ذریعہ تعلیم کا مسئلہ قرآن و حدیث کی روشنی میں

پاکستان کو آزاد ہوئے نصف صدی سے زائد عرصہ ہو چکا مگر افسوس کہ ہم ابھی تک اس سوال کی بھول بھلیوں میں غلطاں اور سرگرداں ہیں کہ پاکستان کا نظامِ تعلیم کیسا ہونا چاہیے؟ہمارے ساتھ آزاد ہونے والی قوموں نے اس سوال کے عُقدے کو اپنی آزادی کے ساتھ ہی حل کر لیا اور آج وہ ترقی و خوشحالی کی شاہراہوں پر بڑے اعتماد اور فخر کے ساتھ رواں دواں ہیں اور اس کے برعکس ہم پوری دنیا کے سامنے کاسہ گدائی اُٹھائے بھیک کے ٹکڑے مانگ رہے ہیں اور اس کے عوض اپنی قومی غیرت ، قومی تہذیب، انا ، وقار، خودی اور عزتِ نفس کو فروخت کر رہے ہیں۔ حالانکہ نبی مہربانﷺ نے فرمایا کہ اوپر ولا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے اور نیچے والا ہاتھ مانگنے والا ہوتا ہے۔ ہمارا ہاتھ نیچے اس لیے ہے کہ ہمارا نظامِ تعلیم فرسودہ ، متعفّن اور غیر ملکی آقاؤں کا تیار کردہ ہے۔ لارڈ میکالے کی فکر اور سوچ سے پرورش پانے ولا نظامِ تعلیم فقط ایک فیصد سے بھی کم طبقے کو آگے لاتا ہے جو انگریز کی غلامی کے عوض نوازا جانے والا طبقہ ہے جس کے مفادات ننانوے فیصد لوگوں کو پسماندہ اور تعلیم سے محروم رکھ کر پورے ہوتے ہیں۔ یہ نظامِ تعلیم محبِ وطن لوگوں کا نہیں بلکہ لارڈ میکالے کا تیار کردہ ہے جس کی فکر کا خلاصہ یہ ہے کہ برصغیر کے لوگوں کو ان کی زبان میں تعلیم مت حاصل کرنے دو۔ اس سے وہ خود بخود تمہارے غلام اور محکوم بن جائیں گے۔شاعرِ مشرق نے کیا خوب نقشہ کھینچا ہے غلامی کا
غلامی میں نہ کام آتی ہیں تدبیریں نہ شمشیریں
جو ہو ذوقِ یقیں پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں

ہمارا نظامِ تعلیم شُترِ بے مہار اور پل پل بدلتی تعلیمی پالیسیوں کا آئینہ دار ہے۔ یہ نظام صرف رٹو طوطے پیدا کرتا ہے۔ علوم و فنون کے فہم کا گلا گھونٹا ہے۔ قومی تشخص کی جڑیں کاٹتا ہے۔ تحقیق و تخلیق اور ایجادات کے دروازے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہم پر بند کرتا ہے۔ نسلِ نو کو بے راہروی کے ایسے عمیق سمندر میں دھکیلتا ہے جہاں ڈوبنے کے علاوہ دوسرے تمام راستے بند ہوتے ہیں۔

قرآن دنیا کی سب سے سچی اور قابلِ عمل کتاب ہے جس کے احکامات انسانی نفسیات کے عین مطابق ہیں۔ آئیے اس کتابِ ہدایت سے اپنے عُقدے کا حل تلاش کرتے ہیں۔ سورہء ابراہیم میں اللہ ربُّ العزّت ارشاد فرماتے ہیں " وما ارسلنا من رسولٍ الا بلسانِ قومہ لِیُبیّنَ لَھُم" یعنی ہم نے رسولوں کو قوموں کی زبان میں بھیجا تاکہ بات وضاحت سے سمجھا سکیں۔ اگر خدا پیغمبروں کو لوگوں کی زبان میں نہ بھیجتا تو لوگ کہتے کہ یہ شخص تو ہم میں سے نہیں ہے اور اس کی باتیں تو ہماری سمجھ میں نہیں آتیں، لہٰذا یہ ہمارا پیغمبر نہیں ہو سکتا۔ اس آیت سے یہ بات بالکل واضح ہے کہ بات سمجھ آتی ہے تو صرف اپنی قوم کی زبان میں۔ اللہ کا یہ فرمان ہمیں نصاب سازی اور طریقِ تدریس کے بارے میں بالکل صاف اور واضح رہنمائی دیتا ہے۔ کتنے افسوس کا مقام ہے کہ تمام غیر مسلم ترقی یافتہ قومیں قرآن کے اس اصول پر سختی سے عمل کرتی ہیں مگر حیف ہے ہم پر کہ ہم فرمانِ خداوندی کی دھجیاں بکھیرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہے ہیں۔ شاعرِ مشرق نے کیا خوب نقشہ کھیچا ہے ہماری ذلّت و رسوائی کا کہ
وہ معزز تھے زمانے میں مسلماں ہو کر
اور تم خوا ہوئے تارکِ قرآں ہو کر

علاوہ ازیں صحیح بخاری میں پیارے پیغمبرﷺ کا ارشاد ہے " آسانی پیدا کرو مشکل میں نہ ڈالو" یہ حکم دینی اور دنیاوی دونوں امور پر محیط ہے۔ اس سے بھی ہمارے نظامِ تعلیم اور ذریعہ تعلیم کے عُقدے کو حل کرنے میں مدد ملتی ہے۔ ہماری نصابی اور غیر نصابی کتاب اس زبان میں ہو جس کا پڑھنا اور پڑھانا آسان ہو اور وہ کسی قوم کی قومی اور مادری زبان ہی ہو سکتی ہے۔

