بزم داستان گویاں

اردو ادب کی ترقی پسند تحریک تب شروع ہوئی جب پیرس میں ایک عالمی ادب کا نفرنس منقعد ہوئی جس میں ادب کو ایک نئی موڑ پر لانے کا فیصلہ کیا گیا ۔اس کانفرنس میں ہندوستان سے سجاد ظہیر اور ملک رام آنند نے شرکت اور یہ 1935ء میں منقعد ہو ئی تھی اس کے بعد سجاد ظہیر اور اس کے علاوہ باقی ادیبوں نے ایک فیصلہ کیا کہ اردو ادب کو بھی ایک نیا راہ دپر لانا ہو گا اور اس طرح ترقی پسند مصنفیں اور طرقی پسند تحریک شروع ہوئی اسکا صدارتی خطبہ منشی پریم چند نے پڑھا جو بعد میں اس تحریک کا منشور بھی بنا اور اسطرح اردو ادب مافوق الفطرت اور طلسماتی کہانیوں سے نکل کر حقیقی مائل کا بیان کرنے والا ادب لکھنا شروع ہوگیا اسطرح اسوقت کے حالات انسانوں پر انسانوں کا ظلم ،جبر،ستم،انسانوں کا معاشی قتل عام،ڈی ہیو منائزیشن آدم خوریاور معاشرتی مسائل ادب کا موضوع بن گیا آنگارے کے نام سے اس وقت چھپنے والا افسانوی مجموعے کو حکومت مخالف قرار دیکر حکومت وقت کی طرف سے بند کیا گیا اور باقاعدہ جلایا گیا اس وقت کے مصنفین جو حقیقی کہانیا ں لکھ رہے تھے انہوں نے مصیبتیہں برداشت کیں اور جیلوں میں بھی گئے یہ تحریک جب زوروں پر تھی تو اسوقت بھی چند لوگ ایسے تھے جو اس سے ہٹ کر لکھ رہے تھے اور ہٹ کر سوچ بھی رہے تھے ان کے بارے میں ڈاکٹر یونس جاوید اپنی کتاب حلقہ ارباب زوق تنقید ،تاریخ اور نظریہ میں لکھتے ہیں کہ ایسے لوگ بھی جو ترقی پسند تحریک سے الگ سے سوچ رہے تھے ۔یہ وہی لوگ ہے جو بعد میں ایک حلقہ کی صورت میں منظر عام پر آئے۔ڈاکٹر یونس جاوید نے اسی کتاب میں بزم داستان گویاں کے بارے ایک حوالہ احمد جامعی کے بارے کہا ہے کہ ـ․․انکے بقول 1930ء میان ۔میں میوہ منڈی کے قریب رہتا تھا وہاں نصیر احمد جامعی سے ملاقات ہوئی انہوں نے مشورہ دیا کہ مل بیٹھنے کا کوئی طریقہ نکالا جائے ۔میں نے ان سے اتفاق کیا ۔۔۔اب اس سے ہمیں معلوم ہو جاتا ہے کہ حلقہ ارباب زوق مل بیٹھنے کا ایک محفل پہلے پہل بنا تھا جس میں ادب بارے محتلف ادیب مل کر گفتگو کرتے تھے افسانے پڑھے جاتے تھے اور یوں ادب پر بحث ا مباحثہ جاری رہتا تھا اس کا پہلا اجلاس کسی ادیب کے بھائی کے دفتر میں منقعد ہوتا ہے جس میں پہلا افسانہ نسیم ہجازی پڑھتا ہے اور پھر اس پر اجلاس میں شریک ادیب بحث کرتے ہیں گویا کہ نسیم حجازی کو حلقہ ارباب ذوق کے پہلے اجلاس میں افسانہ پڑھنے کا شرف حاصل ہوتا ہیاسطرح وقت کے ساتھ ساتھ اس کو قبول عام کا شرف حاصل ہوتا ہے اور اس میں جوق درجوق لوگ شامل ہوتے ہیں اسکا پہلے پہل نام بزم داستان گویاں رکھا جاتا ہے لیکن پھر اسکے دسویں اجلاس کے بعد نام تبدیل کرکے حلقہ ارباب ذوق رکھا جاتا ہے -

بزم داستان گویاں کوئی سیاسی ،مذہبی یا اسطرح کی کوئی جماعت نہیں تھی بلکہ یہ تو مل بیٹھنے کے لیے ادیبوں نے بس ایک وقت مقرر کیا تھا لیکن بعد میں وقت کے ساتھ ساتھ اسکے مقاصد ضرور بنے ان میں سے نوجوانوں کو تعلیم و تفریح کا ماحول پیدا کرنا ،اردو زبان کی ترقی و ترویج اور تنقید کو ایک سہی راہ پر لگانا تھا اسطرح تعلیم بالغاں بھی ایک مقصد تھا اردو ادب کے مشہور ادیب جب اس میں شامل ہوئے تو حلقہ ارباب ذوق میں بھی رونق آگئی جن میں میراجی،ڈاکٹر وحید قریشی ،قیوم نظر وغیرہ کے نام بھی شامل ہیں اس میں تنقید کا باقاعدہ سلسلہ میراجی نے شروع کیا جسکا اعتراف ڈاکٹر یونس جاوید نے اپنی کتاب میں کیا ہے اور کہا ہے کہ ایک دن محفل میں ایک شاعر نے نظم پیش کی اور پھر اسکے بعد میراجی نے کہا کہ اس پر سننے کے بعد سبحاناﷲ کا ڈونگ نہیں بنانا چاہئے بلکہ تنقید کرنی چاہئے تاکہ اسکی خوبیاں اور خامیاں سامنے آسکے۔اسطرح تنقید کا سلسلہ شروع ہوگیا ۔حلقہ ارباب ذوق کے جلسے پہلے پہل تو مختلف جگہوں پر ہوا کرتے تھے جن میں لاہور میں مزنگ روڈ ،وائیی ایم سی اے ہال اور پاک ٹی ہاوس وغیرہ بھی شامل ہے اسطرح اس حلقے کے ملک بھر میں یونٹس بنتے گئے اور پورے ملک میں خدمات سر انجام دینے لگا ۔۔
 

Waqar Ahmed
About the Author: Waqar Ahmed Read More Articles by Waqar Ahmed: 15 Articles with 27622 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.