اندر کا انسان

ایک شخص کسی گناہ کا عادی ہوگیا تھا، وہ اُسے لوگوں کی نظروں سے چھپاتا رہا مگر ایک روز کسی بزرگ نے اُسے دیکھ لیا، وہ شخص بہت شرمندہ ہوا اور ایک کونے میں بیٹھ کر سوچنے لگا، مجھے اِس بزرگ کے سامنے اِس قدر شرمندگی اٹھانی پڑی، کاش اس کی مجھ پر نظر نہ پڑی ہوتی، اُس بزرگ نے اس کی یہ بات سن لی اور اُس کے پاس جا کر کہا ’’ اے نوجوان! تجھے اپنے آپ سے اور اپنے خدا سے شرم آنی چاہئے تھی، وہ تو آتی نہیں پھر مجھ سے کیوں شرمندہ ہوتا ہے اور تو یہ کیوں نہیں جانتا کہ اﷲ تو ہر جگہ موجود ہے، ہمارے ظاہر اور باطن کو دیکھتا ہے، اُسے وہ معلوم ہے جو ہم سامنے ہیں اور وہ بھی جو ہم چھپ کر کرتے ہیں‘‘۔ اُس نوجوان نے بزرگ کی بات پر کوئی توجہ نہ دی تو اُس بزرگ نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا، ’’اﷲ کے سوا کوئی نفع نہیں پہنچا سکتا، اِس لیے اﷲ کی خوشنودی کا خیال ہی بہتر ہے، گناہ کرتے ہوئے شرم تو اﷲ سے آنی چاہئے‘‘۔ اگر یہ بات سمجھ آجائے تو انسان گناہ کا ارتکاب کرنے سے رُک جاتا ہے کہ اﷲ اُسے دیکھ رہا ہے، آج افسوس اِس بات کا ہے کہ ہم نہ صرف اپنے آپ کو بھول گئے ہیں بلکہ اپنے خالق کو بھی بھولے بیٹھے ہیں، اگر ہم اپنے اندر کے انسان کو پہچان لیں تو انسانیت کی معراج تک پہنچنے میں کوئی اَمر مانع نہیں، ہمارے اوپر خود غرضی کا اور دکھاوے کا خول چڑھا ہوا ہے جو اندر کے انسان کے بار بار ہمیں یاد دہانی کے باوجود ہم جھوٹی اَنا پرستی کی دلدل میں دھنستے چلے جارہے ہیں۔ ہم سب کا اندر بھی ایک ہے اور باہر بھی ایک، زندگی کے یہ دوروپ ہر انسان بڑی کامیابی سے نبھاتاہے لیکن اصل روپ وہی ہے جسے ہم سب سے چھپاتے ہیں۔ڈٹ کے کھانا ہم سب کو پسند ہے لیکن ڈائٹنگ فیشن کا حصہ ہے اسی لیے کچھ لوگ بے شک ڈیڑھ کلو کڑاہی کے ساتھ چھ نان کھا جائیں کولڈ ڈرنک منگواتے وقت بیرے کو تاکید کرتے ہیں کہ ڈائٹ یا زیرو لانا۔ہماری اکثریت میٹھا بھی پسند کرتی ہے لیکن فیشن کے لحاظ سے میٹھا سوٹ نہیں کرتا اس لیے جو لوگ چائے کے ساتھ جلیبیاں بھی کھا رہے ہوں وہ بھی احتیاطاً کہہ دیتے ہیں پلیز چینی نہ ڈالیے گا میں پھیکی چائے پیتا ہوں۔ باہر کے انسان کو نبھانے کے لیے بھی کیا کیا جتن کرنا پڑتے ہیں ،باہر کے انسان کو بناوٹی گفتگو کی بھی بیماری ہوتی ہے۔اس کے سامنے پیزا اور دال چاول رکھ دئیے جائیں تو یہ کھاتا تو پیزا ہے لیکن اندر کے سارے ووٹ دال چاول کی طرف جارہے ہوتے ہیں۔ یہ باہر چلی ساس کھاتا ہے لیکن گھر میں فرمائش ہوتی ہے کہ ہر کھانے کے ساتھ کچی ہری مرچ ضرور رکھی جائے۔یہ سٹور سے کاٹن بڈ خریدتا ضرور ہے لیکن کان خواتین کے بالوں والی پِن،ماچس کی تیلی یاگاڑی کی چابی سے ہی صاف کرتاہے۔اس کے باتھ روم میں ٹوتھ پیسٹ ضرور موجود ہوتاہے لیکن کہیں پیچھے کرکے منجن بھی رکھا ہوتاہے۔یہ ہاضمے کے لیے ہر کھانے کے بعد واک ضرور کرتاہے لیکن سونے سے پہلے پھکی کھانا نہیں بھولتا۔دنیا والوں کے سامنے اِسے شیمپو پسند ہوتاہے لیکن گھر میں ہو تو مشورے دے رہا ہوتاہے ، ’’بیگم !بیسن سے بال کتنے اچھے دُھلتے ہیں‘‘، جواب میں فیشن ایبل بیگم بھی بڑے اعتما د سے بتا رہی ہوتی ہے ’’ایک دفعہ لسی سے بھی دھو کر دیکھو‘‘۔

