ہمارے پارکھ (Parakh): ڈاکٹرروف پاریکھ

ڈاکٹرصاحب کسی بھی بات کو سمجھانے کے لیے مذاق میں کچھ جملے کَستے ہیں (راقم کی نظرمیں پھینٹی لگاتے ہیں) تولوگ سمجھتے ہیں کہ طنز کررہے ہیں، جب کہ جو حضرات ڈاکٹرصاحب کی طبیعت سے واقف ہیں تو وہ ان جملوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں، اور اپنے لیے اتنے بڑے آدمی سے کچھ جملے سنے کے لیے ہمیشہ منتظررہتے ہیں۔

ڈاکٹرروف پاریکھ کسی تعارف کے محتاج نہیں، مگر میرا ان سے تعارف 1996ء ، 1997ء میں ہوا، جب ڈاکٹرصاحب کے پی ایچ ڈی کا مقالہ 'اردو نثر میں مزاح نگاری کا سیاسی اور سماجی پس منظر" انجمن ترقی اردو پاکستان سے پہلی بار شائع ہورہا تھا، ڈاکٹرصاحب غالبًا اُن دنوں حبیب بینک میں تھے، کبھی کبھی مقالے کی اشاعت کی غرض سے شہاب قدوائی صاحب مشورے کے لیے ڈاکٹرصاحب کو زحمت دیتے، اور آپ بہ خوشی انجمن کے دفتر آجاتے۔ کمپوزنگ کے سلسلے میں راقم سے بھی گفتگو کرتے، اور ساتھ ہی اکثر و بیشتریہ بھی فرماتے کہ تم اردو سوفٹ وئیر پر ایک مضمون لکھو، اس کی بہت ضرورت ہے۔ مگر آج تک ڈاکٹرصاحب کی یہ خواہش اپنی نااہلی کی وجہ سے پایہ تکمیل تک نہ پہنچا سکا۔ پھر جب ڈاکٹر صاحب اردو ڈکشنری بورڈ میں مدیراعلیٰ کی حیثیت سے متمکن ہوئے تو انجمن بھی آنے جانے میں برق رفتاری آگئی۔ادیب سہیل اور پھر ڈاکٹرممتاز احمد خان کو قومی زبان میں شائع ہونے والے مضامین کے سلسلے میں مشورے دیا کرتے اور ڈاکٹرممتاز صاحب کے لیے بیشترمعیاری مضامین خود لاکردیتے۔

پاریکھ صاحب اصل میں پارکھ (Parakh) ہیں، آپ چیزوں کو اس طرح پرکھ لیتے ہیں اور اندازہ کرلیتے ہیں کہ کس طالب علم یا اسکالر میں کتنا دم خم ہے، کچھ لوگ ڈاکٹر صاحب کے بارے میں یہ رائے رکھتے ہیں کہ آپ بہت مغرور ہیں۔ دراصل ڈاکٹرصاحب کسی بھی بات کو سمجھانے کے لیے مذاق میں کچھ جملے کَستے ہیں (راقم کی نظرمیں پھینٹی لگاتے ہیں) تولوگ سمجھتے ہیں کہ طنز کررہے ہیں، جب کہ جو حضرات ڈاکٹرصاحب کی طبیعت سے واقف ہیں تو وہ ان جملوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں، اور اپنے لیے اتنے بڑے آدمی سے کچھ جملے سنے کے لیے ہمیشہ منتظررہتے ہیں۔

ڈاکٹرصاحب نہایت حلیم طبیعت شخص ہیں، مگر وقت ضائع کرنے والے کو معاف نہیں کرتے۔ ہمیشہ معیاری کام کو ترجیح دیتے ہیں، اور کوشش کرتے ہیں کہ طالب علم صرف ڈگری کے حصول کے لیے کوشاں نہ رہے، بلکہ علم حاصل کرے، طالب علموں سے اکثر کہتے ہیں ’ابے کم بختوں پڑھ لو!‘ یہ اُن کی شفقت ہی تو ہے کہ ہر طالب علم کے حصول علم کے لیے بے چین ہیں۔ جب انجمن ترقی اردو پاکستان میں ملازمت کے فرائض انجام دے رہا تھا توراقم کا ایک مضمون باباے اردو کے خطوط پرشائع ہوا، گوکہ ابھی میں ڈاکٹرصاحب کا باقاعدہ شاگرد نہیں تھا، مگر پھر بھی کچھ نہ کچھ ڈاکٹرصاحب سے سیکھنے کا موقع ملتا رہتا تھا۔ ڈاکٹرصاحب انجمن تشریف لائے تو ملاقات ہوئی۔ ڈاکٹرصاحب نے ایک مشورہ دیا کہ مضمون اگرلکھنا ہے تواس میں کوئی نئی بات کرو۔ 2016ء میں شعبہ اردو میں داخلہ لیا توتصدیق کی مہر لگ گئی کہ ڈاکٹرصاحب کے شاگرد ہونے کا شرف حاصل ہوگیا۔ یہ تو ڈاکٹرصاحب کا حسن ظن (زن ۔ مرید والا نہیں) ویسے تو ہم ڈاکٹرصاحب کے مرید ہی ہیں، ورنہ ہم میں میاں مدن جیسی بات کہاں؟؟؟؟۔

سرکا سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ اچھے مضامین یا اسائمنٹ ملتے ہیں تو اپنے طالب علموں کی حوصلہ افزائی کے لیے مختلف ادبی رسائل وجرائد میں شائع کرواتے ہیں۔اپنی کتابیں طالب علموں کو مستعار دیتے ہیں، اور یہ تحریک پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ موضوع کے مطابق طالب علم اپنے مضامین تیار کریں۔ ساتھ ہی طالب علموں کو اس بات کی بھی تلقین کرتے رہتے ہیں کہ لکھا کرو۔ بہت کم لکھنے والے ہیں۔ لکھنے والوں کے لیے بے شمار موضوع ہیں، کام کرنے والوں کی بہت کمی ہے۔

سرآپ بے شمار خوبیوں کے مالک ہیں۔ شعبہ اردو کے اساتذہ مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انھوں نے ڈاکٹرصاحب کی علمی و ادبی خدمات کی پذیرائی کے لیے ایک خوبصورت تقریب کا انعقاد کیا۔خوشی اس بات کی ہے کہ شعبہ اردو میں اب محبتیں ہی محبتیں ہیں۔اللہ تعالیٰ شعبہ اردو کو اسی طرح پھلتا پھولتا ، قائم و دائم رکھے ۔ آمین

(ڈاکٹرروف پاریکھ کوصدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی ملنے پر شعبہ اردو، جامعہ کراچی نے 11 اپریل 2018 بروز بدھ تقریب پذایرئی کا اہتمام کیا۔ اس موقع پرراقم نے درج بالا مضمون پڑھا۔)

 

صابر جمیل
About the Author: صابر جمیل Read More Articles by صابر جمیل: 34 Articles with 79390 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.