صحرا کا پھول

کسی بھی قوم میں اہلِ نظر شخصیت کا پیدا ہو نا اس قوم کی خوش بختی کی علا مت سمجھی جا تی ہے اور متحدہ عرب امارات اس لحا ظ سے انتہا ئی خوش قسمت ہے کہ اسکی دھرتی پر شیخ زاید بن سلطان النہیان جیسی عظیم شخصیت نے جنم لیا جسکے خمیر میں آزادی، حریت، جانبا زی اور سخا وت کوٹ کوٹ کر بھری ہو ئی تھی۔ جرات ،جی داری اور جانبا زی سیکھنے سکھا نے والی شہ نہیں ہو تی اسے نہ تو کسی سے ادھار میں لیا جا سکتا ہے اور نہ ہی کسی پھل کی صورت میں کسی درخت کی شاخ سے توڑا جا سکتا ہے ایسی خدا داد خصوصیات کے فیصلے آسمانوں میں رقم ہو تے ہیں ۔ کسی بزدل کو نہ تو شیر کی قبا عطا کی جا سکتی ہے اور نہ ہی کسی شیر دل کو بزدلی کا جا مہ عطا کیا جا سکتا ہے۔شیر دل ماں کی کوکھ سے ہی شیر دل پیدا ہو تے ہیں اور پھر اپنی جرا توں سے پورے عالم کو تہ و با لا کر کے رکھ دیتے ہیں وہ اتنے بے باک اور پر عزم ہو تے ہیں کہ ہر شہ انکے سامنے سر نگوں ہو تی چلی جا تی ہے اور وہ اس کرہَ ارض کی صورت گری اپنی فہم و فراست اور خیالا ت کے مطابق کر کے دنیا کو ورطہِ حیرت میں گم کر دیتے ہیں۔

حکمران کے لئے انصاف پسند، بندہ پرور، رحم دل، غمگسار، انسان دوست اور با جرات ہو نا ضروری ہوتا ہے کیونکہ یہی وہ اوصافِ حمیدہ ہیں جو حکمران کو اپنے عوام کی خدمت کرنے اور انکی حالتِ زار کو بدلنے کے لئے کمر بستہ کرتے ہیں۔ بڑے لیڈر کی صرف ایک ہی پہچان ہو تی ہے کہ وہ اقرباء پرور نہیں ہو تا بلکہ وہ عوام پرور ہو تا ہے تبھی تو اپنے شب و روز کی عرق ریزی سے اپنی قوم اور عوام کی قسمت کو بدل کر انھیں خوشحال ملکوں کی صف میں کھڑا کر دیتا ہے اور یوں وہ قوم عزت و تو قیر کی حق دار ٹھہرتی ہے اور ان کی شا ن و شوکت کے ڈنکے ہر سو سنا ئی دیتے ہیں۔

متحدہ عرب امارات 2 دسمبر ۱۷۹۱ کو دنیا کے نقشے پر ایک آزاد ملک کی حیثیت سے معرض وجود میں آیا۔ شیخ زاید بن سلطان النہیان اس کے پہلے صدر منتخب ہوئے اور پنی خداداد صلاحیتوں سے امارات کو شاہراہِ ترقی کی ایک ایسی راہ پر گامزن کر دیا جس پر اہل جہاں آج تک انگشت بد نداں ہیں۔ انتہائی مختصر مدت میں محیرالعقول ترقی شیخ زاید بن سلطان ا لنہیان کی فقید المثال قیادت کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔ متحدہ عرب امارات اپنی ترقی کی بدولت ایک ایسے منارہ ِنور کا روپ اختیار کر چکا ہے جس سے امن ، خوشحالی، بیداری اور خود داری کی دلپذیر کرنیں پھوٹ رہی ہیں۔ اس کی عمارتیں ، اس کی سڑکیں ، اس کی مساجد ، اس کے ہوٹل ، اس کے ہسپتال ، اس کے ایئر پورٹ ، اس کے ساحل اور اس کے باغات اپنی مثال آپ ہیں۔ ریت سے اٹے ہوئے بے آب و گیاہ صحرا کو جس خوبصورتی سے سر سبز و شاداب باغات میں بدلا گیا ہے وہ شیخ زاید بن سلطان النہیان کی دورس نگاہوں کا کمال ہے۔ یو اے ای کی دھرتی پر پہلی دفعہ قدم رکھیں تو ایسے محسوس ہو تا ہے جیسے کوئی نئی نویلی دلہن اپنے حسن و جمال سے ہر ایک کو سحر زدہ کر رہی ہے۔ یو اے ای کیا ہے صحرا میں کھلا ہو ا ایک خوبصورت پھول جس میں شیخ زاید بن سلطان النہیان کا خونِ جگر شا مل ہے۔

