اقبال عہدِجدید کا ترجمان شاعر

اسلامُ علیکم!
یہ مضمون میں نے اقبال ڈے ٢٠١٠ پر گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج ہری پور کو لکھ کر دیا تھا اور جبکہ میں اسی کالج میں فرسٹ ائیر کا سٹوڈنٹ تھا اور اسی مضمون کے زریعے سے میں نے سارے کالج میں سے فرسٹ پوزیشن حاصل کی تھی۔ اور اس مقابلے میں کالج کے بہت سے سٹوڈنٹس نے حصہ لیا تھا جن میں فرسٹ اہیر، سیکنڈ ائر، بی-اے، بی ایس سی، بی ایس، ایم اے، ایم ایس سی اور دیگر بہت سے سٹوڈنٹس نے حصہ لے کر بہترین کارکردگی دکھائی۔ امید ہے آپکو یہ مضمون بہت پسند آئے گا۔

اقبال‘ عہدِ جدید کا ترجمان شاعر

کھول آنکھ زمیں دیکھ، فلک دیکھ، فضا دیکھ
مشرق سےابھرتے ہوئے سورج کو زرا دیکھ
اس جلوہ بے پردہ کو پردوں میں چھپا دیکھ
ایامِِ جدائی کے ستم دیکھ، جفا دیکھ
بے تاب نہ ہو معرکہ بیم و رجا دیکھ
کھول آنکھ زمیں دیکھ، فلک دیکھ،فضا دیکھ
ہیں تیرے تصرف میں یہ بادل یہ گھٹائیں
یہ گنبدِ افلاک، یہ خاموش فضائیں
یہ کوہ، یہ صحرا، یہ سمندر، یہ ہوائیں
تھیں پیشِ نظر کل تو فرشتوں کی ادائیں
آئینہ ایام میں آج اپنی ادا دیکھ
کھول آنکھ زمیں دیکھ، فلک دیکھ،فضا دیکھ
سمجھے گا زمانہ تیری آنکھوں کے اشارے
دیکھیں گے تجھے دور سے گردوں کے ستارے
ناپید تیرے بحرِ تخیل کے کنارے
پہنچیں گے فلک تک تیری آہوں کے شرارے
تعمیرِ خودی کر، اثر آہ رسا دیکھ
کھول آنکھ زمیں دیکھ،فلک دیکھ، فضا دیکھ
خورشیدِ جہاں تاب کی ضو تیرے شرر میں
آباد ہے اک تازہ جہاں تیرے ہنر میں
جچتے نہیں بخشے ہوئے فردوس نطر میں
جنت تیری پنہاں ہے تیرے خونِ جگر میں
اے پیکرِ گل کوشش پیہم کی جزا دیکھ
کھول آنکھ زمیں دیکھ، فلک دیکھ،فضا دیکھ (علامہ محمد اقبال)

ابتداء ہے اُس ربِ جلیل کے بابرکت نام سے جس نے مجھے یہ شرف بخشا کہ میں اس عہدِ جدید کے ترجمان شاعر، شاعرِ مشرق علامہ محمد اقبال پر اپنے خیالات و جزبات کا اظہار ایک تحریر کی صورت میں آپ کے سامنے پیش کروں۔

وہ روشنی جس نے منزلوں کا عرفان بخشا، وہ صدف جس میں حریت کے گوہرآبدار نے جنم لیا، وہ مسیحائے وقت،جس نے قوم کے نڈھال اور مفلوج جسم میں زندگی کا فسوں پھونکا علامہ اقبال کی نابغئہ روزگار شخصیت ہے۔

کسی قوم یا ملک کی تاریخ کے گیسو مشاہیر کے وجود اطہر کی خوشبو کے بغیر نہیں سنور سکتے اور یہ روشنی کے تابناک مینار ہوتے ہیں جن کی شخصیت کی ضیاپاشی سے کائنات جگمگا اُٹھتی ہے۔

