اِس ہاتھ دے اُس ہاتھ لے!!!

یہ تحریر ویلنٹائن ڈے اور خواتین کو موبائل یا انٹرنیٹ پر ہراساں کرنے کے بارے میں ہے۔

یہ کہانی 42سالہ ماسی سمیرا کی ہے۔ یہ تین بچوں اور دو بچیوں کی ماں تھی۔ہنس مکھ، زندہ دل ، مگر حساس طبیعت کی مالک۔اس نے تین سال پہلے قریبی عزیزوں سے رابطہ رکھنے کے لیے موبائل خریدا۔ وہ بقدر ضرورت موبائل استعمال کرتی تھی۔ اس کا علم مس کال چیک کرنے اور نمبر ڈائل کرنے تک محدود تھا۔ میسج کرنے ، انھیں پڑھنے یا ڈیلیٹ کرنے سے قطعی نابلد تھی۔ ایک دن اس کے موبائل پر گھنٹی بجی۔ کال ریسیو کرنے پر پتا چلا کوئی نوجوان اس سے اظہار محبت کر رہا ہے۔ سمیرا نے اسے پیار سے سمجھایا ’’بیٹے! میں تمہاری ماں جتنی ہوں، اس لیے اوقات میں رہو۔‘‘ لیکن کال کرنے والا اپنی حد سے نکلتا گیا۔ سمیرا وقتی طور پر پریشان ہوئی لیکن اسے دل پر نہ لیا۔ کال آتی تو کاٹ دیتی۔ میسجز آتے تو قطع والے بٹن سے انھیں چھپا دیتی۔ ایک دن اس کی پڑوسن ضروری کال کا کہہ کر اس سے موبائل لے گئی۔ تھوڑی دیر بعد جب موبائل واپس کرنے آئی تو دانتوں میں کپڑا لیے دھیرے دھیرے مسکرا رہی تھی۔ سمیرا نے بچی سمجھ کر اسے بھی نظر انداز کر دیا۔ لیکن یہ نظر انداز کرنا اسے بہت مہنگا پڑا۔ کچھ دنوں میں یہ بات محلے میں پھیل گئی کہ ماسی سمیرااس عمر میں چھوکروں سے عشق لڑاتی ہے۔ یہ بات جب اس کے بچوں تک پہنچی تو گھر میں کہرام بپا ہو گیا۔ بڑے بیٹے نے اپنی امی کا موبائل چیک کیا تو واقعی سینکڑوں میسجز دعوتِ محبت دے رہے تھے۔ جب کہ سمیرا کے لیے یہ سب ایک حیرت ناک دھماکے سے کم نہ تھا۔ اس نے اپنے بچوں کو سمجھانے کی کوشش کی لیکن کسی نے ایک نہ سنی۔ بڑے بیٹے نے رابطہ کرنے والے کو کال کی تو اس نے ہنستے ہوئے کہا ’’بس ہماری محبت زبانی کلامی ہے، اس سے زیادہ کچھ نہیں۔‘‘ بڑا بیٹا… جس نے کبھی اپنی امی سے اونچی آواز میں بات نہ کی تھی، اُس دن بہت چیخا چلّایا۔ بڑی بیٹی نے بھی اپنی ماں سے بولنا چھوڑ دیا۔ سمیرا اپنے بچوں کے رویے کی تاب نہ لا سکی۔ رات جب چارپائی پر لیٹی تو پھر کبھی نہ اٹھ سکی۔

یہ کہانی صرف ماسی سمیرا کی نہیں، دنیا میں بسنے والی ہر دوسری عورت کی ہے۔ اقوام متحدہ کی 2013ء میں چھپی ایک رپورٹ کے مطابق ایسا سلوک 94% عورتوں کے ساتھ ہوا۔ گیلپ پاکستان کی گزشتہ سالہ رپورٹ کے مطابق 16%پاکستانی عورتوں نے موبائل فون کے ذریعے ہراسمنٹ کی شکایت درج کروائی جب کہ 80% شکایت ہی نہ کر سکیں۔ آن لائن اور سوشل میڈیا پر یہ سلسلہ مزید خطرناک صورت حال اختیار کر چکا ہے۔ 67%پڑھی لکھی پاکستانی خواتین سوشل میڈیا استعمال کرتی ہیں۔ جن میں 43%خواتین کو ہراساں کیا گیا۔ 1400 خواتین نے ایف آئی اے یا دیگر اداروں کو رپورٹ درج کرائی۔ یہ سلسلہ محض آن لائن یا موبائل فونز پر ہی نہیں بل کہ دفتروں، ہسپتالوں، ملکی اسمبلیوں اور تعلیم کے مراکز میں جاری ہے۔ جہاں کی بہتی گنگا میں ادنی ملازمین سے لے کر پروفیسر اور مالکانِ ادارہ تک ہاتھ دھونے کی کوشش کرتے ہیں۔ کراچی یونیورسٹی، ہزارہ یونیورسٹی، خیبر میڈیکل کالج اور بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی جیسی تربیت گاہوں کے کیسز میڈیا میں آ چکے ہیں۔