یہ بڑ ا عجیب و غریب لگتا ہے کہ متحدہ عرب امارات کی سرزمین جس کے ہاں نہ زرا عت ہے نہ پینے کا صاف پا نی ہے نہ صنعتوں کا جال ہے، نہ فنی لحا ظ سے جس کا دنیا میں کو ئی خاص مقام ہے اور نہ ہی جس کی اپنی بڑی آبادی ہے۔لیکن اس کے با وجود متحدہ امارات اپنی ترقی کی بدولت دنیا میں ایک مثالی ملک کی حیثیت اختیار کر گیا ہے۔ یہ آئین قا نون اور اس کی عملد اری کا ایسا حسین مرقع ہے کہ لو گوں کی نگا ہیں چند ھیا گئی ہیں۔ عدا لتی نظام میں کسی کو مدا خلت کا کو ئی حق حا صل نہیں ہے۔ عدا لتیں آزادانہ ما حول میں فیصلے کرتی ہیں جن پر حکو مت من و عن عمل پیرا ہو تی ہے۔ کسی کا صا حبِ حیثیت ہو نا یا دولت مند ہو نا اسے قا نون کی گرفت سے نہیں بچا سکتا۔ کسی کو قانون شکنی کی اجازت نہیں ہے اور اگر کو ئی ایسا کرنے کی جرات کرتا ہے تو قانون پو ری قوت سے حرکت میں آکر قانون شکنوں سے پو ری قوت سے نبر آزما ہو کر انھیں کیفرِ کردار تک پنچا تا ہے۔ خوا تین کا ا حترام یہاں کے معاشرے کا سب سے امتیا زی نشان ہے۔ عورتیں تن تنہا شاپنگ کرتی ہیں دفتروں میں کام کرتی ہیں اور اپنے فرائضِ منصبی کے لئے گھر سے باہر نکلتی ہیں تو با لکل محفوظ و ما مون۔ زیورات سے لدی پھدی خوا تین بازا روں میں یوں بے خوف و خطر پھر رہی ہو تی ہیں جیسے یہاں پر زیورات پر نگاہِ غلط ڈا لنے وا لا کو ئی ایک بھی شخص بھی مو جود نہیں ہے۔ رات کا اندھیرا انکے تحفظ میں کو ئی رکا وٹ پیدا نہیں کرتا اور نہ ہی انھیں خوف زدہ کرتا ہے۔ وہ ایسے آزادانہ گھومتی ہیں جیسے پوری ریاست انکے تحفظ کے لئے چاق و چو بند کھڑی ہے اور وہ انکے قائم کردہ محفوظ حصار کے اندر خفظ و امان میں ہیں۔ یو اے ای میں حوا کی بیٹی کو مکمل احترام، تقدس اور فخر کے ر وپ میں دیکھا جا سکتا ہے۔

