیں ہے تو گویا لونڈی کے آنکھ کا ن نہیں ہیں اور اگر سب کچھ موجود ہے مگر ذکر و تسبیح کے معنی نہیں سمجھے اور نہ دل متوجہ ہوا تو ایسا ہے جیسے کہ اعضاء تو سب موجود ہیں لیکن ان میں حس و حرکت بالکل نہیں یعنی حلقہ چشم موجود ہے مگر بینائی نہیں ہے اور کان موجود ہیں مگر بہرے ہیں ہیں کہ سنائی نہیں دیتا ہاتھ پاؤں ہیں مگر شل اور بے حس ہیں اب تو خود سمجھ سکتے ہو کہ اندھی بہری کنیز شاہی نذرانہ میں قبول ہو سکتی ہے یا نہیں، شاید تمہیں یہ شبہ ہو کہ جب نماز کے فرض اور واجب ادا کر دیئے جاتے ہیں تو علمائے شریعت اس نماز کے صحیح ہو جانے کا فتویٰ دے دیتے ہیں خواہ معنی سمجھے ہوں یا نہ سمجھے ہوں، اور جب نماز صحیح ہو گئی تو توجہ مقصود تھا وہ حاصل ہو گیا، اس سے معلوم ہوا کہ معنی کا سمجھنا نماز میں ضروری نہیں ہے لہذا سمجھ لو کہ علماء کی مثال طبیب کی سی ہے،پس اگر کوئی لونڈی اپاہج اور کیسی ہی عیب دار کیوں نہ ہو، اگر اس میں روح موجود ہے تو طیب اس کو دیکھ کر ضرور یہی کہے گا کہ یہ زندہ ہے مردہ نہیں ہے۔ اسی طرح نماز کی روح اور اعضائے ریئسہ کے موجود ہونے سے علماء فتویٰ دے دیں گے کہ نماز صحیح ہے اور فاسد نہیں ہے ایسی صورت میں طبیب نے اور عالم نے اپنے منصب کے موافق جو کچھ کہا وہ صحیح کہا ہے مگر نماز تو شاہی نذرانہ اور سلطانی تقرب حاصل ہونے کی حالت میں اور اتنا تم خود سمجھ سکتے ہوکہ عیب دار کنیز اگرچہ زندہ ہے مگر سلطانی نذرانہ پیش کرنے کے قابل نہیں ہے۔ بلکہ ایسی کنیز کا تحفہ پیش کرنا گستاخی ہے اور شاہی عتاب کا موجب ہے، اسی طرح اگر ناقص کے ذریعہ سے اللہ کا تقرب چاہو گے تو عجب نہیں کہ پھٹے کپڑوں کی طرح لوٹا دی جائے۔ اور منہ پر پھینک ماری جائے۔ الغرض نماز سے مقصود چونکہ حق تعالیٰ کی تعظیم ہے لہذا نماز کے سنن اور مستحبات و آداب میں جس قد بھی کمی ہوگی اسی قدر احترام و تعظیم میں کوتاہی سمجھی جائے گا۔ نماز کی روح کا زیادہ خیال رکھو یعنی نماز میں شروع سے اخیر تک اخلاص اور حضور قلب قائم رکھو یعنی نماز میں شروع سے اخیر تک جو کام اعضائے سے کرتے ہو ان کا اثر دل میں بھی پیدا کرو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب رکوع میں بدن جھکے تو دل بھی عاجزی کے ساتھ جھک جانا چاہیے اور جب زبان سے اللہ اکبر کہے تو دل میں بھی یہی ہو کہ بے شک اللہ سے بڑی کو ئی چیز نہیں ہے اور جب الحمد پڑھو تو قلب بھی اللہ کی نعمتوں کے شکریہ سے لبریز ہو جس وقت زبان سے ایاک نعبد و ایاک نستعین نکلے تو دل بھی اپنے ذلیل و ضعیف اور محتاج ہونے کا اقرار کرنے یعنی قلب میں بھی یہی ہو کہ بے شک بجز خدا کے کسی چیز کا نہ مجھے اختیار ہو نہ کسی دوسرے کو، غر ض تمام اذکار و تسبیحات اور جملہ ارکان و حالات میں ظاہر و باطن یکساں اور ایک دوسرے کے موافق ہونا چاہیے اور سمجھ لو کہ نامہ اعمال میں نماز وہی لکھی جاتی ہے جوسوچ سمجھ کر پڑھی گئی ہو پس جتنا حصہ بغیر سمجھے ادا ہوگا وہ درج نہ ہو گا، ہاں یہ ضرور ہے کہ شروع شروع میں پوری طرح حضور قلب قائم رکھنے میں تم کو بہت دشواری معلوم ہو گئی لیکن اگر عادت ڈالو گے تو رفتہ رفتہ ضرور عادت ہو جائے گی اس لئے اس کی طرف توجہ کرو اور اس توجہ کو آہستہ آہستہ بڑھاؤ مثلاً اگر تمہیں چار فرض پڑھنے ہوں تو دیکھو کہ اس میں حضور قلب تم کو کس قدر حاصل ہوا۔ فرض کر وکہ ساری نماز میں دو رکعت کی برابر تو دل کو توجہ رہی اور دو رکعت کے برابر غفلت رہی تو ان دو رکعتوں کو نماز میں شمار ہی نہ کرو اور اتنی نفلیں پڑھو کہ جن میں دو رکعت کے برابر حضورقلب حاصل ہو جائے غرض جتنی غفلت زیادہ ہو اسی قدر نفلوں میں زیادتی کرو حتی کہ اگر دس نفلوں میں چار فرض رکعتوں کا حضور قلب پور ہو جائے تو امید کرو کہ حق تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے فرائض کا نقصان ان نفلوں سے پورا فرما دے گا اور اس کی کمی کا تدارک نوافل سے منظور فرما لے گا۔اللہ تبارک تعالیٰ مجھے اور آپ کو ان اصولوں کو سمجھ کر نماز ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 876 Articles with 462920 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More