ترک حفاظ کا عمرہ… چند تجاویز

گزشتہ دنوں دو ہزار ترک حفاظ عمرہ کرنے مکہ مکرمہ پہنچے۔ سفید براق احرام، سرخ و سفید نورانی چہرے، نظم و ضبط کا بہترین مظاہرہ، فضا میں لبیک اللھم لبیک کی گونج… معلوم ہو رہا تھا فرشتوں کی ڈار ہے جو حرم میں اتر آئی ہے۔سوشل میڈیا پر چل رہی یہ ویڈیو دیکھ دیکھ کر خوابیدہ جذبات انگڑائی لینے لگے۔ شوقِ حرم ایک بار پھر دل کے تاروں سے کھیلنے لگا۔ حرمین جانے کی تمنا مچلنے لگی ہے۔ ترک حکومت نے نئے پروگرام کے تحت حفاظ کرام کو سرکاری خرچ پر عمرہ کروانے کا اہتمام کیا ہے۔ یہ حفاظ اسی پروگرام کے تحت آئے۔

یقین نہیں آتا؛ یہ اسی ترکی کے حفاظ ہیں جہاں 2000ء تک اسلام کا نام لینا جرم تھا۔ جہاں ایک باحجاب پارلیمنٹیرین اپنے پردے کی وجہ سے پارلیمنٹ سے نکال دی گئی۔حفظ قرآن پر پابندی لگا دی گئی۔عربی رسم الخط تک ممنوع قرار دے دیا گیا۔ جہاں کا ایک وزیر اعظم اس جرم میں پھانسی چڑھا دیا گیا کہ وہ اسلام کا نام لیوا تھا۔ دنیا بدلی، حالات نے پلٹا کھایا اور آج وہی ترکی اپنے حفاظ قرآن کو عمرے پر بھیج رہا ہے۔ یہ تبدیلی کیسے آئی؟ ہمارے لیے اس میں کئی اسباق پوشیدہ ہیں۔ مکمل جائزہ کی بجائے چند ایک اشارے کافی ہیں۔

ترکی اس وقت دنیا کا تیزی سے ترقی کرتا ہوا ملک ہے۔ 2000ء سے پہلے یہاں کی معیشت قابلِ رحم تھی۔ کرپشن، بے ایمانی، لوٹ کھسوٹ اور بدتہذیبی کا بھوت ننگا ناچ رہا تھا۔ جمہوریت آمریت کی لونڈی تھی۔ پھر جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی برسرِ اقتدار آ گئی۔ مردِ بیمار کے تن میں جان پڑ گئی۔ حکمت و بصیرت کے ساتھ تمام امراض کا علاج شروع ہوا۔انسانی حقوق کے دشمن اور مذہب مخالف قوانین ختم کر دیے گئے۔ اس سے جہاں معیشت ترقی کی راہ پر گامزن ہوئی وہیں مذہب و اخلاق نے بھی راہِ عمل کا مزہ چکھا۔ 2011ء میں حفظِ قرآن سے پابندی اٹھا لی گئی۔ حکومتی نگرانی میں1300 اسلامی مراکز قائم کیے گئے۔حفظِ قرآن کی سعادت حاصل کرنے والوں کو تعریفی اسناد اور وظائف دیے گئے۔ چالیس ہزار اساتذہ مقرر کیے گئے جنھیں خصوصی مراعات اور بہترین وظائف سے نوازا گیا۔ عالمی سطح پر حفظِ قرآن کے مقابلے منعقد کیے گئے۔ حتی کہ 2015ء تک پورے ترکی میں حفاظ کی تعداد ایک لاکھ اسی ہزار تک جا پہنچی۔ تعطیلات گرما میں اسکول کے طلبہ کو حفظِ قرآن کی ترغیب دی گئی۔ والدین کو پابند کیا گیا کہ وہ اپنے بچوں کو گرمیوں کی چھٹیوں میں حفظ کروائیں ، پھر اس حفظ کو اگلے سال کی چھٹیوں تک محفوظ رکھنے میں ان کے معاون بنیں۔ اس کا نتیجہ بہت مثبت نکلا 2016ء میں یہ تعداد گیارہ لاکھ 50ہزار کو پہنچ گئی۔ اب ہر سال محض گرمیوں کی چھٹیوں میں 60ہزارنئے طلبہ حفظ کی سعادت حاصل کر رہے ہیں۔

