مسکین صحافیوں کی ٹولی

زیر نظر مضمون میں موجودہ صحافت کی زردی پر روشنی ڈالی گئی ہے کہ بھلا ایک صحافی اپنی دیانت داری کا سودا کیسے کرسکتا ہے۔

صحافت اس بات سے بہت بلند ہے کہ اس کے ذریعے جھوٹ کو فروغ ملے،بدعقیدگی کو رواج دیا جائے،بے ادبی کی عمارت قائم ہو،کسی کی عزت پر ڈاکہ ہو،بے حیائیوں اور فحاشیوں کو پلیٹ فارم ملے،فسطائی نظریات اور غنڈہ گردی کا بولو بالا ہو۔لیکن موجودہ صحافت اور اس سے جڑے کڑوڑوں کی تعداد میں افراد انہیں امور کو انجام دے رہے ہیں،اور ان کے نزدیک صحافت یہی ہے،جسے ذرائع وابلاغ کی دنیا میں “زرد صحافت” سے تعبیر دیا گیا ہے۔

اس کی تاریخی حیثیت پر بات نہیں کرتا البتہ ابتداء میں یہ قوم کے عام سماج،مجموعی طور پر ہرشعبے میں پچھڑے افراد اور کمزوروں کی زبان اور ترجمان ہوا کرتی تھی۔اس کی حیثیت عام سماج اور ملکی وغیر ملکی ذمہ دارن حکومت اور حکومتی شعبے جات کے مابین مضبوط واسطے کی تھی۔یہ ظلم کے خلاف انصاف کی برہنہ شمشیر ہوتے تھے،ان کی آواز اس وقت تک بلند رہتی جب تک ظلم کو موت نہ آجاتی۔ یہ غمزدوں کے آنسو پونچھتے اور ان کا سہارا بنتے۔اس طور پر عوام کو صحافت اور اس سے جڑے جملہ عضو نے بہت راحت پہنچائی۔اور ایک وقت ایسا آیا جب ایوان حکومت کو اس کی حیثیت ماننی پڑی اور اسے ایک مضبوط”ستون” کے بطور قبول کیا گیا۔چناں چہ دائرے کو محل وقوع اور بطور زبان محدود کریں تو ہندستانی پس منظر میں مولانا ابوالکلام آزاد رحمہ اللہ کا “الہلال”اور “البلاغ”تعمیری صحافت کی بہترین مثال بن سکتا ہے۔

یہ تو ابتداء کی صحافت تھی کہ اس سے منسلک افراد قوم کے ترجمان ہوتے تھے۔اب معاملہ برعکس ہے،یہ حکومتی پرچارک ہوتے ہیں،

برسر اقتدار حکومت کی ناکامیوں پر پردہ ڈالتے ہیں اور ان کے فریبی اور مکار چہرے پر اپنی ملمع ساز تحریروں کی مدد سے شرافت کا مکھوٹا چڑھاتے ہیں۔ان کی شبانہ روز کی کوششوں کا ماحصل یہی ہے کہ وہ صرف جھوٹ نشر کرتے ہیں۔عوام کو غلط مشورے دیتے ہیں۔کوئی مجبور ومظلوم طبقہ ہو،گرچہ اس کی قوم کا ہو،لیکن یہ ان کی حمایت میں نہیں بولتے، یا تو چپی سادھ لیتے ہیں،یا پھر چند سکوں کے عوض بے چارے مجبوروں کو ہی قصورور ٹھہرا دیتے ہیں۔گویا یہ وہی کچھ بولتے ہیں،ان کا قلم وہی کچھ لکھتا
ہے،ان کے اخبارات اور میڈیائی چینلز کی سرخیاں وہی کچھ منظر عام پر لاتی ہیں،جو ان کے “آقا” چاہتے ہیں اور ان کے ذاتی و اخباری اخراجات برداشت کرنے والی کمپنیاں چاہتی ہیں۔چناں چہ یہ دودھ کو دودھ نہیں لکھتے اور نہ ہی پانی کو پانی،اس کے برعکس دودھ کو پانی اور پانی کو دودھ لکھتے ہیں۔حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرنا،بڑی صفائی سے جھوٹ بول جانا،فریب کو حقیقت بنا کر پیش کرنا،ایک کے سیاق کو دوسرے کے سباق سے ملا کر عوام کو “اُلو”بنانے کا ہنر انہیں خوب آتا ہے۔اس کے علاوہ ان مسکینوں کے پاس کوئی دوسرا راستہ بھی نہیں،اس لیے کہ انہوں نے اسی جھوٹ اور فریب کو سچ اور حقیقت میں بدلنے کا ٹھیکہ لیا ہواہے،موٹی رقمیں ڈکاری ہوئی ہیں،اور اس کے بعد ہر صحیح اور جھوٹ پر “دم ہلانا” ہی باقی رہ جاتا ہے سو وہ کرتے رہتے ہیں،اور اسی طرح جھوٹ اور فریب کا “پُن”کماتے-کماتے دنیا سے چل بستے ہیں۔ثمرہ کے طور پر کیا ملتاہے؟سستی شہرت،بدزبانیاں اور بددعائیں۔ کوئی نہ تو ان ضمیر فروشوں کی تعریف کرتا ہے اور نہ ہی ان کے حق میں دعائے خیر،حتی کہ انہیں کی قوم کا کیوں نہ ہو۔
آخری میں کہوں گا کہ صحافت پہلے بھی پاک تھی اور اب بھی داغدار نہیں،بلکہ اس سے جڑا طبقہ اپنی پاکدامنی کو کالک پوت چکا ہے۔
—————-
نوٹ:
مذکورہ تحریر کسی خاص پس منظر میں عام ہے۔اور وہ لوگ اپنے دل میں تنگی محسوس نہ کریں جو اس “زرد صحافت” سے بری ہیں۔

جزاکم اللہ خیرا
۔
۔
۔
# خاموش قلم#

md.shakir adil
About the Author: md.shakir adil Read More Articles by md.shakir adil: 38 Articles with 53239 views Mohammad shakir Adil Taimi
From India
.. View More