والد محترم نسیم خان مرحوم کی یاد میں

آنکھ کھولی تو ان کو درویشی کی زندگی بسر کرتے دیکھا ،دنیا کی ریل پیل اور دولت کی چمک ان سامنے ہیچ تھی ارادوں کے پکے اور دل کے سچے انسان تھے ،اصولوں پر سمجھوتا کیا نہ کبھی سودے بازی ۔اچھے گھرانے کے چشم و چراغ تھے ،ان کے والد محترم جیل سپرٹنڈنٹ کے عہدے پر براجمان رہے لیکن اولاد میں سادگی مسکنت اور عاجزی تھی ۔جب سے ہوش سنبھالا ان کو دعوت و تبلیغ کی محنت سے وابستہ پایا ،کوئی شب جمعہ ان کا رائیگاں نہیں گیا ،وہ ایک داعی اور با عمل مسلمان تھے ،جو کچھ سمجھتے سیکھتے اس پر ڈٹ جاتے ،علما کرام سے دلی محبت اور انس رکھتے تھے ،میری مراد میرے والد محترم نسیم خان مرحوم ہیں جو چند روز قبل راہی ملک عدم ہوئے اناﷲ وانا الیہ راجعون ۔ان کی وفات حسرت آیات کے بعد قلم پکڑا نہیں جاتا دل ساتھ نہیں دیتا اور دماغ بھی ماوف ۔لیکن کچھ خیالات بار بار دماغ پر بجلی بن کے گزرتے ہیں جن کو زینت قرطاس بنانے کے لیے بے چینی اور کھلبلی مچی ہوئی ہوئی ہے ۔اﷲ تعالی مصیبت کی اس گھڑی میں استقامت نصیب کریں اور قلم کی روانی عنایت فرمائیں ۔

یہ غالبا انیس سو نوے کی بات ہے جب میں چار پانچ سال کی عمر کی دہلیز پر کھڑا تھا میرے والد نے میری فطری استعداد اور ذہانت کو دیکھتے ہوئے مجھے دین متین کی خدمت کے لیے وقف کرنے کا فیصلہ کر لیا ،یہ فیصلہ اتنا آسان نہ تھا کیوں کہ دادا حاجی بنارس خان مرحوم جیل سپرٹنڈینٹ تھے ان کے خیال میں دنیا وی تعلیم ہی ترقی کا زینہ تھی اس بات کو لے کر والد صاحب اور دادا مرحوم کے دوران ٹھن گئی لیکن میرے والد کہاں ہمت ہارنے والے تھے انہوں نے مجھے مدرسہ تجوید القرآن سراجیہ میں داخل کروادیا اور مجھے دین کی راہ پر گامزن کردیاوہ دن اور آج کا دن مسلسل کامیابی کے پچیس سال بیت گئے حفظ قرآن کیا ،تجوید القرآن مکمل کی ،درس نظامی کا سنگ میل عبور کیا ،فقہ اسلامی میں تخصص کیا ،دس سال سے قلم کے ساتھ رشتہ قائم ہوا جب بھی کالم لکھتا خوب داد دیتے ،ہمت بڑہاتے حوصلہ افزائی کرتے ۔قریبا دو سو کے قریب قومی اخبارات میں کالم شائع ہوئے ،یہ سب والد صاحب کی دعا کا اثر تھا۔جب کبھی کالم لکھتا والد گرامی اس کو لے کردن بھرپڑہتے دوستوں کو بتاتے تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملاتے نہ تھکتے تھے ۔

