میلاد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ائمہ کرام ومحدثین حصہ دھم

’’ابن جوزی (510۔ 579ھ) کہتے ہیں : پس حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادتِ باسعادت کے موقع پر خوشی منانے کے اَجر میں جب اُس ابولہب کے عذاب میں بھی تخفیف کر دی جاتی ہے جس کی مذمت (میں) قرآن حکیم میں (ایک مکمل سورت) نازل ہوئی ہے۔ تو اُمتِ محمدیہ کے اُس توحید پرست مسلمان کو ملنے والے اَجر و ثواب کا کیا عالم ہوگا جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد کی خوشی مناتا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت و عشق میں حسبِ اِستطاعت خرچ کرتا ہے؟ خدا کی قسم! میرے نزدیک اﷲ تعالیٰ ایسے مسلمان کو (اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشی منانے کے طفیل) اپنے بے پناہ فضل کے ساتھ اپنی نعمتوں بھری جنت عطا فرمائیں گے۔‘‘
ملا علي قاري، المورد الروي في مولد النبي صلي الله عليه وآله وسلم ونسبه الطاهر : 42، 43
31۔ حضرت مجدد الف ثانی (971۔ 1034ھ)امام ربانی شیخ احمد سرہندی حضرت مجدد الف ثانی (1564۔ 1624ء) اپنے ’’مکتوبات‘‘ میں فرماتے ہیں :

نفس قرآں خواندن بصوتِ حسن و در قصائد نعت و منقبت خواندن چہ مضائقہ است؟ ممنوع تحریف و تغییر حروفِ قرآن است، والتزام رعایۃ مقامات نغمہ و تردید صوت بآں، بہ طریق الحان با تصفیق مناسب آن کہ در شعر نیز غیر مباح است. اگر بہ نہجے خوانند کہ تحریفِ کلمات قرآنی نشود. . . چہ مانع است؟
’’اچھی آواز میں قرآن حکیم کی تلاوت کرنے، قصیدے اور منقبتیں پڑھنے میں کیا حرج ہے؟ ممنوع تو صرف یہ ہے کہ قرآن مجید کے حروف کو تبدیل و تحریف کیا جائے اور اِلحان کے طریق سے آواز پھیرنا اور اس کے مناسب تالیاں بجانا جو کہ شعر میں بھی ناجائز ہے۔ اگر ایسے طریقہ سے مولود پڑھیں کہ قرآنی کلمات میں تحریف واقع نہ ہو اور قصائد پڑھنے میں مذکورہ (ممنوعہ) اَوامر نہ پائے جائیں تو پھر کون سا اَمر مانع ہے؟‘‘
مجدد الف ثاني، مکتوبات، دفتر سوم، مکتوب نمبر : 72

32۔ اِمام علی بن اِبراہیم الحلبی (975۔ 1044ھ)اِمام نور الدین علی بن ابراہیم بن احمد بن علی بن عمر بن برہان الدین حلبی قاہری شافعی نہایت بلند رُتبہ عالم اور مقبول و مشہور مشائخ میں سے ہیں۔ اُن کے مدلل علم کی وجہ سے اُنہیں امام کبیر اور علامۂ زماں کہا گیا ہے۔ اُن کے معاصرین میں سے کوئی ان کے پائے کا نہ تھا۔ آپ بہت سی بلند پایہ و مقبول کتب کے مصنف و شارح ہیں۔ آپ کی عظیم ترین کتاب سیرتِ طیبہ پر ’’انسان العیون فی سیرۃ الامین المامون‘‘ ہے جو کہ ’’السیرۃ الحلبیۃ‘‘ کے نام سے معروف ہے۔ اُنہوں نے اِس کتاب میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا میلاد شریف منانے پر دلائل دیتے ہوئے اِس کا جائز اور مستحب ہونا ثابت کیا ہے۔ آپ فرماتے ہیں :
والحاصل أن البدعة الحسنة متّفق علي ندبها، وعمل المولد واجتماع الناس له کذلک أي بدعة حسنة.
’’حاصلِ کلام یہ ہے کہ بدعتِ حسنہ کا جواز و اِستحباب متفقہ ہے (اس میں کوئی اِختلاف نہیں) اور اِسی طرح میلاد شریف منانے اور اس کے لیے لوگوں کے جمع ہونے کا عمل ہے، یعنی یہ بھی بدعتِ حسنہ (جائز اور مستحب) اَمر ہے۔‘‘
حلبي، إنسان العيون في سيرة الأمين المامون، 1 : 84

’’اور شبِ میلاد شبِ قدر سے افضل ہے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مکہ کے اُس گھر میں پیدا ہوئے جو محمد بن یوسف کی ملکیت ہے۔ اور ابو لہب کی باندی ثویبہ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دودھ پلایا اور جب اُس نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیدائش کی خبر سنائی تو ابولہب نے اُسے آزاد کردیا۔

