خدا کی خاص مخلوق ظلم کا شکار کیوں؟

اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کو برابر بنایا ہے لیکن انسان اس برابری کو تسلیم کرنے پر امادہ نہیں،کہیں امیر خود کو برتر سمجھتے ہیں تو کہیں تعلیمی یافتہ خود کودوسروں سے بالا مانتے ہیں۔کسی دور میں مرد کی معاشرے پر حاکمیت قائم تھی ۔اس حاکمیت کا یہ حال تھا کہ بیٹی کا پیدا ہونا نحوست سمجھا جاتا تھا۔یہ وہی دور تھا جب لڑکیوں کو پیدا ہوتے ہی زندہ دفنا دیا جاتا تھا۔نبیﷺ نے کی تعلیمات کے بعد معاشرے سے یہ برائی ختم ہوئی اور خواتین کو بھی ان کے حقوق ملے۔آج کے ترقی یافتہ دور میں بھی کہیں خواتین مظلوم ہیں تو کہیں مرد۔مرد وخواتین کے علاوہ ہمارے معاشرے میں انسانوں کی ایک تیسری قسم بھی موجود ہے۔بے شک خدا کوئی چیز بے وجہ نہیں بناتا۔اس تیسری قسم کی پیدائش بھی اللہ تعالی ٰ کی کوئی حکمت ہی ہوگی جو ہم کم عقلوں کی سمجھ سے بالاتر ہے۔

اس تیسری قسم کو عام زبان میں تو خواجہ سرا کہا جاتا ہے لیکن انسان اپنی بدزبانی کا ثبوت دیتے ہوئے انہیں مختلف ناموں سے پکارتا ہے۔یہ لوگ کبھی سڑکوں پر ہاتھ پھلائے نظر آتے ہیں،تو کبھی کسی بچے کی پیدائش تو کبھی کسی شادی میں ناچتے ان کو دیکھا جاتا ہے۔خواجہ سراؤ میں کچھ ایسے بھی موجود ہیں جن کا گزر بسر اپنا جنسی احتصال کرا کر ہوتا ہے۔اگر دیکھا جائے تو یہ لوگ اس اعتبار سے انسانوں کی دیگر دو اقسام کے برابر ہی ہیں۔ہمیں مرد و خواتین بھی سڑکوں پر بھیک مانگتے نظر آتے ہیں۔شادی بیاہ میں ناچنا بھی عام رواج ہے اور پیٹ کی آگ بجھانے کیلئے تیسرے طریقے کا استعمال بھی معاشرے میں عام ہوتا نظر آتا ہے۔(خدا کرے کے ہمارے ملک سے ہر برائی کا خاتمہ ہو)۔

کچھ افراد اور ادارے اس وقت خواجہ سراؤں کے حقوق کی بات تو کرتے ہیں لیکن تحقیقات یہ بتاتی ہیں کہ ان کا عمل صرف باتوں تک محدود ہے،دوسری طرف اگر کوئی کام کر رہا ہے تو اس کے پیچھے کہیں نہ کہیں ان کے ذاتی مفادات پوشیدہ ہوتے ہیں۔ہمیں ان لوگوں کو بھی معاشرے کا باعزت شہری بنانا ہوگا۔ہمیں انہیں بھی معاشرے میں برابری کی بنا پر تسلیم کرنا ہوگا۔یہ لوگ مانگنے یا ناچ گانے پر اس لئے بھی مجبور ہوتے ہیں کیونکہ کوئی ادارہ یا کمپنی انہیں ملازمت دینے کو تیار نہیں ہوتی۔اگر خدانخواستہ کسی جگہ انہیں ملازمت مل بھی جائے تو معاشرے میں موجود انسانوں کی دیگر دو اقسام انہیں طنزومزاق کا نشانہ بناتے ہیں ۔مرد و خواتین اپنی زبان سے ان کے دلوں پر اس قدر نشتر چلاتے ہیں کہ وہ دل برداشتہ ہوکر ملازمت چھوڑ کر پھر مانگنے یا ناچنے گانے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔

پاکستان کی عدلیہ کی جانب سے حال ہی میں ایک احسن حکم جاری کیا گیا کہ ان افراد کو بھی شناختی کارڈ جاری کیا جائے ۔کہیں تو یہ بات افسوس ناک تھی کہ ہم نے تاحال ان افراد کو شناختی کارڈ جاری کرکے ملک کا شہری تسلیم نہیں کیا تھا ۔لیکن دیر آئے درست آئے ۔چند روز قبل خیبر پختونخواہ حکومت کی جانب سے بھی خواجہ سراؤں جو پرفیشنل ڈرائیونگ لائسنز کے اجراع کا عمل شروع کیا گیا ہے تاکہ وہ اپنے لئے باعزت روزگار کما سکیں۔کے پی حکومت کی جانب سے کیئے جانے والا یہ ایک احسن اقدام ہے۔