امن و امان کی حالت کا تو احوال ہی نہ پو چھئے۔ نہ کہیں پہ دھماکے نہ ہی بد امنی اور نہ ہی کو ئی لوٹ مار کا عنصر۔ راوی ہر طرف چین ہی چین لکھتا ہے ۔ بڑے بڑے طورخم خان یو اے ای میں دا خل ہو تے ہی ایسے دکھا ئی دیتے ہیں جیسے ا ن سے زیا دہ شریف آدمی اس دھرتی پر کو ئی دوسرا نہیں ہے وہ قطاریں جنھیں وہ اپنے ملک میں توڑنے کی مہا رت رکھتے اور ا نھیں توڑنے پر فخر محسوس کرت تے ہیں یہاں پر ہر چیز کے لئے قطار میں ایسے کھڑ ے ہو تے ہیں جیسے ا نھوں نے قطار کے نظام سے کبھی بغاو ت ہی نہیں کی۔ اسے بخو بی علم ہے کہ قانون شکنی کی صورت میں اسے پولیس کی آہنی گرفت سے چھڑا نے کے لئے کسی کا اثرو رسو خ، عہدہ اور پیسہ با لکل کام نہیں آئے گا ۔ یہاں پر بڑے بڑے ہجوم کو کنٹرول کرنے کے لئے پو لیس کا ایک سپا ہی کافی ہو تا ہے کیو نکہ یہاں قانون کی حکمرا نی ہے۔

آپ متحدہ عرب اما رات میں دا خل ہو ں گے تو آپ کو احساس ہو گا کہ آپ یورپ کے کسی ملک میں گھوم رہے ہیں۔ صاف اور کشاد ہ سڑکیں۔ فلک بوس عمارتیں۔ بہترین درس گا ہیں،یو نیورسٹیاں۔ ٹر یفک کا انتہا ئی جد ید اور سرعت آمیز نظام۔ ایک طرف آپ کو دنیا کی سب سے بلند عمارت برج شیخ خلیفہ نظر آئے گی تو ساتھ ہی آپکی نظر خو بصورت ترین مساجد پر بھی اٹھ جا ئے گی۔ شیخ زاید مسجد پو ری دنیا کی توجہ کا مرکز بنی ہو ئی ہے اس کی دلکشی اور خو بصورتی ہر ایک کو اپنے سحر میں جکڑ رہی ہے۔ بڑے بڑے پلازے اور شا پنگ مال یہاں کی خاص پہچان ہیں جن میں لوگ آپ کو شاپنگ کرتے ، گھو متے اور انجوا ئے کرتے ہو ئے نظر آئیں گے۔ مہ جبینوں کی رعنا عیو ں سے بھر پور فرط و مسرت کا ایک پر کشش اور جاذبِ نظر نظارہ نو جوانوں کے دلوں میں ہلچل مچا د یتا ہے لیکن یہاں کا قانون کسی کو کوئی بھی نا زیبا حرکت کرنے، سیٹیا ں بجا نے یا اشارے کرنے کی اجازت نہیں دیتا لہٰذا یہاں پر دل کے ارمان د ل میں ہی رہ جا تے ہیں۔ نازنینوں پر نگا ہِ عشق غیر ارادی طور پر اٹھ ضرور جا تی ہے لیکن پھر ناکا م و نا مراد ہو کر واپس بھی لوٹ آتی ہے کہ اس سے آگے کی ا جا زت نہیں ۔ نہ آوازیں کسی جا سکتی ہیں، نہ ہی کسی کا پیچھا کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی کسی کی جانب کو ئی رقعہ اچھا لا جا سکتا ہے کیونکہ ڈیو ٹی پر موجود پولیس والا خوفناک نظروں سے سب پر نگاہ رکھے ہو ئے ہو تا ہے۔ اور اس کی نگا ہوں کا سامنا کرنے کی یہاں کسی میں ہمت نہیں ہے۔

متحدہ عرب امارات میں دولت کی ریل پیل نے انسانی اوصاف کو پراگندہ کرنے کی بجائے اخوت، محبت اور مساوات کے جذبوں کو جلا بخشی ہے۔ دروازوں پر کو ئی دربان نہیں، اسلحہ بردار گارڈز نہیں ، غرور و تمکنت کا بھوت نہیں ، ذات پات کی تقسیم نہیں ، اعلیٰ اور ادنیٰ کا تصور نہیں اور مافوق البشر ہونے کا خمار نہیں۔ خاک نشینی انکی پہچان ہے اور خاک نشینی کو وہ اپنے لیے باعث فخر سمجھتے ہیں۔ دولت پرستی اور دولت کی ہوس سے کوسوں دور حاجت رواﺅں کی حا جت روائی میں زندگی کی خو شیاں تلاش کرنے والے امارتی ا نسا نی فلاح و بہبود پرمال و زرو جوا ہر لٹا تے ہو ئے نظر آتے ہیں۔ انسانیت کی خدمت اور ضرورت مندوں کی حاجت روائی انکا طرہِ امتیاز ہے اور وہ یہ سب کچھ انتہا ئی سادگی اور راز داری سے کرتے ہیں۔

