اوردل کی پناہوں میں کسی درد کا ڈیرا

چند دن سے میں جس کیفیت میں مبتلاہوں اس کو اگر ایک فقرہ سے ظاہر کر سکتی ہوں توعنوان کے مصرع کو ملاحظہ فرمائیں
اور دل کی پناہوں میں کسی درد کا ڈیرا

وطن عزیز میں جو ہو رہا ہے وہ دردناک ہونے کے ساتھ ساتھ شرم ناک بھی ہے۔ عائشہ سے لیکر زینب تک اور پھر عاصمہ ، راحیل اور ان جیسے ہزاروں بچے۔ کہیں عریاں فلمیں تو کہیں اعضاء کی خرید و فروخت۔بات صرف یہاں ختم نہیں ہوتی ،جو اطلاعات آ رہی ہیں وہ والدین کو خوف زدہ کرنے سے لیکر معاشرے کی بقاء پر بھی سوال اٹھا رہی ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ جوں جوں انسان آگے بڑھ رہا ہے ،انسانیت پیچھے ہٹ رہی ہے۔دماغ ترقی کر رہا ہے،روح تنزل کر رہی ہے۔آج کے انسان کے سامنے سب کچھ واضح طور پر موجود ہے ۔ اس کے سامنے دریا جاری ہے اور وہ پانی پینے کے لیے آزاد ۔مگر یوں لگتا ہے، اس کی روح کسی اور جہاں کی تلاش میں ہے جس کا اس کو بھی نہیں پتا۔اسی لیے وہ پیاسا بھی ہے اور غیر مطمئن بھی۔معاشرہ ،بطور معاشرہ روبہ زوال ہے ،عمرانی معاہدے دم توڑ رہے ہیں۔اخلاقی اقدار بھی بہت تیزی سے ناپید ہو رہی ہیں۔ حقیقت میں حرام اور حلام میں تمیز ختم ہونے سے جو مسائل پیدا ہوتے ہیں، پاکستانی معاشرہ انہی بیماریوں کا شکار ہورہا ہے۔

ہمارے معاشرے میں جہاں سب سے زیادہ مذہب پر عمل کیا جاتا ہے، وہاں بچوں کے اغواء،قتل اور جنسی زیادتی کے واقعات کی بہتات نے مذہب کی تعلیم دینے والوں پربھی بہت سارے سوال اٹھا دیئے ہیں۔ یوں توہمارے ہاں کے علماء کرام اور مذہبی پیشواء جو اپنی ساری زندگی صرف صوم و صلوۃ کی تلقین میں بسر کردیتے ہیں ۔ ایک لمحہ کے لیے بھی غور نہیں کرتے کہ جس خدا کا پیغام وہ پہنچا رہے ہیں ، وہ پہلے ہاتھ ہی روزہ و نمازکا مطالبہ نہیں کرتا بلکہ اس تعلق کی تصدیق چاہتا ہے جو اس کے اور بندے کے درمیان میں ہے۔جس کے سمجھنے پر ہی کائنات کی ترقی، روح کی بالیدگی،اخلاق کی پاکیزگی اور دنیا کا امن و سکون منحصر ہے۔ آج کے علمائے مقدس نے اﷲ کے بارے میں پاکیزہ و منزہ خیال جو بانی اسلام نبی آخر الزاماں حضرت محمد مصطفیﷺ نے دیا تھا ، یکسر بھلا دیا ہے۔

خدا کو قہر و جبر کی صورت دے کے آج کے ملا نے اپنی روٹی پانی توحاصل کر لی مگر کروڑوں افراد کے ایمان کے ساتھ کھیل گئے۔ اخلاقی تربیت تو اسلا م کا بنیادی حصہ ہے جس کی طرف توجہ دینے کی کوشش بھی نہیں کی جاتی۔آج کے اس پُر آشوب اور تیز ترین دور میں اخلا قی تعلیم کی ضرورت بہت اہمیت کی حامل ہے ، حالانکہ آج کا دور کمپیوٹر کا دور ہے۔ ایٹمی ترقی کا دور ہے، سائنس اور صنعتی ترقی کا دور ہے ۔سکولوں میں بنیادی عصری تعلیم، ٹیکنیکل تعلیم، انجینئرنگ، وکالت، ڈاکٹری اور مختلف جدید علوم حاصل کرنا آج کے دور کا لازمی تقاضہ ہے۔جدید علوم تو ضروری ہیں ،تاہم دینی تعلیم کی بھی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے۔اس کے ساتھ ساتھ انسان کو انسانیت سے دوستی کے لئے اخلاقی تعلیم بھی بے حد ضروری ہے۔ اسی تعلیم کی وجہ سے زندگی میں خدا پرستی، عبادت، محبت، خلوص، ایثار، خدمتِ خلق، وفاداری اور ہمدردی کے جذبات پیدا ہوتے ہیں۔ اخلاقی تعلیم کی وجہ سے صالح اور نیک معاشرہ کی تشکیل ہو سکتی ہے۔تاہم جدیدیت کی خواہش میں ، آگے نکلنے کی دوڑ میں اخلاقی اقدار ہی پیچھے رہ گئی ہیں۔