ہمیں ان افراد کو اپنے معاشرے کا حصہ تسلیم کرنا ہوگا۔ہمیں اس بات کو بھی ذہن نشین کرنا ہوگا کہ انسان کی تخلیق خدا کے ہاتھ میں ہے،انسان کے اپنے اختیار میں نہیں کہ وہ مرد ہو، عورت یا خواجہ سرا۔اگر خدا کی تخلیق کردہ کوئی بھی مخلوق بظاہر دوسروں سے مختلف ہے تو اس میں اس مخلوق کا کوئی قصور نہیں یہ خالق کی مصلحت ہے ۔ہمیں کوشش کرنا ہوگی کہ خصوصی افراد کو توجہ دیں تاکہ انہیں کسی محرومی کا احساس نہ ہو یا کم سے کم ہو۔اس ضمن میں سب سے اہم کردار والدین کو ادا کرنا ہوگا۔اگر ان کی اولاد میں کوئی کمی ہے تو یقینی طور پر معاشرے کا سامنا کرنے میں انہیں دشواری ہوگی،لیکن اس اولاد کو خدا کی جانب سے امتحان سمجھ کر اسے گلے سے لگائیں،اسے سڑکوں پر بھٹکنے اور بکنے کیلئے نہ چھوڑیں۔اسے بھی وہی توجہ اور اہمیت دیں جو باقی بچوں کو دی جاتی ہے۔ساتھ ہی ان میں اس بات کا بھی شعور پیدا کریں کہ انسان زندگی میں ہر حال میں آگے بڑھ سکتا ہو اور کامیاب ہوسکتا اور وہ کسی سے کم نہیں ہیں۔

ہمارے معاشرے میں موجود ایک طبقے کے ذہن میں یہ خناص پیدا ہوگیا ہے کہ علماء ان کے دیئے چندے پر اور اساتذہ ان کی ادا کردہ فیسوں پر پلتے ہیں،خدا ان افراد کو انبیا ؑ کے وارثوں کا مقام سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔اس طبقے کے علاوہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد علماء اور اساتذہ کو خاصی اہمیت دیتے ہیں۔علماء اور اساتذہ کو اپنی ذمے داری کا حق ادا کرنا ہوگا اور معاشرے میں موجود ایسے افراد کو ان کا جائز مقام دلانا ہوگا،لوگوں میں یہ احساس بیدار کرنا ہوگا کہ خواجہ سرا بھی معاشرے کا حصہ ہیں اور انکی تخلیق میں ان کا کوئی دوش نہیں۔یہ شعور بھی بیدار کرنا ہوگا کہ اگر ان افراد کو مناسب تعلیم اور روزگار نہ دیا گیا تو پیٹ کی آگ ٹھنڈی کرنے کی غرض سے انہیں ناچ گانے،بھیک مانگنے یا جسم فروشی کا سہارا لینا ہوگا جس سے معاشرے میں بگاڑ اور بے راہ پیدا ہوگی جس کے ذمے دار ہم سب ہوں گے۔

حکومت کی جانب سے ا س عمل کو لازم بنانا ہوگا کہ ان افراد کی تعداد کا تعین کیا جائے۔انہیں شناختی کارڈ اور ب فارم جاری کئے جائیں،افسوس کہ ہمارے ملک میں معزوروں کو بھی انکے جائز حقوق نہیں دیئے جاتے اور حق مانگنے کی صورت میں ان پر لاٹھیاں برسائی جاتی ہیں اور واٹر کینن سے انکا راستہ روکا جاتا ہے۔حکومت کو معزور افراد کے ساتھ ساتھ ان خصوصی افراد کو بھی ملازمتوں میں حصہ دینا ہوگا ،تاکہ وہ اپنی زندگی آسانی سے بسر کرسکیں۔پرائیویٹ سیکٹر کو بھی اس بات کا پابند کیا جائے کہ وہ اپنی ملازمتوں میں ان افراد کا حصہ رکھیں۔ان افراد کی تعداد معاشرے میں اتنی زیادہ نہیں ہے۔اگر ہم سب مل کر ہر سطح پر انہیں انکے جائز حقوق دینے کا فیصلہ کرلیں تو انہیں معاشرے میں ان کا مقام مل جائے گا۔

Shehryar Shoukat
About the Author: Shehryar Shoukat Read More Articles by Shehryar Shoukat: 19 Articles with 16626 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.