’’اور ابولہب کو مرنے کے بعد خواب میں دیکھا گیا تو اس سے پوچھا گیا : اب تیرا کیا حال ہے؟ پس اُس نے کہا : آگ میں جل رہا ہوں، تاہم ہر پیر کے دن (میرے عذاب میں) تخفیف کر دی جاتی ہے اور اُنگلی کے اشارہ سے کہنے لگا کہ میری ان دو انگلیوں کے درمیان سے پانی (کا چشمہ) نکلتا ہے (جسے میں پی لیتا ہوں) اور یہ (تخفیفِ عذاب میرے لیے) اس وجہ سے ہے کہ میں نے ثویبہ کو آزاد کیا تھا جب اس نے مجھے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ولادت کی خوش خبری دی اور اس نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دودھ بھی پلایا تھا۔

’’ابن جزری کہتے ہیں : پس جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادتِ باسعادت کے موقع پر خوشی منانے کے اَجر میں اُس ابولہب کو بھی جزا دی جاتی ہے جس کی مذمت (میں) قرآن حکیم میں (ایک مکمل) سورت نازل ہوئی ہے۔ تو اُمت محمدیہ کے اُس توحید پرست مسلمان کو ملنے والے اَجر و ثواب کا کیا عالم ہوگا جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد کی خوشی مناتا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت و عشق میں حسبِ اِستطاعت خرچ کرتا ہے؟ خدا کی قسم! میرے نزدیک اﷲ تعالیٰ ایسے مسلمان کو (اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشی منانے کے طفیل) اپنے بے پناہ فضل کے ساتھ اپنی نعمتوں بھری جنت عطا فرمائیں گے۔

’’ہمیشہ سے اہلِ اسلام حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت کے مہینے میں محافلِ میلاد منعقد کرتے آئے ہیں۔ وہ دعوتوں کا اِہتمام کرتے ہیں اور اِس ماہِ (ربیع الاول) کی راتوں میں صدقات و خیرات کی تمام ممکنہ صورتیں بروئے کار لاتے ہیں۔ اِظہارِ مسرت اور نیکیوں میں کثرت کرتے ہیں اور میلاد شریف کے چرچے کیے جاتے ہیں۔ ہر مسلمان میلاد شریف کی برکات سے بہر طور فیض یاب ہوتا ہے۔
’محافلِ میلاد شریف کے مجربات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ جس سال میلاد منایا جائے اُس سال امن قائم رہتا ہے، نیز (یہ عمل) نیک مقاصد اور دلی خواہشات کی فوری تکمیل میں بشارت ہے۔ پس اللہ تعالیٰ اس شخص پر رحم فرمائے جس نے ماہِ میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی راتوں کو (بھی) بہ طور عید منایا۔

’’حجۃ اﷲ علی العالمین فی معجزات سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔ عالم عرب کے معروف محدّث و سیرت نگار اِمام یوسف بن اسماعیل بن یوسف نبہانی (1265۔ 1350ھ)

شیخ عبد الحق محدث دہلوی (958۔ 1052ھ)عارِف باﷲ قدوۃ المحدثین شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ (1551۔ 1642ء) نے اپنی کتاب ما ثَبَت مِن السُّنّۃ فی ايّام السَّنَۃ میں ۔ اُنہوں نے ماہِ ربیع الاول کے ذیل میں میلاد شریف منانے اور شبِ قدر پر شبِ ولادت کی فضیلت ثابت کی ہے۔ اور بارہ (12) ربیع الاول کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کا جشن منانا بہ طورِ خاص ثابت کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں :

’’ابولہب کو مرنے کے بعد خواب میں دیکھا گیا تو اس سے پوچھا گیا : اب تیرا کیا حال ہے؟ کہنے لگا : آگ میں جل رہا ہوں، تاہم ہر پیر کے دن (میرے عذاب میں) تخفیف کر دی جاتی ہے اور. اُنگلیوں سے اشارہ کرتے ہوئے کہنے لگا کہ. میری ان دو انگلیوں کے درمیان سے پانی (کا چشمہ) نکلتا ہے (جسے میں پی لیتا ہوں) اور یہ (تخفیفِ عذاب میرے لیے) اس وجہ سے ہے کہ میں نے ثویبہ کو آزاد کیا تھا جب اس نے مجھے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ولادت کی خوش خبری دی اور اس نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دودھ بھی پلایا تھا۔

