صراط مستقیم

وہ اپنی سوچ میں گم ،دنیا جہاں سے بے خبر شہر کی آبادی سے بہت دور نکل آیا تھا۔ چلتے چلتے اسے تھکن محسوس ہو ئی اور وہ قریب پڑے ایک پتھر پر بیٹھ گیا۔ لیکن اس کااندازوہی کھو یا کھویا تھا۔ وہ مسلسل آسمان کی طرف گھور رہا تھا اور گہری سوچ میں گم تھا۔ اس کے ماتھے کی شکنیں اس کی کسی پریشانی کی کہانی سنا رہی تھی ۔وہاں جنت جیسا نظارہ ہر خوبصورت رنگ برنگے پھول پاس بہتی ندی کا شفاف اور میٹھا پانی اور پھولوں کی خوشبو سے معطر ہوا بھی اس کی سوچوں کو کم کرنے میں معاون ثابت نہیں ہو رہی تھی۔پاس سے گزرتی ٹرین کی زور دار آواز ان نو جوان آدمی کو سوچوں کی دنیا سے واپس لے آ ئی ایک پل کے لئے وہ اس خوبصورت نظارے میں دلچسپی لینے لگا۔ لیکن اس کے اندر کی بے چینی بڑھتی جا رہی تھی ۔ اور اس نوجوان کو اس دلفریب منظر سے وہشت ہونے لگی ۔اچانگ وہ اٹھا اور ریل کی پٹڑی کی طرف چل پڑا۔ اس شاید اس کا ارادہ آج زندگی جیسی نعمت سے محروم ہونے کا تھا۔ ایک پل کے لئے اس کے قدم ڈگمائے اور وہ اپنے ماضی میں کھو گیا۔ اس کے پاس سب کچھ تھا۔ گھر ،گاڑی، دولت لیکن سکون نہیں تھا۔اس کی بے چینی بڑھتی جا رہی تھی ۔ دور سے آتی ٹرین کو دیکھ کر وہ پٹڑی کی طرف بڑھا لیکن ایک انجانے خوف کے تحت وہ پیچھے ہٹ کے پاس ہی پڑے پتھر پر بیٹھ گیا۔ دن دھلنے لگا اور شام باہیں پھیلائے رات کے طرف بڑھ رہی تھی ۔اندھیرا چھا نے لگا اتنے میں وہاں ایک بزرگ ہاتھ چراغ اٹھا ئے دور سے آ تا دکھائی دیا۔ اس کے کپڑوں پہ لگے پیونڈ اور جوتے کی بغیر پاؤں اس کی پسماندگی کی کہانی سنا رہے تھے۔ اس بزرگ نے اس نوجوان کے کندھے پر ہا تھ رکھا اور کہا کہ پریشان معلوم ہو تے ہو اور تمہاری ماتھے کی شکنیں بتا رہی ہیں اپنے ہی گناہوں کی دلدل میں پھنس گئے ہو اس نوجوان نے آ نکھوں میں آنسو لے کر ہاں میں سر ہلایا۔تھوڑی دیر بعد بزرگ نے مخاطب ہو کر کہا کہ سکون کے متلاشی اور گناہگاروں کے لئے ایک دروازہ ہمیشہ کھلا رہتا ہے۔ کچھ سال پہلے ہی مجھے اس دروازے کا پتا چلا ہے۔ اور آج وہ پتہ تمہیں بتا رہا ہوں اس نو جوان نے جلدی سے بزرگ کا ہاتھ تھاما اور اس دروازے کا پتہ پو چھا بزرگ نے مسکرا کر اس نوجوان کی طرف دیکھا اتنے میں دور سے مؤذن کی آواز سنائی دی جو جولوگوں کو بھلائی کی طرف بلا رہا تھا ۔اس نوجوان نے بزرگ کی طرف دیکھا اور مسکرا کر شکریہ ادا کیا اور اس مؤذن کی آواز کے پیچھے دوڑ لگا دی اس شخص کو راہ قرا ر کا دروازہ مل چکا تھا اور وہ دروازہ تھا توبہ کا۔

Masoomah Zainab (Bahria University, Islamabad)
About the Author: Masoomah Zainab (Bahria University, Islamabad) Read More Articles by Masoomah Zainab (Bahria University, Islamabad): 2 Articles with 1454 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.