ایک اور موقع پر پیارے پیغمبر ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ " لوگوں کی ذہنی سطح کو مدِ نظر رکھ کر بات کیا کرو" جب کتاب ہمارے بچے کی ذہنی سطح اور عمر کے مطابق ہوگی اور تدریس میں بھی اس امر کا خیال رکھا جائے گا تو بچے کے لیے دلچسپی پیدا ہوگی اور فہم و ابلاغ آسان ہو جائے گا۔ ہمارا دین تو ہر معاملے میں ہمارے لیے آسانیاں پیدا کرتا ہے مگر ہم نے اس سے انحراف کر کے خود ساختہ مشکلات میں پوری قوم کو پھنسا دیا ہے۔ نہ بچہ کچھ سمجھ پاتا ہے اور نہ ہی استاد کچھ سمجھا پاتا ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم نہ تو قرآن کی بات مانتے ہیں اور نہ ہی صاحبِ قرآن کی۔ تو پھر کیوں نہ ذلّت اور رسوائی ہمارا مقدّر بن جائے۔ خدا اور اس کے رسول کی نافرمان قوم پر کیوں نہ زلزلوں اور سیلابوں کی صورت میں عذاب نازل ہوں؟

اگر ہم اپنے نظامِ تعلیم کو درست کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنے آپ کو بدلنا پڑے گا بقولِ مولانا ظفر علی خان جو قرآنی آیت کا ترجمہ منظوم شکل میں اس طرح پیش کرتے ہیں کہ
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا

اسلام دینِ فطرت ہے اور اور قومِ رسولِ ہاشمی اپنی ترکیب میں خاص ہے۔ جس طرح اسلامی تعلیمات ہمیں دائیں ہاتھ سے خوردونوش اور دائیں سے بائیں تقسیمِ کار کا حکم دیتی ہیں۔ اسی مزاج، ترتیب اور ترکیب کو اللہ نے مسلمانوں کی اکثریتی زبانوں کے رسم الخط میں بھی رکھ دیا ہے کہ ہم دائیں سے بائیں لکھتے ہیں۔ اسی تہذیبی اور ثقافتی ہم آہنگی سے قومیں ترقی کرتی ہیں۔ جو قوم اپنی تہذیب اور رسم الخط کو بھول جاتی ہے علم و فن بھی اس سے روٹھ جاتے ہیں۔ آج تعلیم، تحقیق اور تخلیق کے دروازے ہم پر کیوں بند ہوئے ہیں؟ اس لیے کہ ہم اپنی اصل اقدار کو فراموش کر بیٹھے ہیں۔ اگر ہم اپنی اصل کی طرف لوٹ آئیں تو بغداد و ہسپانیہ کے بڑے بڑے تحقیقی و علمی مراکز دوبارہ امّتِ مسلمہ کی رہنمائی کے لیے قائم ہو جائیں۔ امت کی علمی مسکنت اور یتامت دوبارہ خود انحصاری میں بدل جائے۔

آج اگر ہم دنیا بھر کے علوم و فنون کو اپنی زبان میں منتقل کرنے کا کام جہادی روح کے ساتھ شروع کرد یں تو وہ دن دور نہیں جب ہماری لائبریریاں ہمارے اپنے لوگوں اور اپنی زبان میں لکھی ہوئی کتابوں سے بھر جائیں گی۔ یہی ہماری خود انحصاری اور ترقی کا نقطہ آغاز ہوگا۔ دنیا میں کسی ایک قوم کی مثال نہیں دی جا سکتی جس نے یہ کام کیے بغیر ترقی، تحقیق و تخلیق اور ایجادات کے دروازے وا کیے ہوں۔

یہ وہ نسخہ کیمیا ہے جس پر عمل کر کے دنیا کی ہر قوم نے ترقی اور خوشحالی کی منازل طے کی ہیں مگر سامراجی طاقتیں ہمیں دھن دولت اور دور سے چمکتی ہوئی تہذیب کے دامِ پر فریب میں پھنسا کر اس نسخے پر عمل پیرا نہیں ہونے دیتیں۔ قسم خدا کی جس طرح سورج مغرب سے نکل کر مشرق میں غروب نہیں ہوتا اسی طرح غیر فطری تعلیم و تدریس کے طریقے اپنا کر ہم ترقی کے راستے کی گرد کو بھی نہیں چھو سکتے۔ جس دن ہم اس بہکاوے سے نکل گئے سمجھ لیجئے دوبارہ دنیا کی زمامِ کار ہمارے پاس آ جائے گی۔ آئیے اس صراطِ مستقیم پر چلنے کا عزم کریں اور اپنی دولتِ گم گشتہ کو دوبارہ حاصل کرنے کی تگ و دو میں اپنی ساری صلاحتیں کھپا دیں ۔ بقولِ شاعر
جو سفر اختیار کرتے ہیں وہی دریا کو پار کرتے ہیں
چل کے تو دیکھیے مسافر کا راستے انتظار کرتے ہیں
Ishtiaq Ahmad
About the Author: Ishtiaq Ahmad Read More Articles by Ishtiaq Ahmad: 52 Articles with 168500 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.