اربابِ علم و دانش! اقبال آزادی کے سورج کا مبدا بن کر ظاہر ہوئے جن کی مصفیٰ کرنوں نے ہماری ٹھٹھری ہوئی روح کو حرارت بخشی، ہمارے منجمد خیالات پگھلے اور ہم اپنے وجود کے خیاباں میں مائع بن کر پھیلے، اس پھیلے ہوئےشفاف پانی کے آئینوں میں ہمیں اپنی خودی کا عکس جمیل دکھائی دیا اور خودی کے اس درس نے ہزاروں لوگوں کے زنگ خوردہ زہنوں کو صیقل کیا۔ اور آج یہی وجہ ہے کہ دنیا ترقی کے راستے پر گامزن ہے اور یہ سب کچھ اُس شاعرِ مشرق کی بدولت ہے۔ جس کی وجہ سے ہی اقبال کو ہی اس عہدِ جدید کا ترجمان شاعر کہا جاتا ہے ۔ اور یہ بات سو فیصد درست بھی ہے۔

اقبال شاعری سے تعمیر ملت وحیات کا کام لینے کے قائل ہیں اسے مردہ قوم کے رگ وپے میں زندگی کی لہر دوڑا دینے کا موثر زریعہ سمجھتے ہیں۔ اس کے اثر سے آدمی کو خاک سے افلاک پر پہنچانے کے متمنی ہیں۔ ان کا شعر خاص طور پر اور ان کی شاعری عام قاری ورہنما کے زہن میں زندگی کی ارفع و اعلیٰ اقدار کا متحرک احساس پیدا کرتی ہے۔ اقبال جو ملتِ اسلامیہ اور اس جدید عہد کے عظیم الشان ترجمان ہیں نہ صرف بلند پایہ شاعر ہیں بلکہ ایک نادر روزگار مفکر کی حیثیت سے ابھر کر ہمارے سامنے آئے ہیں۔ فکر و جذبے کی ہم آہنگی سے وہ آنے والی قیادت کو خواہ وہ کسی بھی شعبے میں کیوں نہ ہو، دعوت فکروعمل دینا چاہتے ہیں۔

تاریخِِ عالم گواہ ہے کہ ڈاکٹر علامہ محمد اقبال نے شبانہ روز کی محنت، جہدِ مسلسل اور عمل پیہم کے ساتھ حالات کی نبض پر اپنی گرفت کو مضبوط کر ڈالا اور محض افکاروتخیل کی بلند پروازی،کمال کرشمہ سازی اور پیہم ستاہ بازی پر زیادہ انحصار کیا بلکہ شمشیر و تدبیر سے حالات کا رُخ بدل ڈالا، سمندر کی اتھا گہرائیوں کو کھنگال ڈالا اور کوہ و دکن کا دل چیڑ ڈالا۔
زندگانی کی حقیقت کوہ کن کے دل سے پوچھ
جوئے شیروتیشہ وسنگ گراں ہے زندگی
آشکارہ ہے یہ اپنی قوتِ سے تسخیر سے
گرچہ اک مٹی کے پیکر میں نہاں ہے زندگی

تخلیقِِ مملکت خداداد کے لئے جہاں بیش بہا قربانیاں دی گئیں، وہاں اقبال کی شاعری اور فلسفے کو نظر انداز کرنا اقبال فہمی اور جدوجہد حصولِِ پاکستان کی تاریخ کے ساتھ سراسر زیادتی ہوگی۔ کیوں کہ اقبال ہی وہ شخصیت تھے جنہوں نے اپنی شاعری اور فلسفے سے سوئی ہوئی قوم کو حرکت کے مطلب سے آگاہ کیا اور انہیں خوابِ غفلت سے جگایا۔ وہ کہتے ہیں نہ کہ اگر بنیاد مضبوط ہو تو عمارت بھی مضبوط ہی ہوتی ہے اور بلکل اسی طرح اقبالکا وہ کردار آج ترقی یافتہ دور کا ایک منہ بولتا ثبوت ہے جس کے تحت آج ممالک ایک جدید ملک بن گئے ہیں اور یہ سب کچھ اقبال کی شاعری کی بدولت ہوا چنانچہ وہ آج اس جدید عہد کے ترجمان بن گئے ہیں۔

