اْمتِ مْسلمہ،تفرقہ بندی اور اْس کا حل

آج دنیا بھر میں مسلمان جن مصائب اور آفات کا شکار ہیں ان کا سب سے بڑا سبب آپس کا تفرقہ اور خانہ جنگی ہے۔ ورنہ عددی کثرت اور مادی اسباب و وسائل کے اعتبارسے مسلمانوں کو سابقہ ادوار میں ایسی طاقت حاصل نہ تھی جیسی آج حاصل ہے۔ اگر آج امتِ مسلمہ پر نظر دوڑائی جائے تو یہ امت کے بجائے ایک منتشر ہجوم نظر آتی ہے، جس میں دور دور تک کسی اتحاد کا امکان دکھائی نہیں دیتا۔ وہ بات بھی پرانی ہے کہ جب اس امت میں سیاسی، نسبی، نسلی، لسانی، وطنی اور طبقاتی تفرقہ تھا۔ آج اس امت میں جو تفرقہ سب سے زیادہ اور سب سے خطرناک ہے وہ دینِ اسلام کے نام پر ہے، جس میں ایک فرقہ اپنے مخالف فرقے پر سب و شتم، دشمنی، یہاں تک کہ قتل و غارت گری سے بھی گریز نہیں کرتا۔

ایک طرف تو اس خانہ جنگی کے ذریعے امت میں تباہی پھیل رہی ہے تو دوسری جانب ہر دوسری قوم ہم مسلمانوں کو اپنے اندر جذب کرکے ہمارے وجود کو ختم کرنے کے درپے ہے۔ غیر اخلاقی ثقافت اور معاشرت کی ہر طرف سے یلغار ہے۔ اپنی ہی حکومتوں کی جانب سے اسلام کے نام لیوا افراد پر عرصہِ حیات تنگ کیا جارہا ہے اور ملحدانہ اقدامات کے ذریعے عقائد کو متزلزل کیا جارہا ہے۔ مغربی تعلیم و تہذیب کے ذریعے مادہ پرستی کا دور دورہ ہے۔ سالانہ عیسائی ،قادیانی، اور ہندو مشنریز کے ذریعے سینکڑوں لوگ مرتد ہورہے ہیں۔ دورِ جدید کے فتنہ پرور لبرل اور سیکولر ذہن کے حامل افراد، عوام میں بڑے پیمانے پر دین کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کر رہے ہیں۔ ان کے علاوہ مارِ آستین گروہ جیسے منکرینِ حدیث وغیرہ، اسلام کی جڑیں کھودنے میں مصروف ہیں۔

میڈیا، این جی اوز، جدید تعلیمی نظام، بیوروکریٹس دراصل سرمایہ دارانہ اقدار و ادارتی صف بندی کے قیام و استحکام کے لئے شب و روز محنت کررہے ہیں۔ ان مصیبتوں سے بچی کچی عوام میں سے بھی ایک بڑی تعداد بے حیائی اور فحاشی کے طوفان میں بہہ جاتی ہے۔ ان دین بیزارطبقات کی کوششوں کے ذریعے ایک روائتی اسلامی معاشرے کے بجائے ایک عالمی دجالی اور سرمایہ دارانہ معاشرہ وجود میں لایا جارہا ہے۔
اسلام وہ دین ہے جو عدل و مساوات کا ایک انقلابی پیغام لے کر اٹھا۔ قرآن پاک میں واضح اور صاف الفاظ میں پیغام دیا گیا (سورۃ النساء: ۱)ترجمہ:"اس نے تم سب کو ایک جان سے پیدا کیا"(سورۃ الحجرات: ۰۱)ترجمہ:"بیشک مسلمان تو آپس میں بھائی بھائی ہیں"یہ کہہ کر تمیزِ بندہ و آقا کے سارے بت توڑ دیے۔ یہاں تک کہ خطبہِ حجۃ الوداع کے موقعے رسول اﷲﷺ نے یہ فرما کر "کوئی فضیلت نہیں کسی عربی کے لئے کسی عجمی پر، نہ کسی عجمی کے لئے کسی عربی پر، نہ کسی گورے کو کسی کالے پر نہ ہی کالے کو گورے پر سوائے تقوٰی کے"اس انقلابی نعرے سے ہر قسم کی عصبیتیں ختم کردیں۔ یہی وہ حقیقت تھی جسے دینِ اسلام نے پیش کیا اور اس جاہلی درجہ بندی کا دروازہ بند کیا جس میں اپنی شناخت کو کسی سعی و عمل کے ذریعے نہیں مٹایا جاسکتا یعنی کوئی کالا گورا نہیں بن سکتا، نہ ہی کوئی عجمی عربی بن سکتا۔ یہ مساوات صرف نعروں کی حد تک ہی نہیں تھا بلکہ ایچ- جی-ویلز(H.G.Wells)2 اپنی شہرہِ آفاق کتاب (A Short History of the World) میں اعتراف کرتا ہے:
ترجمہ:"اگرچہ انسانی اخوت ،مساوات اورحریت کے وعظ تو دنیا میں پہلے بھی بہت کیے گئے ہیں اور ایسے وعظ مسیحِ ناصریؑ کے ہا ں بھی ملتے ہیں۔لیکن یہ تسلیم کیے بغیر چارہ نہیں کہ یہ محمد (ﷺ)ہی تھے ،جنہوں نے تاریخ انسانی میں سب سے انقلابی کام کیا اور اْن کا اس دْنیا میں کوئی ثانی نہیں۔