میں نے اپنی زندگی میں اﷲ کریم کے فضل سے قریبا ۱ٹھارہ مرتبہ تراویح میں قرآن کریم کی تکمیل کی سعادت حاصل کی ان تمام مواقع میں کہیں جامع مسجد تھی تو کہیں چھوٹی مسجد ،ہر سال میرے ساتھ جاتے ،قرآن سنتے اور داد سے نوازتے حوصلہ افزائی فرماتے ،ہری پور سے اسلام آباد تک کی مشہور مساجد جن میں سینکڑوں نمازی بیک وقت نماز تراویح پڑہتے ہیں ان میں والد صاحب کی دعا کے نتیجہ میں رسائی ہوئی ۔والد صاحب کی دعا جو ہر وقت زیر لب رہتی تھی ’یا اﷲ میرے بچے کو دین کی خدمت کے لیے قبول فرما اور اسے مسجد نبوی کا امام بنا ‘میں بسا اوقات دعا سنتے سنتے تھک جاتا تو ازراہ تفنن کہتا ’ابو جی آپ کی دعا قبول نہیں ہوتی تو کہتے بیٹا میری دعا قبول ہوگی میں اس دنیا میں نہ بھی رہا پھر بھی ایک دن تم کامیابی کے اعلی مرتبہ پر فائز ہوگے آج ان کی جدائی کو چند دن ہی بیتے ہیں فیصل مسجد اسلام آباد میں ہر سال رمضان میں شبینہ ہوتی ہے امسال بھی محکمہ اوقاف کے تحت وہاں شبینہ ہوگی اس ضمن میں بعض اساتذہ نے تین پارے سنانے کی ہدایت کی ہے یہ سب اﷲ کا فضل اور والد کی دعا ہے ،میں کہا اور فیصل مسجد میں تراویح کہاں ؟میں جب جامعہ فریدیہ اسلام آباد کا طالب علم تھا اس دوران بھی فیصل مسجد میں نمازیں پڑھانے کی سعادت حاصل کر چکا ہوں ۔ایں سعادت بزور بازو نیست ۔۔کیا اس سارے قضیے کو ملا کر یہ بات ثابت نہیں ہوتی کہ رب کی رضا والد کی رضا میں ہے اور رب کی ناراضگی والد کی ناراضگی میں ہے ۔اور یہ حدیث بھی ہے ۔میں نے ایک مرتبہ ماؤں کے عالمی دن کے موقع پر ’ماں تجھے سلام ‘کے عنوان سے کالم تحریر کیا والدہ نے پڑھا آنکھوں سے لگایا ،اس کو سنبھال کر رکھا جو کوئی آتا اس کو بتاتیں کہ میرے بیٹے نے میرے بارے میں کالم لکھا ،اس چیز کودیکھ کر والد صاحب کے دل میں حسرت اٹھی اور کہا بیٹا کہ والد کے بارے میں بھی کالم لکھو ،والد کی کیا شان ہوتی ہے ،کیا احترام ہوتا ہے میں باوجود کوشش کے کالم نہ لکھ سکا ،کوشش کے باوجود ادھورا رہ جاتا مجھے کیا علم تھا کہ والد صاحب کی زندگی میں کالم نہ لکھ سکوں گا ،آج جب وہ اس دنیا میں نہیں ہیں ان کی کمی کا شدت سے احساس ہوتا ،درد اور ٹھیسیں اٹھتی ہیں دل کو چھلنی کرتی ہیں او اشکوں کے سمندر آنکھوں کی دہلیز پر رواں ہوتے ہیں ،کلیجہ دل کو آتا ہے کوئی پرسان حال نہیں ،باپ جیسا کوئی سائباں نہیں ،دور دور تک منزل کانشان نہیں ،کسی پر مان نہیں بس والد والد ہوتے ہیں ان کی جگہ کوئی نہیں لے سکتا ،والد کی رضا کو حبیب کبریا ﷺ نے رب کی رضا قرار دیا اور ان کی ناراضگی کو رب کی ناراضگی ۔ماواں اگر ٹھنڈیاں چھاواں ہیں تو باپ بھی سائباں سے کم نہیں ،ماں کے قدموں تلے جنت ہے تو باپ کی اطاعت بھی جنت کا راستہ ہے ۔زمانے کے کڑوے کسیلے حالات سہہ کر اولاد کا کوئی پشتی بان بنتا ہے تو وہ صرف والد ہے ،معاشرے میں والد کے ساتھ کی جانے والی زیادتی لمحہ فکریہ ہے ۔گاڑیوں اور پبلک مقامات پر اس چیز کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے ۔ہمارا معاشرہ ہر معاملہ میں یکطرفہ ٹریفک چلانے کا عادی ہو چکا ہے ماں کا احترام اپنی جگہ لیکن اس معاملے میں بھی معاشرہ ایک طرف کو بہت جھک چکا ہے ،

