پروفیسر سحرؔ انصاری کے اعزاز میں تقریب پذیرائی

سحرؔ انصاری

فصیلِ شہر میں پیدا کیا ہے در میں نے
کسی بھی بابِ رعایت سے میں نہیں آیا
پروفیسر سحر انصاری کی پچاس سالہ علمی و ادبی زندگی کھلے سمندر اور موجیں مارتی لہروں کی مانند ہمارے سامنے ہے۔وہ بلاشبہ ان معدودِ چند سخنوروں اور اساتذہ میں سے ہیں کہ جن کی موجودگی اہل علم و ادب کے لیے ایک قابل فخر ہیں، غرور ہے۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ انہیں زندگی میں ہی شہرت عام اور بقائے دوام کی سند حاصل ہوگئی ہے۔ ہمارے لیے لازم ہے کہ ہم سحرؔ انصاری اور دیگر اہل علم و ادب ستونوں کی موجودگی کو غنیمت تصور کرتے ہوئے ان کے ساتھ زیادہ سے زیا دہ وقت گزاریں، ان کے اندر جو علمی وا دبی ذخیرہ جمع ہے اسے باہر نکالنے ، محفوظ کرنے کے اقدامات کریں۔ ان کے ساتھ ادبی محفلوں کا انعقاد ہو۔سحرؔ صاحب اہل کراچی کے لیے خاص طور پر علمی و ادبی محفلوں کی جان ،تصور کیے جاتے ہیں۔ ان کے بغیر کوئی بھی علمی و ادبی محفل بے اور سونی سونی سی لگتی ہے۔ آرٹس کونسل آف پاکستان کے زیر اہتمام منعقد ہونے والی عالمی اردو کانفرنس میں سحرؔ انصاری کی غیر حاضری محسوس کی گئی، انصاری صاحب بہت یاد آئے ’’آج تم یاد بے حساب آئے‘۔ فانی کا ایک شعر ؂
اس کو بھولے تو ہوئے ہو فانیؔ
کیا کروگے وہ اگر یاد آیا

آج14فروری2018کو تنظیم اساتذہ اردو سندھ (تاس) کے زیر اہتمام پروفیسر سحرؔ انصاری کی پچاس سالہ ادبی، علمی خدمات کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے ’’تقریب پذیرائی‘‘ کا اہتمام ہے۔ انصاری صاحب کے حوالے سے میرا ایک تصیلی مضمون ’ہماری ویب ‘‘ کی ویب سائٹ پر آن لائن ہے۔ علاوہ ازیں دو س سال قبل میں نے سحرؔ انصاری کو’ کراچی کی ادبی محفلوں کے دولھا‘ کا خطاب دیا تھا ۔ یہ مضمون کراچی اخبار ’جناح‘ کی اشاعت 9نومبر2015ء میں شائع ہوا تھا جو در اصل ایک ادبی محفل کی روداد ہے۔ آج اس موقع پر اپنی وہ تحریر نظر قارئین ہے۔ چلتے چلتے سحرؔ صاحب کا ایک شعر ؂
ابھی تو زندگی کو ریزہ ریزہ چن رہا ہوں میں
ابھی سے یہ شکست کا سوال کیسے آگیا
اپنی دو سال قبل روزنامہ جناح میں شائع ہونے والی تحریر نظر قارئین ہے۔
کراچی کی ادبی محفلوں کے دولھا
*
ڈاکٹر رئیس صمدانی
دانشوروں، شاعروں،اساتذہ، مصنفین ، تخلیق کاروں کی پذیرائی اور ان کی علمی ادبی خدمات کو سراہانے کا عمل ہر دور اور ہر حکومت نے انجام دیا۔پروفیسر سحرؔ انصاری اردو کے ان معدودِ چند شاعروں اور نثر نگاروں میں سے ہیں کہ جن کی علمی و ادبی کاوشوں کو نہ صرف علمی و ادبی حلقوں نے ہمیشہ سراہا بلکہ حکومت کی سطح پر بھی ان کی کاوشوں کی پذیرائی کی جاتی رہی۔ 2005ء میں تمغہ امتیاز سے نوازا گیا، جب کہ موجودہ حکومت نے انہیں 2015ء میں ستارہ امتیاز سے سرفرازکیا۔ سحرؔ انصاری کی شاعری محض انسانی عمل نہیں بلکہ اس میں ان کے اندر موجود شاعر کی آواز محسوس ہوتی ہے۔اہل علم نے حکومت کے اس اقدام کو سراہا اورعلمی و ادبی انجمنوں نے ان کے اعزاز میں توصیفی تقاریب کا اہتمام کیا۔آن لائن لکھنے والوں کے فورم ہماری ویب’رائیٹرز کلب‘ نے سحرؔ انصاری کے اعزاز میں مقامی ہوٹل میں استقبالیہ کا اہتمام کیا جس میں رائیٹرز کلب کے لکھاریوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ سحرؔ انصاری نے مہمان خصوصی کی حیثیت سے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے رائیٹرز کلب کی جانب سے اردو کے فروغ اور علمی و ادبی خدمات کے لیے کی جانے والی کاوشوں کو سراہا انہوں نے کہا کہ ’رائیٹرز کلب ‘ آن لائن لکھنے والوں کا ملک کا اولین ادارہ ہے جو حقیقی معنوں میں اردو کی خدمت کا حق ادا کررہا ہے ۔ مجھے خوشی ہے کہ کلب کے سربراہ ابرار احمد اور صدر ڈاکٹر صمدانی اردو کی ترقی اور علم و ادب کے فروغ میں بے لوث خدمات انجام دے رہے ہیں۔ اس موقع پر ہماری ویب رائیٹرز کلب کی جانب سے پروفیسر سحرؔ انصاری کی خدمت میں توصیفی شیلڈ پیش کی گئی۔