اسلامی کلچر کی تخلیق کردہ برابری اور مساوات کی روح میں رچے بسے اماراتی آپ کو ہر جانب محبتوں کی دولت لٹاتے نظر آئیں گے۔ محبتوں کا یہ وصف انہیں اپنے عظیم قائد شیخ زاید بن سلطان النہیان سے ورثے میں ملا ہے۔ دولت لٹانا اور حاجت مندوں کی حاجت روائی کرنا شیخ زاید بن سلطان النہیان کا طرہ امتیاز تھا اور یہ وصف ہر اماراتی کی ذات کے اندر ستاروں کی مانند جھلمل جھلمل کرتا نظر آتا ہے۔ رو ئے جہاں پر کو ئی ایسا گو شہ نہیں جہاں پر شیخ زاید بن سلطان النہیاں کی جو دو سخا کے رنگ نہ بکھرے ہوں وہ خوشبو کی مانند ہر درد مند دل کے اندر بسیرا کئے ہو ئے ہے۔ مساجد، ہسپتال، ٹرسٹ، یونیورسٹیاں اور فلا ح و بہبود کے بے شمار ادارے زبانِ حال سے پکار پکار کر کہہ رہے ہیں کہ اے جہاں والو دیکھو ہم شیخ زاید بن سلطان النہیان کا وہ ورثہ ہیں جو اس کی عظمتوں کا منہ بو لتا ثبوت بھی ہے اور اس بات کا بر ملا اعلان بھی ہے کہ وہ ایک ایسا انسان دوست شخص تھا جس جیسا دوسرا شخص صدیوں میں کبھی کبھی پیدا ہو تا ہے بقولِ اقبال ۔
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے۔۔ بڑی مشکل سے ہو تا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا ۔

پاکستانیوں اور ا ما راتیوں کے درمیان دوستی اور محبت کا ایک مضبوط رشتہ قائم ہے لہذا پاک امارا ت دوستی ایک ایسی حقیقت ہے جس پر تمام پاکستانی بجا طور پر فخر کر سکتے ہیں۔ صدیوں کے ثقافتی اور اسلامی رشتوں میں بندھے ہونے کی وجہ سے پاکستان اور امارات کے درمیان دوستی اور احترام اور محبت کا ایک جذبہ ہمیشہ سے موجود تھا لیکن ذوالفقار علی بھٹو اور عزت مآب شیخ زاید بن سلطان النہیان نے جس طرح ان جذبوں کو ا ٹو ٹ دوستی میں بدل دیا وہ ان کی بالغ نظری کا نقطئہ کمال تھا۔ متحدہ عرب امارات کی ترقی میں پاکستانیوں نے اپنا خون پسینہ دیا ہے لہٰذا امارات سے محبت ایک فطری عمل ہے۔ پاکستان اگر ہماری دھرتی ماں ہے تو امارات ہمارا دوسرا گھر ہے جس کی ترقی اور استحکام ہر پاکستانی کو عزیز ہے ۔ پر شکوہ عمارتیں، فلک بوس ٹاور، پلا زے، خوبصورت مسجدیں اور عظیم ا لجثہ پل پاکستانیوں کی محنت کی منہ بولتی تصویریں ہیں اور یہ تصویریں پاکستانیوں کو اپنی جان سے عزیز تر ہیں۔ امارات میں رہنے والا ہر پاکستانی امارات کی ترقی اور استحکام کے لئے دل کی اتھاہ گہرائیوں سے دعا گو رہتا ہے کیونکہ اے یقین ہے کہ امارات کی ترقی در حقیقت پاکستان کی ترقی ہے۔
Tariq Hussain Butt
About the Author: Tariq Hussain Butt Read More Articles by Tariq Hussain Butt: 619 Articles with 448865 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.