قانون توھینِ رسالت کی ضرورت

تحفظ ناموسِ رسالت اور ہماری ذمہ داری (حصہ سوم )

تیسرا قابلِ غور پہلو اس قانون کا اجماعی قانون ہونا ہے۔ یہ کسی آمر کا دیا ہوا قانون ہے یا پارلیمنٹ کا پاس کردہ، اس پر تو ہم آگے چل کر بات کریں گے۔ یہاں صرف یہ بتانا ہے کہ اس قانون کی ضرورت کم از کم چار وجوہات کی بنا پر تھی:

اوّل، یہ قانون ملزم کو عوام کے رحم و کرم سے نکال کر قانون کے دائرے میں لاتا ہے۔ اس طرح اسے عدلیہ کے فاضل ججوں کے بے لاگ اور عادلانہ تحقیق کے دائرے میں پہنچا دیتا ہے۔ اب کسی کے شاتم ہونے کا فیصلہ کوئی فرد یا عوامی عدالت نہیں کرسکتی۔ عوام کے جذبات اور دخل اندازی کی گنجائش ختم ہوجاتی ہے۔ جب تک فاضل عدالت پوری تحقیقات نہ کرلے، ملزم کو صفائی کا موقع فراہم نہ کرے، کوئی اقدام نہیں کیا جاسکتا۔ اس لیے یہ قانون سب سے زیادہ تحفظ ملزم ہی کو فراہم کرتا ہے اور یہی اس کے نفاذ کا سب سے اہم پہلو ہے۔

دوم، یہ قانون دستورِ پاکستان کا تقاضا ہے کیونکہ دستورِ پاکستان ریاست کو اس بات کا ذمہ دار ٹھراتا ہے کہ وہ اسلامی شعائر کا احترام و تحفظ کرے اور ساتھ ہی مسلمان اور غیرمسلم شہریوں کے حقوق کو پامال ہونے سے بچائے۔

سوم، یہ قانون پاکستان کی ۹۵ فی صد آبادی کے جذبات کا ترجمان ہے جس کا ہر فرد قرآن کریم اور حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کی رُو سے اس وقت تک مسلمان نہیں ہوسکتا جب تک حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو وہ اپنی جان، اپنے والدین، دنیا کی ہر چیز والد والدہ اور تمام انسانوں سے زیادہ محبوب نہ رکھے۔ (بخاری ، مسلم)

یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ National Commission for Justice & Peace کی رپورٹ یہ بتاتی ہے کہ ۱۹۸۶ء سے ۲۰۰۹ء تک اس قانون کے حوالے سے پاکستان میں کُل ۹۶۴ مقدمات زیرسماعت آئے جن میں ۴۷۹ کا تعلق مسلمانوں سے، ۳۴۰ کا احمدیوں سے، ۱۱۹ کا عیسائیوں سے، ۱۴ کا ہندوؤں سے اور ۱۲ کا دیگر مسالک کے پیروکاروں سے تھا۔ ان تمام مقدمات میں سے کسی ایک میں بھی اس قانون کے تحت عملاً کسی کو سزائے موت نہیں دی گئی۔ عدالتیں قانون کے مطابق انصاف کرانے کے عمل کے تمام تقاضے پورا کرتی ہیں، جب کہ سیکولر لابی ہر ملزم کو مظلوم بناکر پیش کرتی ہے۔ انصاف کے عمل کو سبوتاژ کیا جاتا ہے۔ میڈیاوار اور بیرونی حکومتوں، اداروں اور این جی اوز کا واویلا قانون کی آنکھوں میں دھول جھونکنے، قانون کی عمل داری اور انصاف کی فراہمی کے عمل کو ناکام کرنے میں مصروف ہوجاتے ہیں۔ یہ عجیب بات ہے کہ ایک شخص اگر نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں ہتک، توہین، سب و شتم کا ارتکاب کرتا ہے تو عدالت کو حقیقت کو جاننے اور اس کے مطابق مقدمے کا فیصلہ کرنے سے روک دیا جاتا ہے۔ صحافت اور الیکٹرونک میڈیا اور این جی اوز اس کی ہمدردی اور ’مظلومیت‘ میں رطب اللسان ہوجاتے ہیں، حالانکہ مسئلہ ایک عظیم شخصیت انسانِ کامل اور ہادیِ اعظم کو نشانہ بنانے کا اور کروڑوں مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کرنے کا ہے۔ کیا اہانت اور استہزا کو محض ’آزادیِ قلم و لسان‘ قرار دیا جاسکتا ہے؟ کیا اسی کا نام عدل و رواداری ہے؟

