وال چاکنگ کا قانون کہاں ہے؟

دیواروں پر غیر اخلاقی اور بے ڈھنگی تحریریں ، دنیا بھر کے شہروں کا ایک بہت بڑا مسئلہ ہیں، جس نے پاکستان کے چھوٹے بڑے تقریباََ تمام شہروں کی سرکاری و نجی املاک کا چہرہ بگاڑ کے رکھ دیا ہے۔
دیواروں پر نقش و نگاری دنیا کے بعض حصوں میں زمانہ قدیم سے ہی چلی آرہی ہے ۔

کچھ عرصہ قبل حکومت پنجاب کی طرف سے وال چاکنگ اور سرکاری و نجی املاک سمیت تمام جگہوں پر بغیر اجازت کسی بھی قسم کا اشتہار و بینر آویزاں کرنے پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔

سرکاری حکم نامے کے مطابق وال چاکنگ کروانے اور اشتہار و بینرز آویزاں کرنے پر متعلقہ کاروباری اداروں اور ایسے پنٹرز کے خلاف بھی کاروائی کی جائے گئی جو وال چاکنگ کریں گئے۔

اس حکم نامے کے مطابق بینر یا پوسٹرز بغیر اجازت کے آویزاں کرنے والے اور پرنٹ کرنے والے کے خلاف ایف آئی آر درج کی جائے گئی جس کے تحت انہیں جرمانہ یا قید یا پھر دونوں سزائیں ہو سکتی ہیں۔
پاکستان میں دیواروں پر سستی تشہیر کے ذریعے سے مشہور ہونے والے تمام اقسام کے اشتہار ملتے ہیں جو بہرِ طور نگاہوں پر کسی ستم سے کم نہیں۔

حکومت کی طرف سے وال چاکنگ پر پابندی نافذ ہونے کے باوجود،وزن کم کرنے سے لے کر کالے جادو کے توڑ اور ہر مسئلے کا حل پیش کرنے والے نجومی اور عامل باباؤں تک، ہر قسم کے اشتہارات سے دیواریں بھری پڑی ہیں۔

ایسے حالات میں کالجز میں تنظیمیں بنانے والے جوشیلے نوجوان بھی شہر کی دیواروں پر اپنی تنظیم کی سستی تشہیر کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

ایک طرف تو حکومتی ادارے اس غیر اخلاقی حرکت کو ختم کرنے کے لئے سرگرم ہے ، دوسری طرف اس کاروبار سے جڑے کچھ افراد بھی پریشان نظر آرہے ہیں۔

مغل آرٹسٹ کے مالک سعید احمد بیس سال سے پینٹگ کا کام کر رہے ہیں لیکن اشتہارات پر عائد کی گئی سرکاری پابندیوں کے باعث وہ مستقبل میں اپنے روزگار کے لئے پریشان نظر آتے ہیں۔

انہوں نے بات کرتے ہو بتایا کہ کچھ عرصہ قبل دیواروں پہ لکھنے یعنی اشتہار لکھوا کہ سستی تشہیر کرنے کا طریقہ بے حد مقبول تھا لیکن اب اس کی طرف لوگوں میں رجحان کم پایا جاتا ہے جس کی وجہ حکومت کی طرف سے وال چاکنگ پر عائد کی جانے والی پابندی بنی ہے۔

وہ بتاتے ہیں کہ جب انہوں نے کام شروع کیا تو ایک اشتہار کو دیوار پر لکھنے کا معاوضہ 20 روپے تھا جبکہ اب یہ بڑھ کر 100 روپے ہوگیا ہے۔

وہ بتاتے ہیں کہ پہلے حکیموں ، عاملوں اور سیاسی اشتہارات دیواروں پر لکھنے کو ملتے تھے مگر اب یہ کام صرف سکولوں ، ہسپتالوں کی دیواروں اور مختلف بورڈز لکھنے تک ہی محدود ہو کے رہ گیا ہے۔

سماج نفرت انگیز اور سیاسی جملے دیواروں پر لکھنا بذاتِ خود ایک غیر اخلاقی حرکت ہے جس کو کو روکنے کے لئے حکومتی و عوامی سظح پر موثر اقدامات کئے جانا ضروری ہیں۔

دیواروں پر لکھنے کی ممانعت کا قانون تو حکومت کی طرف سے لاگو کیا جا چکا ہے مگر عوام میں اس قانون کے متعلق آگاہی کا فقدان پایا جاتا ہے جس کی وجہ سے یہ قانون عملی طور پر نافذ ہوتا اور عوام اس کی پابندی کرتے ہوئے نظر نہیں آتے ہیں۔دیواروں پر لکھنے کی ممانعت کے قانون کا اطلاق سب سے پہلے سرکاری عمارتوں کی دیواروں پہ لکھنے کی ممانعت سے کیا جانا چاہئے مگر یہاں تو سرکاری عمارتیں ہی اس کی خلاف ورزی کرتی ہوئی نظر آتی ہیں اور متعلقہ افسران اسے مسلسل نذر انداز کئے چلے جا رہے ہیں۔
حکومت کی جانب سے بارہا کوششوں کے نتیجے میں یہ سلسلہ وقتی طور پر تو کم ہو جاتا ہے لیکن خاص موقع یا تقریب، جلسے کے انعقاد پر یہ دیواریں ایک مرتبہ پھر مختلف رنگوں سے رنگ جاتی ہیں ، بڑے شہروں میں تو یہ وباء کسی حد تک کم ہوتی نظر آتی ہے مگر چھوٹے شہروں میں دیواروں پر لکھنے کی بیماری بددستور عام ہے۔

بلاشبہ شہری انتظامیہ کا فرض ہے کہ وہ اس قانون کا نفاذ عمل میں لائے اور پہلے سے کی گئی چاکنگ صاف کرے لیکن شہریوں کو بھی اپنے علاقوں میں چاکنگ مٹانے اور چسپاں پوسٹرز صاف کرنے کے لئے شہری انتظامیہ کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہئے ۔

Saliq Saddiq
About the Author: Saliq Saddiq Read More Articles by Saliq Saddiq: 2 Articles with 3190 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.