دراصل اقبال فہمی کے سلسلے میں یہ بحث ایک عرصے سے جاری ہے کہ اقبال شاعر ہیں یا فلسفی؟ در حقیقت اقبال کی شخصیت کی ہر دوجہتیں اتنی گہری ہیں کہ ہم ایک کو دوسرے سے الگ نہیں کر سکتے، کیونکہ ڈاکٹر صاحب بیک وقت ایک عہد ساز شاعر اور ایک عظیم مفکر ہیں اس لئے کہ ان کی شاعری کی طرح گہرا پن کسی شاعری میں نہیں اور نہ فلسفہ کے میدان میں بصیرت رکھنے والا شخص موجود ہے۔ اور اگر ہے تو پھر وہ اقبال کی جگہ اس عہد جدید کا ترجمان شاعر کیوں نہیں اور پھر اس کا مطلب ہے کہ کوئی بھی شاعر خواہ وہ مرزا، غالب یا کوئی اور ہے اقبال کی جگہ نہیں لے سکتے ہیں ۔اور بے شک آپ اقبال کی شاعری اور دوسرے شعراء کو دیکھ سکتے ہیں کہ کتنا فرق ہے جو اقبال میں نظر آتا ہے جو اُن کی شاعری میں نظر آتا ہے ، ارے وہ تو دور کی بات کسی ایک شاعر کی ایک جھلک بھی اقبال کی شاعری سے نہیں ملتی ہے۔

اگر ہم اقبال کے فلسفہ اور فکر کا مطالعہ کریں تو ہمیں معلوم ہو گا کہ ان کے فلسفے اور فکر کا آغاز قیام یورپ کے بعد ہوا، کیوں کہ وہ پوری تہذیب و تمدن، معاشرت اور سیاست کو ایک اعلیٰ درجہ دیتے تھے، انہیں یورپی معاشرے کو نہایت قریب سے دیکھنے کا موقع ملا، تب اندازہ ہوا کہ یورپی تہذیب، معاشرت، سیاست اور تمدن اندر سے کتنی کھوکھلی اور فرسودہ ہے۔
تمہاری تہزیب اپنے ہی خنجر سے خودکشی کرے گی
جو شاخِ نازک پہ آشیاں بنے گا ناپائیدار ہو گا

مسلمانوں کی یاسیت وقنوطیت کی وجہ سے وہ ہر طرف غلامانہ زندگی گزارنے پر مجبور تھے۔ چاہے وہ افریقہ کے مسلمان ہوں یا ایشیاء کے، امریکہ یا یورپ کے مسلمان ہوں۔ غرض ہر طرف مسلمان زلیل و خوار تھے اقبال نے انہی افراد کے لئے کہا ہے:-
غلامی میں نہ کام آتی ہیں شمشیریں نہ تدبیریں
جو ہو زوقِِ یقیں پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں

اس ولولہ انگیز شاعری اور خودی کے بلند تصور کے زریعے ایک بے جان قوم میں روح پھونکی، اُنہیں آزادی کی تڑپ دی، اُنہیں جستجو کا ذوق دیا۔ اور پھر آج آپ دیکھیں اسی شاعری کی بدولت آج مسلمان کہاں سے کہاں پہنچ چکے ہیں۔ اور ترقی کی راہ پر گامزن ہیں صرف اور صرف اس ولولہ انگیز شاعری کی وجہ سے، اور اس ساری ترقی کا راز اقبال کے سر جاتا ہے۔ ان کی شاعری کا ہر شعر پاکستان کی عمارت میں ایک اینٹ کی حیثیت رکھتا ہے۔تخلیقِ پاکستان کی جدوجہد کو تیز کرنے اور جزبہ حریت بڑھانے کے لئے اقبالنے کہا تھا:-
آج بھی ہو جو ابراہیم کا ایماں پیدا
آگ کر سکتی ہے اندازِِِ گلستاں پیدا

بے معرکہ دنیا میں کوئی قوم نہیں ابھرتی، یہ فطرت کا اٹل قانون ہے۔ اس سے مفر ممکن نہیں۔ وہیں قومیں سرفراز ہوتی ہیں جن کے بچے تیغوں کے سائے میں پل کر جواں ہوئے۔ستاروں پر کمند اُُنہی قوموں نے ڈالی ہے، مشقت جن کا شعار اور محنت جن کی عادت ہوتی ہے اور یہ سب کچھ مسلمانوں کے اندر اقبال نے بزریعہ شاعری داخل کیا اور یہی مسلمان آج ترقی کی منزلیں طے کر رہے ہیں اور صرف شاعرِ مشرق کی بدولت۔