حقیقی مظلوم کون ہے؟
جو کھیل ہمارے یہ آزادی کے علَم بردار کھیل رہے ہیں وہ نہ اخلاق کے مسلّمہ اصولوں سے مطابقت رکھتا ہے اور نہ انصاف کے تقاضوں سے ان کا کوئی تعلق ہے۔ یہ محض جانب داری اور من مانی کا رویہ ہے۔ اسلام ہر فرد سے انصاف کا معاملہ کرنے کا حکم دیتا ہے اور ایک شخص اس وقت تک صرف ملزم ہے مجرم نہیں جب تک الزام عدالتی عمل کے ذریعے ثابت نہیں ہوجاتا۔ لیکن جس طرح عام انسانوں کا جذبات کی رو میں بہہ کر ایسے ملزم کو ہلاک کردینا ایک ناقابلِ معافی جرم ہے، اسی طرح ایسے فرد کو الزام سے عدالتی عمل کے ذریعے بری ہوئے بغیر مظلوم قرار دے کر اور سیاسی اور بین الاقوامی دباؤ کو استعمال کر کے عدالتی عمل سے نکالنا بلکہ ملک ہی سے باہر لے جانا بھی انصاف کا خون کرنا ہے اور لاقانونیت کی بدترین مثال ہے۔

حالیہ مقدمہ اور قانون کی تنسیخ کا مطالبہ
قانونِ توہینِ رسالت پر جس کیس کی وجہ سے گرد اُڑائی جارہی ہے، اب ہم اس کے بارے میں کچھ معروضات پیش کرتے ہیں: آسیہ کیس کے بارے میں دی نیوز کی وہ رپورٹ بڑی اہمیت کی حامل ہے جو ۲۶نومبر کے شمارے میں شائع کی گئی ہے اور جس میں اس امر کی نشان دہی کی گئی ہے کہ یہ واقعہ جون ۲۰۰۹ء کا ہے جس کو ایس پی پولیس کی سطح پر واقعے کے فوراً بعد شکایت کرنے والے ۲۷ گواہوں اور ملزمہ کی طرف سے پانچ گواہوں سے تفتیش کے بعد سیشن عدالت میں دائر کیا گیا۔ ملزمہ نے ایک جرگے کے سامنے اپنے جرم کا اعتراف کیا اور معافی کی درخواست کی۔ مقدمے کے دوران کسی ایسے دوسرے تنازعے کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا جسے اب وجہِ تنازع بنایا جا رہا ہے۔ جس جج نے فیصلہ دیا ہے وہ اچھی شہرت کا حامل ہے اور ننکانہ بار ایسوسی ایشن کے صدر راے ولایت کھرل نے جج موصوف کی دیانت اور integrity کا برملا اعتراف کیا ہے۔ رپورٹ میں یہ بات بھی صاف الفاظ میں درج ہے کہ: علاقے کی بار ایسوسی ایشن کا دعویٰ ہے کہ اصل فیصلے کو پڑھے بغیر شوروغوغا کیا جا رہا ہے، حالانکہ عدالت میں ملزمہ کے بیان میں کسی دشمنی یا کسی سیاسی زاویے کا ذکر نہیں جس کا اظہار اب کچھ سیاست دانوں یا حقوقِ انسانی کے چیمپئن اور این جی اوز کی طرف سے کیا جا رہا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ اصل فیصلے کے مندرجات کو یکسر نظرانداز کر کے اس کیس کو سیاسی انداز میں اُچھالا جارہا ہے اور قانون ناموسِ رسالت کو ہدف بنایا جا رہا ہے۔ ہم اس رپورٹ کے باوجود یہ سمجھتے ہیں کہ ابھی عدالتی عمل کے اہم مراحل موجود ہیں۔ ہائی کورٹ میں اپیل اور سپریم کورٹ سے استغاثہ وہ قانونی عمل ہے جس کے ذریعے انصاف کا حصول ممکن ہے اور دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوسکتا ہے۔ لیکن اس عمل کو آگے بڑھانے کے بجائے ایک گروہ اسے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کر رہا ہے، اور اس سے بھی زیادہ قابلِ مذمت بات یہ ہے کہ تحفظ ناموس رسالتؐ کے قانون ہی کی تنسیخ یا ترمیم کا کو رَس برپا کیا جا رہا ہے جو ایک خالص سیکولر اور دین دشمن ایجنڈے کا حصہ ہے۔ پاکستان کی حکومت اور قوم کو اس کھیل کو آگے بڑھنے کی اجازت نہیں دینا چاہیے۔