پروفیسر سحر ؔ انصاری کا کہنا تھا کہ انہوں نے زندگی میں کبھی کسی بھی موقع پر اپنے لیے یا اپنے بچوں کے لیے کسی بھی قسم کی سفارش کو کبھی اچھا نہیں سمجھا، ااﷲ نے وقت کے ساتھ ساتھ مجھے جو عزت دی میں اس پر جس قدر شکر اداکروں کم ہے۔ میں تو اس بات کا قائل ہوں اور میں نے از خود ایسا ہی کیا ہے کہ بس خاموشی سے کام کیے جاؤ، صلے کے لیے کبھی کسی انسانی قوت کی جانب نہ دیکھو بلکہ صلہ دینے والی اﷲ کی ذات ہے۔ وہ محنت کا صلہ ضرور دیتا ہے ۔ انہوں نے کہا مجھے پہلے تمغہ خدمت دیا گیا اور اب ستارہ امتیاز سے نوازا گیا ، اﷲ کا شکر اور احسان ہے۔ میں نے اس اعزاز کے لیے کسی سے سفارش نہیں کی۔ پروفیسر سحرؔ انصاری صاحب سے رائیٹرز کلب کی جانب سے درخواست کی گئی تھی کہ وہ آن لائن لکھنے والوں کے اس فورم کی سرپرستی قبول فرمائیں اور اس کے سرپرست اعلیٰ کی حیثیت سے ان کی رہنمائی کریں۔ رائیٹرز کلب کی اس درخواست کو سحرؔ انصاری صاحب نے بخوشی قبول کیا جسے تقریب میں موجود لکھاریوں نے تالیابجا کر سحر ؔ انصاری کا شکریہ ادا کیا۔