٢١ جولائی ١٩٦٩ء کی صبح کو جب نیل آرمسٹرانگ نے پہلا انسانی قدم چاند کی اچھوتی سرزمیں پر رکھا تو یہ صرف آرمسٹرانگ کا قدم نہیں تھا بلکہ ترقی کی طرف پوری انسانیت کا قدم تھا۔ انسانی تاریخ میں یہ دن سدا یاد رہے گا۔ اس دن انسان کا صدیوں کا خواب پورا ہوا۔اس روز انسان کی عظمت کا اک نیا چراغ جلا۔ اس روز یہ ثابت ہو گیا کہ انسان ستاروں پر بھی کمند ڈال سکتا ہے اور چونکہ یہ بھی اقبال کی سوچ تھی چنانچہ اسکا اعزاز بھی اُُنہی کو جاتا ہے تو پھر ہم عہدِِ جدید کا ترجمان شاعر اُن کو نہ کہیں تو پھر کس کو۔۔۔ اقبال نے کہا تھا:-
عروج آدم خاکی سے ستارے سہمے جاتے ہیں

اور اس طرح آرمسٹرانگ نے ایک شاعر کے تصور کو سچ کر دکھایا۔ اور اگر آپ کو یاد ہو کہ چاند اور ستاروں پر جانے والی بات اقبال نے ایک دفعہ مشہور ماہر معاشیات مالتھس کی بات کے بناء پر کہی تھی اور مالتھس نے یہ کہا تھا کہ “آبادی کی کثرت کی وجہ سے کرہ ارض انسانوں کے لئے ناکافی ہو جائے گی“
اور اس بات کی وجہ سےاقبال کے زمانے کے مشہور “حکیم قریشی“ نے کہا تھا کہ “ آبادی میں کثرت کی وجہ تب پیش آئے گی جب انسان مرض پر غالب آجائیں گے“

تو مندرجہ بالا باتوں کی بناء پر اقبال نے کہا تھا کہ“ اس صورت میں انسان ستاروں کا رُخ کر سکتا ہے۔ اور ستاروں پر پہنچنا ناممکن تو نہیں“

بات کو تفصیل میں لے جاتے ہوئے وہاں تشریف رکھے ہوئے راجہ حسن اختر نے کہا تھا “اس خلائے محض سے انسان کا گزر کیسے ہوگا جو ہماری زمیں اور دوسرے سیاروں کے درمیان واقع ہے“۔ تو اقبال نے کہا “یہ امر مشکل ضرور ہے لیکن فاصلوں کی تسخیر سرے سے ناممکن نہیں اور اس کا کوئی نہ کوئی زریعہ دریافت ہو جائے گا ایسا زریعہ جو ابھی تک ہمارے چشم سے پوشیدہ ہے اور قرآن حکیم کی رو سے ایسا ہونا بحر حال ممکن ہے“

قصہ مختصر ان سب باتوں کی بناء پر جو کہ اقبال نے سوچ رکھی تھی یا کہ جن باتوں کو بیان کیا۔ بے شک وہ عام الفاط ہیں یا شاعری کے زریعے سے کی گئی ہوں اُن سب باتوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے سائنسدان مختلف قسم کی ایجادات کو بروئے کار لا رہے ہیں اور ترقی کا باعث بنتے جارہے ہیں۔ اور دیکھ لیجئے انہی باتوں کی بدولت انسان چاند ستاروں پر اپنے قدم رکھے ہوئے ہیں توپھر ان سب ترقیات کی داد بھی اقبال کو ہی دی جاتی ہے۔

ویسے پاکستان کے آجکل کے حالات دیکھ کر مجھے افسوس بھی ہوتا ہےاور پھر میں آج سے چودہ سو سال پہلے کا دور دیکھ رھا ہوتا ہوں، تصور کر رھا ہوں کہ جس زمانے میں چاند کی میٹھی میٹھی چاندنی زمیں کی سطح کو چوم رہی ہے پیارومحبت کے جھونکے چل رہے ہیں ۔مسلمان مسلمان سے گلے مل رہا ہے۔مسجدیں نمازیوں سے کھچا کھچ بھری ہوئی ہیں ۔ بچے آپس میں کھیل رہے ہیں ۔اور عورتیں پردے میں بیٹھی ہیں ۔ مگر اچانک، اچانک میری آنکھ کھلتی ہے۔ دیکھتا ہوں کہ میں آج سے چودہ سو سال پہلے کے زمانے میں نہیں بلکہ اکیسویں صدی کے جنگل میں کھڑا ہوں۔ جہاں لوگ بدترین جانوروں کی مانند ہیں۔جہاں چاند کی میٹھی چاندنی نہیں بلکہ ایٹم بم اور بارود کی آگ زمیں کی سطح کو برباد کر رہی ہے۔ پیارو محبت کے جھونکے چلنے کے بجائے نفرت و عداوت کی آندھی چل رہی ہے۔مسلمان دوسرے مسلمان کا سر قلم کر رہا ہے۔ بچے بھوکوں سے مرے جا رہے ہیں اور پھر ساتھ ہی مجھے ڈاکٹر محمد سفیان سفی صاحب کی ایک کتاب “پون یہ بھید بتا“ کا ایک شعر ےاد آجاتا ہے:-
اپنی ہی زات کے اثبات سے ڈر لگتا ہے
میں وہ جگنو ہوں جسے رات سے ڈر لگتا ہے
ہِِِل نہ جائے کہیں بنیاد میرے اشکوں کی
پے بہ پے وقت کے صدمات سے ڈر لگتا ہے