قرآن سے محبت دینی و دنیاوی بھلائیوں کی سبب ہے۔ یہ جرائم پر قابو پانے میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔ تفرقہ بازی کے اس دور میں بہترین فیصل ہے۔ ایک مرتبہ حضرت جبریل علیہ السلام ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور امت محمدیہ ﷺ میں اختلافات کی خبر دی۔ آپ علیہ الصلوۃ والسلام نے اس کا حل پوچھا تو فرمانے لگے ’’اللہ کی کتاب! اسی کے ذریعے ہر جابر کو توڑا جا سکتا ہے اور جس نے اس کو مضبوطی سے پکڑ لیا وہ نجات پا گیا اور جس نے اسے چھوڑ دیا وہ ہلاک ہو گیا۔‘‘ شیخ الہند محمود حسنؒ جب مالٹا سے رہا ہو کر آئے تو قرآن کو لازم پکڑنے کی نصیحت کی کہ یہی تمام مسائل کا حل ہے۔ جب کوئی دن کے اکثر اوقات میں قرآن مجید کی تلاوت کرے گا تو رذائل خود بخود اس سے نکل جائیں گے۔ صفات حسنہ اس کی عادت بنتی چلی جائیں گی۔ اسی لیے رسول اللہ ﷺ نے امامت کے لیے حفاظ کا مشورہ دیا ہے کہ وہ تقوی میں سب سے بہتر ہوتا ہے۔ اسی طرح آپ ﷺ نے فرمایا ’’حافظ قرآن اسلام کا جھنڈا اٹھانے والا ہے۔ جس نے اس کی تعظیم کی، اس نے اللہ تعالی کی تعظیم کی۔ جس نے اس کی توہین کی، اس پر اللہ تعالی کی لعنت ہے‘‘ (کنزالعمال)

ہماری حکومت کو چاہیے کہ تعلیم قرآن عام کرے۔مشاہد ہ گوا ہے کہ حفاظ بچے ہر میدان میں آگے ہوتے ہیں۔ ان کی ذہنی صلاحیت عام طلبہ سے زیادہ ہوتی ہے۔ لہذا حفظ قرآن کو نصاب کا حصہ بنایا جائے۔ اسکول، کالج اور یونیورسٹی سطح پر حفظ قرآن کے مقابلے منعقد کیے جائیں۔ اسکولوں میں پڑھنے والے طلبہ کو حفظ قرآن کی جانب راغب کیا جائے۔ امتحانات میں حفاظ کو خصوصی نمبر دیے جائیں۔ ان کے لیے مراعات اور وظائف کا اعلان کیا جائے۔ پختہ حفاظ کو حج و عمرہ کروایا جائے۔ نہ صرف طلبہ بل کہ سرکاری ملازمین کو بھی حفظ کی جانب راغب کیا جائے۔ ان کے سکیل اور گریڈ بڑھانے کے لیے حفظ کو بھی معیار بنایا جائے۔ حافظ ملازمین کی تنخواہیں اور مراعات بڑھائی جائیں۔ ممبران اسمبلی خود بھی حفظ کریں اور اپنے علاقے میں اسے عام کریں۔ میرے خیال میں اس طرح ملک سے لوٹ کھسوٹ ، بد دیانتی ، کرپشن، حرام خوری، تفرقہ بازی اور دیگر جرائم پر بھی قابو پایا جا سکتا ہے۔ اگر ترک اس طرح کر سکتے ہیں تو ہم کیوں نہیں؟ اگر وہ اٹھارہ سال میں اپنے وطن کو ترقی پذیر ممالک کی فہرست میں لا سکتے ہیں تو ہم کیوں نہیں کر سکتے؟؟؟

Abdus Saboor Shakir
About the Author: Abdus Saboor Shakir Read More Articles by Abdus Saboor Shakir: 53 Articles with 90383 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.