عربی زبان میں ’’خلق‘‘ کے معنی پیدا کرنے کے ہیں، انسان جب پیدا ہوتاہے، توجہاں وہ ایک ظاہری شکل وصورت لے کر آتاہے، وہیں کچھ باطنی صفات بھی اس کے اندر موجود ہوتی ہیں، ظاہری شکل وصورت بالکل واضح ہوتی ہے، اس کا رنگ وروپ، ناک نقشہ، چہرہ مہرہ اور ہاتھ پاؤں، وغیرہ، جنہیں بآسانی دیکھا جاسکتا ہے اور اگر ان میں کوئی کمی محسوس کی جائے تو ڈاکٹروں کے ذریعہ علاج بھی ہوتا ہے، اس کو ’’خَلق‘‘ یعنی جسمانی ہئیت وشکل کہتے ہیں، انسان کی باطنی اور اندرونی صفات آہستہ آہستہ ظاہر ہوتی ہیں، تواضع یا کبر، غصہ یا بردباری، محبت یا نفرت، ایثار یا خود غرضی وغیرہ، ان کو ’’خُلق‘‘ یعنی اخلاق کہتے ہیں، جیسے جسم کی ظاہری بیماریوں کا علاج ہوا کرتا ہے، اسی طرح اخلاقی بیماریاں بھی لاعلاج مرض نہیں ہیں، یہ بھی قابلِ علاج ہیں، اﷲ کے پیغمبروں اور رسولوں کی بعثت کا ایک اہم مقصد یہ بھی تھا کہ اخلاقی امراض اور روحانی بیماریوں کا علاج ہوسکے۔

اخلاق کو سنوارنے اور قلب وروح کو بیماریوں سے شفایاب کرنے کا ایک اہم ترین ذریعہ ’’تعلیم‘‘ بھی ہے ۔تعلیم انسان کو اس کی ذات کی خوبیوں اور خامیوں سے روشناس کراتی ہے ۔ تاہم وطن عزیز کا نظام تعلیم کلرک تو بنا رہا ہے ، انسان نہیں۔ عملی زندگی کتابوں کی زندگی سے مختلف نظر آتی ہے۔ اسی لیے ہم خسارے میں جا رہا ہیں۔ہم خیر اور شر کو پہچان ہی نہیں پا رہے ،حالانکہ انسان کے اندر خیر اور شر دونوں کی صلاحیتیں رکھی گئی ہیں، بھلائی کا جذبہ بھی اس کے اندر پنہاں ہے اوربرائی کی خواہش بھی اس کے اندر کروٹ لیتی رہتی ہے، انسان کی پوری زندگی اسی کشمکش میں گذرتی ہے اور وہ اس امتحان میں جس درجہ کامیابی حاصل کرتا ہے، یا ناکامی سے دوچار ہوتا ہے، اسی لحاظ سے وہ آخرت میں جزا یا سزا کا مستحق ہوگا۔

میں جب اپنی زمین ، اپنے سماج کے حالات دیکھتی، سنتی اور پڑھتی ہوں تو روح تک کانپ جاتی ہے۔
دلوں پر اترنے والی قامتوں نے رب حقیقی کا خوف کتنا کم کر دیا ہے کہ ہم میں خوف خدا ہی ختم ہو چکا ہے۔ فیض احمد فیض تو مدتوں پہلے اس حوالے سے کہہ چکے ہیں کہ:
وہ بتوں نے ڈالے ہیں وسوسے کہ دلوں سے خوف خدا گیا
وہ پڑی ہیں روز قیامتیں کہ خیال روز جزا گیا

ایسا ہی ہے، معصوم بچوں کے ساتھ ہونے والے حالیہ واقعات کوئی نئے نہیں ہیں۔ رب کائنات کے یہ معصوم فرستے ،ہمیشہ سے ہی ظلم و ستم کا شکار رہے ہیں اور وقت خاموش تماشائی۔گذشتہ کچھ سالوں سے جس تواتر سے کلیوں کی بے حرمتی کے واقعات سامنے آئے ہیں ، اس سے ہمارا سماج کا شیرازہ بکھر کر رہ گیا ہے۔اساتذہ مکتب و مدرسہ جیسے اپنا کردار ہی بھول گئے ہیں۔اصلاح معاشرہ کے علم بردار بھی شکم کی آگ بجھانے کا سامان ہموار کرنے میں مصروف ہیں۔ریاست کے اپنے مسائل اور حکمرانوں کی اپنی ترجیحات۔اداروں کی اپنی حکمتیں اور ضرورتیں۔ ایسے میں اپنے لٹنے کا تماشا دیکھنے میں مصروف ہیں ہم سب ۔ تو کیا ہماری نسلیں یونہی بے حرمت ہوتی رہیں گی؟ میں نے کالم میں اخلاقیات کی تعلیم کے بارے میں بات کی تو اس کا مقصد یہی تھا کہ عمران علی اور اس جیسے مجرمان ۔معاشرے کے اخلاقی زوال کی زندہ مثالیں ہیں۔ تاہم ابھی بھی زیادہ دیر نہیں ہوئی ،آج بھی ہم یہ فیصلہ کرلیں کہ ہمارے لیے کیا ضروری ہے تو یقین کریں ایسے درندے جنم ہی نہیں لیں گے۔ وہ ہے اخلاقی تربیت ، معاشرے، والدین اور اساتذہ مکتب اور مدرسے کا کردار اور ذمہ داریاں۔ اگلے کسی کالم میں اس حوالے سے مزید بات ہو گی ۔تاہم یہ کہنا ضروری ہے کہ عائشہ زینب ، اسما اور عاصمہ اور ان جیسی ہزاروں بچیوں کی بے حرمتی اور قتل کی ذمہداری فقط ایک انسان پر ڈال کر معاشرے کو اس کی ذمہ داریوں سے الگ کرنا ہی مزید جرائم کی بنیاد ہے۔ سوچیں زرا؟
 

Maleeha Hashmi
About the Author: Maleeha Hashmi Read More Articles by Maleeha Hashmi: 11 Articles with 11167 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.