ہر بچہ چیخ چیخ کر پکار رھا ہے۔ اے اقبال! اے اقبال تو آجا اور ہمیں بچا لے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اقبال کا پیغام امیدورجا کا پیغام ہے، عزم و حوصلے کا پیغام ہے۔ وہ نوجوانوں سے کہتے ہیں کہ اگر ایک نشیمن کھو جائے تو غم نہ کرو۔ آہ و فغان کے لئے مقامات کی کمی نہیں۔
اگر کھو گیا ایک نشیمن تو کیا غم
مقامات آہ و فغاں اور بھی ہیں
تیرے سامنے آسماں اور بھی ہیں

قصہ مختصر کہ آج کے دور میں ہر جگہ جہاں پر بھی ترقی کا معیار زرا بلند ہوتا ہے تو اقبال کی شاعری کی بدولت، اقبال کے شاہینوں کی بدولت اور جو تڑپ اقبال کی شاعری کی بدولت دل میں پیدا ہو جائے تو پھر وہ ملک و قوم کو کسی مقام تک پہنچا کر ہی دم لیتی ہے۔ اور اُُسی تڑپ کی وجہ سے دل میں مسلسل جدوجہد کرنے کا عزم اور جزبہ پیداہوتا ہے۔

اور اس موقع پر یہ مناسب نہ ہو گا کہ ہم علامہ اقبال کی شخصیت اور شاعری کو خراجِِ عقیدت پیش کرتے ہوئے ان کے اشعار کی مہک عام کرنے کا عزم کریں۔

شاعرِِ مشرق کا سوز نفس اور اضطراب دل ہمارے اندر وہ دریچے کھول دے گا جو مدت سے بند پڑے ہیں۔ اقبال کے افکار کے سانچے میں ڈھل کر ہی ہم مقامِِ شوق پا سکتے ہیں۔ ان کے اشعار کا پاکیزہ زوق ہماری سیرت کو خوبصورت اور دلنشیں سانچے میں ڈھالے گا۔ ارشاداتِِ اقبال کی مقدس اور مصفیٰ روشنی سے ہمیں اپنے قلب و نظر کی روح کے شبستانوں کو اُُجالے بخشنے ہیں۔ اقبال کی روح ایک منظم، غیرت مند اور حق شناس معاشرے کے انتظار میں پہلو بدل رہی ہے اور ہم انہیں ہرگز مایوس نہ کریں گے۔ہم اپنے عظیم محسن کو اضطراب کی کیفیت سے دوچار نہ ہونے دیں گے۔اور اسی طرح اُن کی شاعری کا بول بالا کریں گے اور اسی شاعری کے زریعے سے مسلمان ایک دن اتنی ترقی کی منزلیں طے کر لیں گے کہ آسمان کی بلندی کو چھُُُونے لگیں گے اور ساری دنیا میں ساری دنیاکے اوپر مسلمانوں کا راج چلے گا اور وہ وقت دور نہیں بلکہ بہت ہی عنقریب ہے۔
تو نوع فرومایہ کی عظمت کا نشان ہے
افکار عمل کیش ہے، فطرت کی زبان ہے
اے سنتِِ نبوی کے نگہباں، کہاں ہے؟کہاں ہے؟
آ درسِِ خودی دے کہ جہاں لرزہ بہ جہاں ہے
اقبال تیری آج ضرورت ہے جہاں کو
اقبال تیری آج ضرورت ہے جہاں کو

امید کرتا ہوں کہ آپ کو میرا یہ مضموں بہت اچھا لگا ہو گا اور آئندہ بھی لکھنے کی کوشش کرتا رہوں گا۔ انشاء اللہ۔
AbdulWaheed
About the Author: AbdulWaheedsimple person nothing special
and i love muskan
.. View More