اولاد

آج ہسپتال میں میٹرنٹی وارڈ کے باہر جلے پاؤں کی بلی کی طرح چکر کاٹتا وہ کہیں سے ملک صفدر حیات نہیں لگ رہا تھا. اس کی ماں اور بہنیں اس کو بار بار بیٹھ جانے کا کہتیں. مگر اس کے پاوں کا چکر رکنے میں ہی نہیں آرہا تھا. آج اس کی بیوی پہلی دفعہ میٹرنٹی وارڈ میں نہیں آئی تھی. بلکہ وہ چار خوبصورت، صحت مند اور زپین بیٹیوں کا باپ تھا. مگر اولاد نرینہ کے حصول کے لئے وہ پاگل ہوا جارہا تھا. ڈاکٹروں کے سمجھانے کے باوجود کہ اس کی بیوی کی جان کو پهر ماں بننے سے خطرہ ہوسکتا ہے. اس نے مزید امتحان میں اپنی بیوی کو ڈال دیا. وه ہمیشہ سے اپنی ماں اور بہنوں کے علاوہ ہر عورت کو حقارت کی نظر سے دیکھتا تها. اپنی بیوی کو تو ماں بہنوں کی معمولی شکایات پر دھوبی کی طرح دهو ڈالتا تھا.

اچانک میٹرنٹی وارڈ کا دروازہ کھلا اور ایک نرس نے اس کے آگے ایک فارم کردیا اور کہا:

نارمل ڈلیوری ممکن نہیں ہے لہذا آپریشن کرنا پڑے گا. اس نے جلدی سے دستخط کردیئے. پریشانی کے اس وقت میں اللہ یاد آیا.دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے تو بڑی بهابهی کا چہرہ ذہن میں آگیا. اپنی ساری بد سلوکیاں یاد آگئیں وه برادری سے باہر کی ہونے اور پڑهی لکھی ہونے کے باعث وہ کبھی بھی اس کو پسند نہیں آئی تهیں. اس کے خیال میں پڑهی لکھی عورت گھر بسانے کی اہلیت سے عاری ہوتا ہے. مگر اس کے بهائی کی خواہش کے باعث ان کو اس کو بیاه کر گهر لانا پڑا.جب بهابهی کے امید سے ہونے کی خبر اس کے کانوں میں پڑهی تو اس نے باتوں باتوں میں بار بار یہ کہنا شروع کردیا کہ وہ اپنے بهتیجے سے کھیلنے کے لیے بے تاب ہے. ایک دفعہ بهابهی نے ہنس کر پوچھ لیا کہ اگر بهتیجی هوئی تو؟

وہ ایسے منہ بنا کر اٹھ گیا جیسے اس نے کونین کی گولی چبا لی ہوں. اس کو یاد آیا کہ اس کی اس تکرار کے باعث اس کی بهابهی پورے نو مہینے ذہنی تناؤ کا شکار رہی تھی.

ایک دن بهابهی کی کسی سہیلی کا فون آیا. بهابهی اس کی بیٹی کی پیدائش پر مبارکباد دے رہی تهیں.

فون کر رکھ کر پلٹی تو اس نے مونچهوں پر تاؤ دے کر کہا :
"آپ لوگ بھی عجیب ہیں جو بیٹیوں کی پیدائش پر بھی مبارکبادیاں دیتے ہو اور مٹھائیاں تقسیم کرتے ہو"

اس کو اپنی بهابهی کی حیرت سے بهری آنکھیں یاد آگئی. پهر اللہ نے اس کو دکھایا کہ اللہ نے اسی بهابهی کو چار بیٹوں کی ماں بنایا.جہاں ہر دفعہ اس کے گھر رحمت آتی وہاں ہر دفعہ اس کے بهائی کے گھر نعمت آتی. پچھتاوے اور تاسف سے اس کا دل بهر گیا. اچانک اس کے ذہن میں خیال آیا آج اگر سکینہ کو کچھ ہوگیا تو کیا وہ پانچ بچے اکیلے پال سکے گا. دل نے بے اختیار نفی میں جواب دیا. اپنی محبت کرنے والی شریک حیات کا چہرہ آنکھوں کے سامنے پهر گیا. اپنی بچوں والی ضد کہ مجھے بیٹا ہر قیمت پر چاہئے. حالانکہ وہ بخوبی اس بات سے واقف تھا کہ بچے کی جنس کا تعین مرد کی طرف سے آنے والا کروموسوم کرتا ہے مگر اس کی خودساختہ مردانگی اس کو اس بات کا اعتراف کرنے سے روکے رکتی.پهر اس کو اپنا پارٹنر اکبر یاد آگیا جس کے چار بیٹے تھے مگر سارے کہ سارے شرابی اور جواری تھے. اکبر کو اس آخری عمر میں اس کی بیٹی اور داماد سنبھال رہے تھے.

اس کو اپنی بلبل کی طرح چہکتی بیٹیاں یاد آگئی جو اس کے جوتے اتارنے میں بھی خوشی محسوس کرتی تهیں. اس کو پہلی دفعہ اس بات کا احساس ہوا کہ نیک اولاد اللہ کی دین ہے چاہے وہ بیٹا ہو یا بیٹی. اللہ نے اس کو بے اولاد نہ رکھا. اس کے ذہن میں وہ آیت گونجی ؍سورہ شوریٰ آیت نمبر 48-49؍(ترجمہ کنزالایمان) اللہ ہی کے لیے ہے زمین و آسمان کی سلطنت پیدا کرتا ہے جو چاہے ،جسے چاہے بیٹیاں عطا فرمادے اور جسے چاہے بیٹے دے یا دونوں ملا دے بیٹے اور بیٹیاں،اور جسے چاہے بانجھ کر دے بیشک وہ علم اور قدرت والا ہے۔ "

ملک صفدر حیات کو ایسا محسوس ہوا کہ اس کی روح کے اوپر سے ملمع اتر گیا ہوں.اس نے مطمئن ہو کر سجدے میں سر رکھ دیا اس یقین کے ساتھ کہ اس کی شریک حیات اور بچہ یا بچی سب اللہ کی ہی امان میں ہیں.

Mona Shehzad
About the Author: Mona Shehzad Read More Articles by Mona Shehzad: 168 Articles with 263787 views I used to write with my maiden name during my student life. After marriage we came to Canada, I got occupied in making and bringing up of my family. .. View More