راقم کا مسلسل معمول ہے کہ کہیں بھی جاتے وقت ماں کی دعا کو لازمی سمجھتا اور والد کی تھپکی سے کمر کو ضرور سہلاتا لیکن آہ ۔اب کمر تھپکانے ولا نہیں رہا ،اب تہجد کو اٹھ کر دعائیں کرنے والا جس کی دعاوں سے آج یہاں پہنچا ہوں نہیں رہا ۔اب ’’جاؤ بیٹا اﷲ تمہیں کامیاب کرے ‘‘کہنے والا نہیں رہا ،اﷲ میری والدہ کی عمر دراز کریں جنہیں دیکھ کر حیات مستعار کے چند دن گزارنے ہیں ۔آمین ۔والد صاحب کی کمی کا احسا س ان کے جانے کے بعد ہوتا ہے ،جن کے والد زندہ ہیں ان کی خدمت کو اپنا شعار بنائیں ،اس میں دقیقہ فر وگزاشت کوتاہی نہ کریں ،یہ وقت گزر جانا ہے لیکن ان والدین نے واپس نہیں آنا بس جتنا ہو سکے ان کی اطاعت کو لازمی سمجھیں ۔میرے والد میرے دوست بھی تھے ،میرے مرشد ومریی ۔پاب کا غصہ کیاہوتا ہے میں نے کبھی نہیں دیکھا ،بچوں کے ساتھ گھل مل کر رہنا میرے والد کا وطیرہ تھا یہی وجہ تھی کہ ہم سب بھائی بلا تکلف ان سے ہر بات شیئر کرتے تھے ،ان کی زندگی میں مشورہ کی بہت اہمیت تھی ،ہمیشہ جڑ کر رہنے اور بڑے بھائی کی عزت وتکریم کی وصیت کرتے ہمارے والد اچانک ایک دن کی بیماری کے بعد داعی اجل کو لبیک کہہ گئے ،اکیس فروری بروز بدھ ان کی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی ،ساری زندگی دعوت وتبلیغ کی محنت کا نتیجہ ان کی وفات کے بعد عیاں ہوا ،چہرے پر حد درجہ اطمینان اور سکون تھا ،ایسے کہ جیسے کوئی سویا ابھی اٹھے گا،بات کرے گا ،والد صاحب کی وفات کے پانچویں روز راقم کو خواب میں زیارت ہوئی ،میری پریشانی پر تسلی دی ڈھارس بندھائی ،’کہا میں زندہ ہوں تم کبیدہ خاطر نہ ہو اپنے کام کاج کو جاؤ میں آگیا ہوں ،میں نے کہا زیر زمین کیا صورتحال ہے کہنے لگے یہاں ہوائیں مہکتی ہیں ،خوشبوؤوں سے کمرہ معطر ہے زیر زمین حصہ بہت ٹھنڈا ہے ہر قسم کی سہولت اور آسانی کا ساماں ہے ‘‘سبحان اﷲ ۔اس خواب کے بعد غم ہلکا ہوااور دنیاوی معمولات دوبارہ شروع ہوئے ۔والد صاحب کی نماز جنازہ بھی چونکہ میں نے خود پڑھائی اس لیے اور زیادہ تسلی اور افتخار کا باعث ہے کہ انہوں ہماری اچھی تربیت فرمائی ۔آبائی گاؤں دور ہونے کے باوجود عوام کا سیلاب جنازہ میں امڈ آیا ،ایسا جنازہ جسے دیکھ کر انسان عش عش کر اُٹھے،علماکرام مفتیان عظام ،مدارس کے مہتممین ،خانقاہوں کے گدی نشین ،ناظمین ،نائب ناظمین ،سیاسی سماجی شخصیات ،محکمہ تعلیم کے آفیسرز اساتذہ کرام تاجر برادری ،وکلا ،ججز صاحبان ،محکمہ پولیس غرضیکہ زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد نے شرکت کی اور عصر کی نماز کے بعد ان کی تدفین عمل میں لائی گئی ۔اﷲ غریق رحمت فرمائیں ۔آخرت کی منازل آسان فرمائیں ۔ہمیں صبر جمیل عطا فرمائیں آمین ۔
کتنی مشکل زندگی ہے کس قدر آساں ہے موت
اس گلشن ِہستی میں مانندِ نسیم ارزاں ہے موت

Touseef Ahmed
About the Author: Touseef Ahmed Read More Articles by Touseef Ahmed: 35 Articles with 32048 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.