آزادیِ اظہار کے نام پر جرم کی تحلیل اور مجرموں کی توقیر کا دروازہ کھلنے کا نتیجہ بڑی تباہی کی شکل میں رونما ہوسکتا ہے۔ جیسا کہ ہم نے عرض کیا یہ قانون ایک حصار ہے اور ایک طرف دین اور شعائر دین کے تحفظ کا ذریعہ ہے تو دوسری طرف سوسائٹی میں رونما ہونے والے کسی ناخوش گوار واقعے کو قانون کی گرفت میں لانے اور انصاف کے عمل کا حصہ بنانے کا ذریعہ ہے ورنہ معاشرے میں تصادم، فساد اور خون خرابے کا خطرہ ہوسکتا ہے جس کا یہ سدباب کرتا ہے۔ قانون اپنی جگہ صحیح، محکم اور ضروری ہے۔ قانون کے تحت پورے عدالتی عمل ہی کے راستے کو ہر کسی کو اختیار کرنا چاہیے، نہ عوام کے لیے جائز ہے کہ قانون اپنے ہاتھ میں لیں اور نہ ان طاقت ور لابیز کو یہ زیب دیتا ہے کہ وہ قانون کا مذاق اُڑائیں اور عدالتی عمل کی دھجیاں بکھیرنے کا کھیل کھیلیں۔ معاشرے میں رواداری، برداشت اور قانون کے احترام کی روایت کا قیام ازبس ضروری ہے اور آج ہر دو طرف سے قانون کی حکمرانی ہی کو خطرہ ہے۔

حق تو یہ ہے کہ یہ قانون نہ صرف اہلِ ایمان بلکہ ہر ایسے انسان کے لیے اہمیت رکھتا ہے جو رواداری، عدل و انصاف اور معاشرے میں افراد کی عزت کے تحفظ پر یقین رکھتا ہو۔ یہ معاملہ محض خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی ناموس کا نہیں ہے بلکہ مسلمانوں کے لیے ہر نبی اور ہر رسول کی عزت و ناموس محترم ہے۔ اس لیے اس قانون کو نہ تو اختلافی مسئلہ بنایا جاسکتا ہے اور نہ اسے یہ کہہ کر کہ یہ محض ایک انسانی قانون ہے، تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ ہاں، اگر کہیں اس کے نفاذ کے حوالے سے انتظامی امور یا کاروائی کو زیادہ عادلانہ بنانے کے لیے طریق کار میں بہتری پیدا کرنے کی ضرورت ہو، تو دلیل اور تجربے کی بنیاد پر اس پر غور کیا جاسکتا ہے اور قانون کے احترام اور اس کی روح کے مطابق اطلاق کو مؤثر بنانے کے لیے ضروری اقدام ہوسکتے ہیں تاکہ عدالت جلد اور معقول تحقیق کرنے کے بعد فیصلے تک پہنچ سکے۔ بیرونی دباؤ اور عالمی استعمار اور سیکولر لابی کی ریشہ دوانیوں کے تحت قانون کی تنسیخ یا ترمیم کا مطالبہ تو ہمارے ایمان، ہماری آزادی، ہماری عزت اور ہماری تہذیب کے خلاف ایک گھناؤنی سازش ہی نہیں ان کے خلاف اعلانِ جنگ ہے جن کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے۔ معذرت خواہانہ رویہ دراصل کفر کی یلغار اور دشمنوں کی سازشوں کے آگے ہتھیار ڈالنے کے مترادف ہوگا۔

نوٹ:
َ َ ڈاکٹر انیس احمد صاحبَ َ کا یہ مضمون ماہنامہ َ َ ترجمان القرآن َ َ کے دسمبر کے شمارے میں شائع ہوا ہے۔ اس کی اہمیت کے پیش نظر ہم اسے یہاں پیش کررہے ہیں۔مضمون کی طوالت کےباعث اس کو ایک ہی کالم کے بجائے اصل مضمون میں دئے گئے اس کے ذیلی عنوانات کے تحت حصوں میں شائع کیا جارہا ہے۔ جو لوگ اس مضمون کو براہ راست اور ایک ہی نشت میں پڑھنا چاہیں ان کے لئے یہاں اس مضمون کا لنک دیا جارہا ہے۔
https://www.tarjumanulquran.org/2010/12_december/ishraat001/1.htm
Saleem Ullah Shaikh
About the Author: Saleem Ullah Shaikh Read More Articles by Saleem Ullah Shaikh: 534 Articles with 1452417 views سادہ انسان ، سادہ سوچ، سادہ مشن
رب کی دھرتی پر رب کا نظام
.. View More