جنسی ہراسمنٹ کا آغاز کسی طرح بھی ہو سکتا ہے۔ جسے خواتین اپنے اندر نصب قدرتی سینسر سے بخوبی پہچان لیتی ہیں۔ مثلا کسی کا بے تکلفی کا اظہار کرنا، شانے پر ہاتھ رکھ دینا، بار بار آنکھوں میں آنکھیں ڈالنا، فحش لطائف سنانا، بار بار اور بلا وجہ فون کرنا، ہوٹلنگ کے لیے مجبور کرنا، ہوٹنگ کرنا، جملے کسنا، مذاق اڑانا، بلیک میلنگ کرنا، دھمکیاں دینا اور تشدد کرنا وغیرہ شامل ہے۔ اس کی وجہ اکثر اوقات غلط تربیت، برا ماحول، غلط دوستی، مالی آسودگی کا نشہ، افسری کا رعب، مجبوری سے فائدہ اٹھانا، نفسیاتی بیماری، انتقام، شادی سے انکار اور پرانی دشمنی وغیرہ ہوتی ہے۔ اکثر خواتین اس معاملے کی شکایت نہیں کر سکتیں۔ جس کی وجہ اپنے کیرئیر پر اثر پڑنے کا خوف، ملنے جلنے والوں میں شکوک و شبہات کے نشتر، معاشرے کا خوف اور قانونی پیچیدگیوں کی بھول بھلیوں میں پڑنے کے جھنجھٹ سے نجات ہے۔ کئی عورتیں اپنی عزت بچانے کے سلسلے میں تھانے گئیں لیکن بجائے انصاف ملنے کے، رہی سہی عزت کا جنازہ بھی نکل گیا۔ اس لیے اکثر خواتین خاموش رہنے میں ہی نجات سمجھتی ہیں۔ اور گھر اس لیے نہیں بتا سکتیں کہ اس سے دشمنی کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔

دنیا بھر کی حکومتوں نے اس معاملے سے نمٹنے کے لیے کئی ایک اقدامات کیے ہیں۔ حکومت پاکستان نے بھی 2016ء میں سائبر کرائم بل منظور کیا ہے۔ لاہور ہائیکورٹ کے محترم چیف جسٹس نے خواتین کے لیے الگ عدالت قائم کرنے کا حکم بھی دے رکھا ہے۔ ’’پنجاب کمیشن برائے خواتین‘‘ کی مدد سے ایک موبائل ایپ بھی متعارف کرائی گئی ہے۔ جس میں خواتین آن لائن شکایت درج کروا سکتی ہیں۔ اسی طرح ایک نجی ادارے ’’ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن (DRF) نے ہیلپ لائن 0800-39393 قائم کر رکھی ہے۔ جس پر رابطہ کر کے شکایت درج کرائی جا سکتی ہے۔

میرے خیال میں قانونی پیچیدگیوں اور حکومتی اقدامات سے ہٹ کر خواتین کو خود اپنی حفاظت کرنی بھی سیکھنی چاہیے۔ انہیں چاہیے اہل خانہ کو اعتماد میں رکھیں۔ بالفرض ایسا کوئی واقعہ ہو تو سب سے پہلے گھر کے افراد سے شیئر کریں۔ خاص طور پر اپنے محرم مردوں تک کسی نہ کسی طور یہ معاملات پہنچا دیں۔ یاد رکھیں! جب کوئی عورت گھر سے اکیلی نکلتی ہے تو سینکڑوں نظریں ان کا تعاقب کرتی ہیں۔ لیکن جب محرم ساتھ ہو تو اکثر آنکھیں جھک جایا کرتی ہیں۔لہذاکوئی بھی قدم بلا سوچے سمجھے اور مشورے کے نہ اٹھائیں اور نہ ہی بالکل خاموشی اختیار کریں۔ ڈر، خوف اور حالات سے نمٹنے کے لیے تیار رہیں۔ اسلامی احکامات (پردہ، مردوں سے اختلاط سے اجتناب اور سیلفی وغیرہ سے بچنے) کا خاص خیال رکھیں۔ مردوں کو بھی چاہیے کہ وہ اپنی خاندان کی بہن بیٹی کی شکایت سن کر بجائے ان پر شک کرنے اور رعب جمانے کے ، ان کی مدد کریں۔ انھیں تسلی دیں اور تحفظ فراہم کریں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ کسی کی بہن، بیٹی کو عزت دیں گے تو اپنی بہن ، بیٹی بھی عزت سے نوازی جائیں گی۔ ورنہ ویلنٹائن کا نتیجہ بھی ویلنٹائن ہی ہوتا ہے۔۔۔؎
کیا خوب سودا نقد ہے ، اِس ہاتھ دے اُس ہاتھ لے۔
٭٭٭

Abdus Saboor Shakir
About the Author: Abdus Saboor Shakir Read More Articles by Abdus Saboor Shakir: 53 Articles with 90281 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.