ہماری ویب ’رائیٹرز کلب‘ کے صد ر کی ذمہ داریاں میرے ناتواں کاندھوں پر ہیں۔ جب کہ اس کے سربراہ و چیئمین ابرار احمد صاحب ہیں۔ معروف صحافی و کالم نگار جناب عطا محمد تبسم صاحب اس کے معتمد ہیں۔ ابرار احمد صاحب نے مہمان خصو صی سحر ؔ انصاری اور مہمانان کو خوش آمدید کہا۔ انہوں نے موجودہ دور میں ڈیجیٹل فارمیٹ میں علمی مواد کی تخلیق اور اسے آن لائن کرنے کی ضرورت اور اہمت بیان کی۔ انہوں نے بتا یا کہ اس وقت ہماری ویب پر لکھنے والوں کی ہزاروں تخلیقات آن لائن ہیں ۔ نیز آن لائن لکھنے والوں کا تیزی سے اضافہ ہوتا جارہا ہے ۔ یہ بات قابل غور ہے کہ رئیٹرز کلب کے قیام کے بعد سے ہماری ویب پر لکھنے والوں کی تعداد میں تیزی اضافہ ہوا ہے اور یہ تعداد 15ہزار سے تجاوز کرچکی ہے۔

پروفیسر سحرؔ انصاری نے 1973ء میں جامعہ بلوچستان کے شعبہ اردو سے درس و تدریس کا آغاز کیا۔ 1974ء میں وہ جامعہ کراچی کے شعبہ اردو میں آگئے اور پھر اسی شعبہ کے ہوکر رہ گئے۔ جامعہ کراچی میں ان کی خدمات کا دائرہ وسیع ہے۔ وہ کئی سال صدر شعبہ رہے۔ اردو ڈکشنری بورڈ میں ایڈیٹر و سیکریٹری کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ وہ چین اور جاپان میں بھی درس و تدریس سے وابستہ رہے۔ ہفت روزہ ’نئی جمہوریت ‘ کے مدید بھی رہے، کئی سال سے آرٹس کونسل کی ادبی کمیٹی کے سربراہ اور دیگر عہدوں سے وابستہ ہیں۔ ادارہ یاد گار غالب ؔ اور غالبؔ لائبریری کی ترقی اور فروغ میں اپنا حصہ ڈال چکے ہیں۔ شاعر کی حیثیت سے دنیا کے بے شمار ممالک میں پاکستان کی نمائندگی کرچکے ہیں۔پروفیسرسحرؔ انصاری کی شخصیت مختلف پہلو لیے ہوئے ہے ۔ وہ شاعر بہت اچھے ہیں، نثر نگار ی بھی ان کی خوب تر ہے، نقاد ہیں ، خوش گُلو وخوش اِلحان ہیں، خوش وضع و خوش قطع ہیں، شیریں زبان و شیریں کلام بھی۔ خوش طرز و خوش اِقبال بھی ہیں یہی وجہ ہے کہ انہیں ایک تمغے کے بعد دوسرے تمغے سے حکومت نے نوازا۔پروفیسر سحر انصاری مجلسی آدمی ہیں، لوگوں میں رہنا پسند کرتے ہیں ،۔ بولتے زیادہ ہیں، کراچی کی ادبی محفلوں کے دولھا بنے نظر آتے ہیں، صدر محفل اور صدرِ مشاعرہ کی حیثیت سے خوب خوب جچتے ہیں اور اس کا حق بھی خوش اسلوبی سے ادا کرتے ہیں۔ سحر ؔ انصاری نے کم کہا جو کچھ کہا اچھا کہا، کم لکھا جو کچھ لکھا معیاری لکھا، درویش صفت انسان ہیں،ان کا نثری و نظم کا ذخیرہ مطبوعہ سے زیادہ غیر مطبوعہ ہوگا۔ اس لیے کہ وہ زندگی میں اس فکر میں نہیں رہے کہ ان کی کتابیں دھڑا دھڑ منظر عام پر آتی رہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی فیض احمد فیضؔ پر ایک نثری کتاب’ ’ فیضؔ کے آس پاس‘‘ 2011ء میں اس سے قبل انہوں نے جوشؔ کے مقالات ’’مقالات جوش‘‘ کے عنوان سے مرتب کیے۔ ’ذِکرِ غَالبؔ ذِکرِ عَبد الحق‘ان کی نثری کتاب ہے۔ ’تنقید ی افق‘ سحرؔ انصاری کے تنقیدی مضامین کا مجموعہ ہے۔ ’’اسالیب‘‘ کے عنوان سے 2010ء میں سحرؔ انصاری صاحب کی سرپرستی میں ایک کتابی سلسلہ (سالنامہ) شروع ہوا۔’’نمود‘‘ سحر ؔ انصاری کا پہلا مجموعہ کلام ہے جوادبستان جدید نے 1976ء میں شائع کیا۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ جب سحرؔ ساحب کو جامعہ کراچی سے منسلک ہوئے تین سال ہی ہوئے تھے ۔ لیکن شاعری کرتے دو دیہائیوں سے زیادہ کا عرصہ ہوچکا تھا۔ ’نمود‘ میں سحرؔ انصاری کی 20سال کی شاعری ہے ۔ اس میں ان کی غزلوں اور نظموں کا وہ وہ انتخاب ہے جو 1955ء سے1975ء تک پر محیط ہے۔ سحر ؔ صاحب معروف شاعر فیضؔ کے حلقہ احباب میں سے تھے ۔یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنے پہلے مجموعہ کلا کا فلیپ فیضؔ صاحب سے لکھوایااورفیض ؔ صاحب نے بہت ہی خوبصورت فلیپ لکھا۔ فیضؔ نے لکھا’’نمود‘‘ ایک بہت تعلیم یافتہ، خیال افروز اور سنجیدہ ذہن کی تخلیق ہے، جسے جدید ادب میں ایک معتبر اضافہ سمجھنا چاہیے۔سحر ؔ کے کلام میں ابہام یا ایہام کی کوئی آمیزش اور دوسرے زندگی کے روزمرہ مظاہر سے پل یا سٹرک، شفاخانہ ہو یا تجربہ گاہ کسی ذہنی یا جذباتی تجربہ کی تجرید اور کشیدگی کے بعد جس طرح سحرؔ انھیں نظم کرتے ہیں وہ انھیں سے مخصوص ہے‘‘۔ان کا دوسرا مجموعہ کلام ’خدا سے بات کرتے ہیں‘ ہے۔سحر ؔ انصاری علمی ادبی سرگرمیوں کے میں گزشتہ کئی سالوں سے فعال ہیں۔آرٹس کونسل میں کئی سالوں سے ادبی کمیٹی اور دیگر انتظامی امور میں شامل رہتے ہیں۔ غالب لائبریری سے بھی وابستہ رہے۔ اکتوبر2015ء میں سحر ؔ انصاری کو ایک اور اہم اور بہ عزت ذمہ داری سونپ دی گئی۔ انہیں انجمن ترقی اردو پاکستان کا خازن بھی مقرر کردیا گیا۔ یہ عہدہ بظاہر ادیبوں اور شاعروں کی شخصیت، مزاج اور طبیعت سے مُتَعضاد نظر آتا ہے لیکن ماضی میں انجمن ترقی اردو میں اس عہدہ پر کئی معروف ادیب و دانش ور خدمات انجام دے چکے ہیں۔ سحر ؔ انصاری نے ہمیشہ نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کی وہ علم و ادب کے فروغ و ترقی کے شعبہ میں خدمات انجام دینے والے ادبی و علمی اداروں کی رہنمائی و سرپرستی میں بھی پیش پیش رہتے ہیں۔ وہ ادیبوں اور شاعروں کے دوست اور ان کی انجمنوںکے خیر خواہی میں تن من دھن سے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔

پروفیسر سحرؔ انصاری پر اپنے ایک مضمون ’’شاعروں کے شاعر ادیبوں کے ادیب۔ پروفیسر سحرؔ انصاری ‘‘ کا آن لائن لنک
درج ذیل ہے۔ یہ مضمون سحرؔ صاحب کے یوم پیدائش پر تحریر کیا گیا تھا ۔
https://www.hamariweb.com/articles/article.aspx?id=75600

 

Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 852 Articles with 1281827 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More