پاکستان میں بہت سی دینی جماعتیں جو الگ الگ نصب العین لے کر اٹھی ہوئی ہیں مگر اگر واقعی دین کی خدمت کا جذبہ ہو تو سب آپس میں مل کر دین کی ایک عظیم طاقت بن سکتی ہیں۔چاہے وہ کوئی مدرسہ بناکر تعلیم و تعلم کے لئے محنت کررہے ہوں ، تبلیغی جماعت بناکر دین کی نشرو اشاعت کررہے ہوں،کوئی اصلاحی تحریک چلاکر اخلاق کی بہتری کے خواہاں ہوں یا اقامت دین کے لئے جہاد کررہے ہوں، آپس میں ایک جماعت نہ ہونے کے باوجود بھی ایک عظیم مقصد کی تکمیل کے لئے آگے بڑھ سکتے ہیں بشرط یہ کہ اپنی جماعت کے منہج و مقصد کو ہی کل دین نہ سمجھ بیٹھیں اور دوسروں کے مناہجِ خدمتِ دین پر کھلے بندوں تنقید نہ کریں۔

دوسرے یہ کہ دین کے جامع تصورِ حیا ت کو سمجھا جائے۔ کیونکہ ایک بہت بڑی تعداد مذہب کو معاشرت، معیشت اور سیاست سے الگ کرتی ہے۔ اس طرح دین کے ایک وسیع دائرے کو چھوڑ کر ایک محدود انداز میں عمل کرنے سے تفریق پیدا ہوتی ہے۔ بہت سے لوگ آج بھی اسلام کو دیگر مذاہب کی طرح تسبیح و مصلٰی تک محدود سمجھتے ہیں، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ نبی کریم ﷺنے عبادات، رسوم اور اعتقادات کے علاوہ تجارت کے مسائل بھی بیان کئے، ریاستِ مدینہ قائم کی جس کے ذریعے سیاست کے احکام سکھائے اور معاشرتی احکام کے ذریعے ایک جدید تہذیب و تمدن کی بنیاد رکھی۔

ایک اہم نکتہ یہ کہ بدعات اور غلط رسومات کے خلاف کام کریں تو قرآنی ترتیب کو ملحوظ رکھا جائے۔ پہلے حکمت سے دعوت دی جائے پھر موعظت یعنی نرم و عظ سے سمجھایا جائے اور اگر علمی بحث چل نکلے تو مجادلہ بھی احسن طریقہ سے ہو۔خیال رہے کہ کوئی وعظ نبی ؑ کے وعظ جتنا نرم نہیں ہوسکتا اور کوئی غلط شخص فرعون سے برا نہیں ہوسکتا۔باوجود اس کہ اﷲ نے حضرت موسٰیؑ کو قول لیّن(نرم رویہ) کے ذریعے فرعون کو دعوت دینے کی تلقین کی۔ ظاہر ہے ہمیں بھی اس رویے کو اپنانا چاہیے۔

قرآن پر اگر امت جمع ہوجائے جس کی صحت پر پوری دنیا جمع ہے۔قرآن کی وجہ سے وہ دشمن جو صدیوں سے لڑتے آئے تھے ،باہم شیروشکر ہوگئے تو ہم امتِ مسلمہ جو ماضی قریب میں بھی متحد تھی آج بھی اس قرآن کے ذریعے متحد ہوسکتی ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ قرآن کی تعلیم کو حتٰی الامکان عام کیا جائے ، اور قرآن کے تذکیری پہلو کو عوام میں بیان کیا جائے۔ لوگوں کے تزکئے اور باطنی بیماریوں کا علاج بھی قرآن کے ذریعے کیا جائے۔ ہر شہر میں عوامی دروسِ قرآن کو پھیلایا جائے۔ جدید تعلیم یافتہ نوجوانوں کو قرآنی علوم سے روشناس کرایا جائے تاکہ وہ قرآن کی قوتِ تسخیر کے ذریعے اپنی زندگیاں قرآن کی خدمت کے لئے وقف کریں۔ اس کے ذریعے نوجوانوں کی ایک ایسی کھیپ تیار ہوگی جو جدیدیت زدہ مغربی فکر و فلسفہ کا مقابلہ کر سکیں،

قرآن اور اسلام پر کئے جانے والے اعتراضات کا جواب دیں، اسلام کی تعلیمات کو عصرِ حاضر کے تقاضوں کے مطابق پیش کرسکیں، اسلامی عملی ہدایات کو جدید دور کے طرزِ زندگی پر منطبق کر نے کی صلاحیت کے حامل ہوں۔اور پھر یہی کوشش آئندہ چل کر امت کی ایک مرکز(یعنی خلافت) پراتحاد کا سبب بنے گی۔انشاء اﷲ! واﷲ اعلم بالصواب
دْعاؤں میں خاکسار کو یاد رکھیے گا

Fareed Ahmed Fareed
About the Author: Fareed Ahmed Fareed Read More Articles by Fareed Ahmed Fareed: 51 Articles with 42543 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.