اندر کا کھرا انسان بڑا سادہ ہوتاہے یہ باہر والے انسان سے بالکل الٹ ہوتاہے۔یہ لاکھ فیشن ایبل ہوجائے پھر بھی اسے باتھ ٹب سے زیادہ بالٹی سے نہانے میں مزا آتاہے۔یہ دنیا داری نبھانے کے لیے پینٹ تو پہنتا ہے لیکن جس دن شلوار قمیص پہن لے اس دن عجیب سی شخصی آزادی کے احساس سے سرشار رہتاہے۔بظاہر اسے دیکھ کر لگتا ہے کہ یہ سونے سے پہلے بھی شیو کرتاہوگا بال سنوارتا ہوگا۔ لیکن جس دن اسے چھٹی ہوتی ہے یہ الجھے بالوں کے ساتھ گال کھجاتا ریلیکس محسوس کر رہا ہوتاہے۔یہ باہر کا انسان جو گھر سے نکلتے وقت اپنے کپڑوں پر ایک شکن برداشت نہیں کرتا گھر میں رات کو سوتے وقت بیوی سے لڑ رہا ہوتا ہے کہ میری پھٹی پرانی شرٹ کیوں دھلوائی ہے اسی میں مجھے اچھی نیند آتی ہے۔ فیشن ہماری نیت کو نہیں بھر سکتا ہم کسی چائینز ریسٹورنٹ میں ’’پران‘‘ کھا تو سکتے ہیں لیکنپسند نہیں کر سکتے۔بلیک فارسٹ کیک ہمارے باہر کے انسان کو پسند آسکتا ہے لیکن اندر کا انسان خطائی اور کریم والے بسکٹ مانگتاہے۔ہم بڑی کوشش کرتے ہیں کہ اندرکا انسان سلائڈزکہنا سیکھ جائے لیکن اندر والا گھیسیاں کہنے پر ہی خوش ہوتاہے۔ہم دنیا کے سامنے ہوں تو ذرا سی چوٹ لگنے پر ’’آؤچ‘‘ کہتے ہیں لیکن اکیلے ہوں تو بے ساختہ منہ سے یہی نکلتا ہے ’’ہائے میں مرگیا‘‘۔باہر کا انسان کہتا ہے کوئی اچھی چیز دیکھ کر’’وا ؤ‘‘کہو۔۔۔اندر کا انسان کہتا ہے ’’ایتھے رکھ!‘‘ زیادہ بہتر ہے۔اس باہر کے انسان کی فرمائشیں پوری کرتے کرتے ہمارے بیڑے غرق ہوگئے ہیں ۔ہر وقت یہی خوف لاحق رہتا ہے کہ کہیں لوگ مذاق نہ بنا لیں۔ حالانکہ سب ایک جیسے ہیں سب وہی چاہتے ہیں جو ہم چاہتے ہیں۔جن لوگوں نے اس رمز کو پا لیا ہے انہوں نے بڑے طریقے سے فیشن کے اندر ہی روایت کے لیے بھی جگہ بنا لی ہے یاد کیجئے چائے میں بسکٹ ڈبو کر کھانا جاہلیت کی علامت سمجھا جاتا تھا آج کل ٹی وی کے اشتہاروں میں خوشنما لوگ نہ صرف چائے میں بسکٹ ڈبو کر کھاتے نظر آتے ہیں بلکہ بچوں کو بھی سکھا رہے ہوتے ہیں کہ یوں کرکے بسکٹ ڈبونا ہے اور پھر یوں کرکے منہ میں ڈالنا ہے۔لچھے اب کاٹن کینڈی کے نام سے دستیاب ہیں اورساری دیسی چیزوں کوآرگینک فوڈ کا نام دے کر اپنا لیا گیا ہے۔ہائے لیکن میرے جیسے تاریک راہوں میں مارے گئے ہیں۔ ہم پھونک پھونک کر ایلیٹ کلاس میں قدم رکھتے ہیں اورپوری کوشش کرتے ہیں کہ کوئی پہچان نہ لے کہ ہم نے پینٹ کی فٹنگ ٹھیک کروائی ہے۔ہمارے باہر کا انسان اتنا خوفزدہ ہے کہ ہمیں لگتاہے جس دن اس کی مرضی کے خلاف کوئی بات ہوئی دنیا ہم پر ہنسے گی۔۔۔’’اب تو آئینہ بھی ہمیں ہمارا اصل نہیں دکھاتا‘‘۔

خدا کیلئے اپنے اندر کے انسان کے پنجابیئے اور اصل کی طرف واپس لوٹ آئیے، آپ دنیا کو تو اپنی کرتوتوں سے دھوکہ دے سکتے ہیں مگر اگر آپ یہ یقین کر لیں کہ اﷲ تو ہمیں دیکھ رہا ہے،پھر اس بناوٹی زندگی سے نجات مممکن ہے، جب یہ چیز ہمارے رگ و پے میں سرایت ہو جائے گی، تو ہم بے شمار معاشرتی برائیوں اور آج کے دور کی بیماریوں سے بچ جائیں گے۔

Attique Yousuf Zia
About the Author: Attique Yousuf Zia Read More Articles by Attique Yousuf Zia: 30 Articles with 25396 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.