جاۓ پناہ

مجھے ہمیشہ سے کچھ عادت سے رہی کہ ایک کونے میں بیٹھ جاوں اور کام سے آتے وقت یا کام پر یا گھر پر ایک کونہ پکڑ کر بیٹھ جاتا ہوں اور ایک ایسی جگہ جہاں بریک ہو ایک وقفہ ہو سوچوں کے درمیان کہ سوچوں کی کشتی روک دی جاے کہ پانی کے بہاو پر خود جہاں جاتی ہے جاۓ یا رُکی رہے ہلکے ہلکے تیرتی رہے یا اپنی زات کو ڈھیلا چھوڑ دیا جاۓ اور اُس وقت جو سمجھ آۓ وہ کیا جاۓ یا نہ سمجھ آۓ تو نہ کیا جاۓ راستے میں کئ بیٹھک بدلتی رہی ہیں جس میں مزدوروں کے لیے کوی ہوٹل جس میں حلال روزی کمانے والے محنت کش مزدوروں کا زرا دیر کا سستانا اور عام سا مگر بہت لزیز کھانا اور اس کی برکتیں اور اور مسکین کے صبر اور شُکر کا تنور جہاں سکون کی روٹیاں پک پک کر آرہی ہوں اور دنیا کے مقابلے کی دوڑ کے شور سے ہٹ کر سُلا دینے والی خاموشی کی تھپک اور آٹے کو پکاتے شعلوں کی گرم گرم لپک اور کچّے چھپّر کی ہوادار ٹپک سے پلکوں کی جھپک -

ایک زمانے میں مسجد میں ایک ایسے سُتون کی ٹیک جہاں سے ایک طرف سے تازہ ہوا کی تازگی کا احساس اور دوسری طرف سے ایک حلقہ بنا کر کچھ لوگوں کا محویت میں ایک خاص ترتیب اور ہم آہنگی سے خدا کا زکر اور اس سے نکلتا سکون آور ملکوتی چمک اور نیک لوگوں کی طرف سے عزت دئے جانے کا احساس جو اُس محروم آدمی کے لیے دوا کا کام کرتا ہے جسے شائد باہر دُھتکارا جاتا ہو اور یہاں اُس کی عزت نفس محفوظ ہو -

اُن کا میرے ساتھ شفقت بھرا رویہ اور میرے اندر شرمندگی و ندامت کا احساس اور ایک بار تو میں نے کہہ ہی دیا کہ آپ لوگ کسی دھوکے میں نہ رہیں میں تو بس سکون کے لیے کچھ دیر بیٹھا ہوں اگر آپ خود نہ بھی پئیں تو سگریٹ پینے والے کے پاس بیٹھ کر بے چینی کا دھواں اندر لینے پر مجبور ہو جاتے ہیں تو یہاں پر اُترتے سکون اور تسکین کا احساس لیے بغیر نہیں اُٹھ سکتے اور دعاوں کے اثرات سے بھیگ کر ہی جاتے ہیں -

ایک زمانے میں کچھ بزرگ لوگوں کی بیٹھک ہوتی تھی جہاں لوگوں کے مسائل سُنے جاتے تھے اور اُن کو تسلی بخش جواب دیا جاتا تھا اور کسی کی علم کی پیاس بجھتی تھی اور آج بھی ڈھونڈنے سے مل ہی جاتی ہیں ایسی محفلیں جہاں آدمی اپنی پریشانی بھول کر دوسروں کی خیرخواہی کا جزبہ لے کر اُٹھتا ہے -

سُنا ہے کہ مغرب میں لوگوں کو سُنا جاتا ہے اور اس کا بھاری معاوضہ لیا جاتا ہے تاکہ وہ اپنی بات کہہ کر ہلکے ہو سکیں جو یہاں مفت دستیاب ہے اور میرا خیال ہے شائد آج آن لائن ادبی اور سماجی گروپ اسی طرح کا کام کر رہے ہیں لیکن پھر بھی محفل اور ملاقات کا نعم البدل شائد نہ ہو سکے -

یہ سب ایک طرح سے پناہ گاہ تھیں جس میں فاسٹ فوڈ ریسٹورینٹ چاے خانے بھی شامل رہے اور جو لوگوں کی پناہ گاہیں ہوں وہاں ایک سکون سا موجود ہوتا ہے یا شائد گھروں کی سیاست اور گُھٹے ہوے ماحول اور زبان درازیوں سے تنگ لوگ کچھ دیر یہاں پر آرام پاتے ہیں اور ایسی جگہوں سے تو بہتر ہی ہیں جہاں جرائم کی دلدل ہو سڑک پر کئ ایسے گھنے پیڑ بھی ہوتے ہیں جو کسی کے لیے چھت سرائے اور روزگار کا ٹھیا اور تھوڑی دیر کی چھاؤں اور پناہ ہوتی ہے اور ایک انتظار گاہ سے کم نہیں ہوتی اور یہ پناہ دینے کا شرف درخت ہی کو نہیں کچھ خوش قسمت انسانوں کے حصے میں بھی آتا ہے اور وہ چلتی پھرتی چھاؤں اور لنگر ہوتے ہیں اور آسانیاں فراہم کرتے ہیں کچھ لوگ کھانے کے لنگر چاۓ اور یتیم خانوں کا انتظام بھی کرتے نظر آتے ہیں اور ایک خُدا کی پناہ میں آجاتے ہیں -

ن سے نعمان صدیقی
About the Author: ن سے نعمان صدیقی Read More Articles by ن سے نعمان صدیقی: 28 Articles with 24518 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.