’’ابن جوزی (510۔ 579ھ / 1116۔ 1201ء) کہتے ہیں : حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادتِ باسعادت کے موقع پر خوشی منانے کے اَجر میں ابولہب کے عذاب میں بھی تخفیف کر دی جاتی ہے جس کی مذمت (میں) قرآن حکیم میں (ایک مکمل) سورت نازل ہوئی ہے۔ تو اُمتِ محمدیہ کے اُس مسلمان کو ملنے والے اَجر و ثواب کا کیا عالم ہوگا جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد کی خوشی مناتا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت و عشق میں حسبِ اِستطاعت خرچ کرتا ہے؟ خدا کی قسم! میرے نزدیک اﷲ تعالیٰ ایسے مسلمان کو (اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشی منانے کے طفیل) اپنے فضل کے ساتھ اپنی نعمتوں بھری جنت عطا فرمائیں گے۔

’’اور ہمیشہ سے مسلمانوں کا یہ دستور رہا ہے کہ ربیع الاول کے مہینے میں میلاد کی محفلیں منعقد کرتے ہیں، دعوتیں کرتے ہیں، اس کی راتوں میں صدقات و خیرات اور خوشی کے اِظہار کا اہتمام کرتے ہیں۔ ان کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ ان دنوں میں زیادہ سے زیادہ نیک کام کریں۔ اس موقع پر وہ ولادت باسعادت کے واقعات بھی بیان کرتے ہیں۔

’’میلاد شریف منانے کے خصوصی تجربات میں محفلِ میلاد منعقد کرنے والے سال بھر امن و عافیت میں رہتے ہیں اور یہ مبارک عمل ہر نیک مقصد میں جلد کامیابی کی بشارت کا سبب بنتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ اُس پر رحمتیں نازل فرماتا ہے جو میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شب بہ طور عید مناتا ہے، اور جس (بدبخت) کے دل میں عناد اور دشمنی کی بیماری ہے وہ اپنی دشمنی میں اور زیادہ سخت ہوجاتا ہے۔
ما ثَبَت مِن السُّنّة في أيّام السَّنَة : 60 ،عارِف باﷲ قدوۃ المحدثین شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ (1551۔ 1642ء)

’’میں ہر سال حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد کے موقع پر کھانے کا اہتمام کرتا تھا، لیکن ایک سال (بوجہ عسرت شاندار) کھانے کا اہتمام نہ کر سکا، تومیں نے کچھ بھنے ہوئے چنے لے کر میلاد کی خوشی میں لوگوں میں تقسیم کر دیئے۔ رات کو میں نے خواب میں دیکھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے وہی چنے رکھے ہوئے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خوش و خرم تشریف فرما ہیں۔
الدر الثمين في مبشرات النبي الأمين صلي الله عليه وآله وسلم : 40
قطب الدین احمد شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (1114۔ 1174ھ)

’’اس سے پہلے میں مکہ مکرمہ میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت کے دن ایک ایسی میلاد کی محفل میں شریک ہوا جس میں لوگ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہِ اقدس میں ہدیۂ درود و سلام عرض کر رہے تھے اور وہ واقعات بیان کر رہے تھے جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کے موقعہ پر ظاہر ہوئے اور جن کا مشاہدہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت سے پہلے ہوا۔ اچانک میں نے دیکھا کہ اس محفل پر اَنوار و تجلیات کی برسات شروع ہوگئی۔ میں نہیں کہتا کہ میں نے یہ منظر صرف جسم کی آنکھ سے دیکھا تھا، نہ یہ کہتا ہوں کہ فقط روحانی نظر سے دیکھا تھا، اﷲ ہی بہتر جانتا ہے کہ ان دو میں سے کون سا معاملہ تھا۔ بہرحال میں نے ان اَنوار میں غور و خوض کیا تو مجھ پر یہ حقیقت منکشف ہوئی کہ یہ اَنوار اُن ملائکہ کے ہیں جو ایسی مجالس اور مشاہد میں شرکت پر مامور و مقرر ہوتے ہیں۔ میں نے دیکھا کہ اَنوارِ ملائکہ کے ساتھ ساتھ اَنوارِ رحمت کا نزول بھی ہو رہا تھا۔
فيوض الحرمين : 80، 81 قطب الدین احمد شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (1703۔ 1762ء)

اور ماہِ ربیع الاول کی برکت حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی میلاد شریف کی وجہ سے ہے۔ جتنا اُمت کی طرف سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں ہدیۂ درود و سلام اور طعاموں کا نذرانہ پیش کیا جائے اُتنا ہی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی برکتوں کا اُن پر نزول ہوتا ہے۔
فتاوٰي، 1 : 163 شاہ عبد العزیز محدّث دہلوی (1745۔ 1822ء
پیرآف اوگالی شریف
About the Author: پیرآف اوگالی شریف Read More Articles by پیرآف اوگالی شریف: 832 Articles with 1289568 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.