امر بالمعروف اور نہی عن المنکر

اﷲ تعالیٰ نے اپنے دین کی تبلیغ و اشاعت کا سلسلہ انبیائے کرام سے شروع کروایا۔ تکمیل دین تاجدار ختم نبوت حضرت محمد مصطفےٰ ﷺ نے فرمائی ۔حضور خاتم الانبیاء ﷺ کے بعد یہ سلسلہ تبلیغ دین اولیائے کرام کے ذریعے تا قیامت جاری رہے گا۔

تبلیغ دین کے فریضۂ عالی شان میں نیکی کا حکم دیا جاتا ہے اور برائی سے منع کیا جاتا ہے ۔چونکہ نیکی جنت میں لے جاتی ہے اور برائی دوزخ میں یہ فرض ہر سطح کے مسلمان مرد و عورت کیلئے ہے کہ وہ اپنے حلقہ میں دین اسلام کے سنہری اصولوں کی تبلیغ کر کے عوام و خواص کو نیکی کی طرف راغب کر لے اور برائی سے روکے ۔قرآن و سنت میں اس کی بڑی فضیلت آئی ہے ۔ لہٰذا اسی سلسلہ میں تنبیہ الغافلین کے حوالے سے امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی فضیلت و برکت نظر قارئین ہے۔

نیکی کا حکم کرنا اور برائی سے روکنا:فقیہ ابو اللیث سمر قندی رحمۃ اﷲ علیہ اپنی سند کے ساتھ حضرت عمر بن عبد العزیز رحمۃ اﷲ علیہ کا یہ قول نقل کرتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ بعض لوگوں کے اعمال کی وجہ سے تمام لوگوں کو عذاب نہیں دیتا ۔ البتہ جب گناہ کھلے بندوں کئے جائیں اور روکنے والا کوئی نہ ہو تو تمام قوم عذاب کے لائق ہو جاتی ہے اور آپ نے یہ بھی ذکر کیا کہ اﷲ تعالیٰ نے یوشع بن نون علیہ السلام کو وحی بھیجی کہ میں تیری قوم میں سے چالیس ہزار اچھے لوگوں کو اور ساٹھ ہزار برے لوگوں کو ہلاک کروں گا۔ انہوں نے عرض کیا یا اﷲ برے تو برے ہیں نیکوں کو ہلاک کرنے کی وجہ کیا ہے ؟ارشاد ہوا کہ انہوں نے میرے لئے کبھی غصہ نہیں دکھایا بلکہ بروں کے ساتھ ہم پیالہ وہم نوالہ بنے رہے ۔ حضرت انس بن مالک رضی اﷲ عنہ نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو نیکی کے پھیلنے کا اور برائی کو روکنے کا ذریعہ ہوتے ہیں اور کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو برائی کے پھیلنے کا اور بھلائی کی رکاوٹ کا ذریعہ ہوتے ہیں ۔سو مبارک ہو ان لوگوں کیلئے جنہیں اﷲ تعالیٰ نے خیر کے پھیلنے کا ذریعہ بنایا اور ہلاکت ہے ان لوگوں کیلئے جو برائی پھیلانے پر ہو گئے ۔حاصل یہ کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنے والا بھلائی کو پھیلاتا ہے اور برائی کیلئے رکاوٹ ہے اور وہ مومنین میں سے ہے ۔ارشاد خدا وندی ہے ’’اور مومن مرد اور مومن عورتیں ایک دوسرے کے مددگار ہیں ۔نیک بات سکھلاتے اور برائی سے منع کرتے ہیں۔‘‘(القرآن )

اور جو برائی پر لوگوں کو لگاتا اور بھلائی سے روکتا ہے وہ اپنے میں منافقوں والی علامات رکھتا ہے جیسا کہ اﷲ تعالیٰ کا ارشاد مبارک ہے ’’منافق مرد اور منافق عورتیں سب ایک جیسے ہیں۔بری بات سکھاتے ہیں اور بھلائی سے روکتے ہیں۔‘‘(القرآن )

امیر المؤمنین حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اﷲ عنہ کا ارشاد ہے کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر بہترین عمل ہے اور فاسق کو جلانے والا ہے ۔ پس امر بالمعروف کرنے والا مومن کی پشت پناہی کرتا ہے اور نہی عن المنکر کرنے والا منافق کو ذلیل کرتا ہے ۔

سب سے زیادہ محبوب عمل:حضرت قتادہ رضی اﷲ عنہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی بارگاہ نبوت میں حاضر ہوا جب کہ آپ مکہ میں تھے ۔کہنے لگا کہ آپ ہی ہیں جو اﷲ کا رسول ہونے کا دعویٰ رکھتے ہیں ؟ارشاد فرمایا ہاں!سائل نے پوچھا کہ اﷲ تعالیٰ کے ہاں سب سے زیادہ محبوب عمل کیا ہے ؟فرمایا اﷲ تعالیٰ پر ایمان لانا ۔ پوچھا پھر کونسا؟ ارشاد فرمایا صلہ رحمی کرنا۔ عرض کیا پھر کونسا ؟ ارشاد فرمایا بھلائی کی تلقین کرنا اور برائی سے روکنا۔ پھر پوچھا کہ حق تعالیٰ کے ہاں سب سے ناپسندیدہ عمل کونسا ہے ؟ ارشاد فرمایا شرک کرنا ۔ سائل نے عرض کیا پھر کونسا ؟ فرمایا قطع رحمی کرنا ۔سائل نے پھر پوچھا کہ اس کے بعد کون سا عمل برا ہے ؟ فرمایا امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو چھوڑ دینا۔ حضرت سفیان ثوری رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ جب کسی عالم کو دیکھو کہ وہ ہمسایوں میں محبوب ہے ،برادری والے اس کی تعریف کرتے ہیں تو یقین کر لو کہ وہ شخص مداہن ہے۔(مداہن:حق تبلیغ ادا نہ کرنے والا)

حضرت جریر رضی اﷲ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جس قوم میں کوئی گناہوں کا ارتکاب کرتا ہے اور لوگ طاقت کے باوجود اسے روکتے نہیں ہیں تو مرنے سے پہلے پہلے وہ لوگ عذاب میں مبتلا ہو جاتے ہیں ۔ فقیہ رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ کا قدرت کی شرط لگانے کا مطلب یہ ہے کہ جب معاشرہ یا ماحول میں نیک لوگوں کا غلبہ ہو تو ان پر واجب ہے کہ وہ معصیت کرنے والوں کو روکیں جب کہ وہ اعلانیہ طور پر معصیت کرنے لگیں ۔اﷲ تعالیٰ نے قرآن پاک میں اس امت کی تعریف اسی وصف کی وجہ سے فرمائی ہے ۔ارشاد پاک ہے :’’تم ہو بہتر سب امتوں سے جو بھیجے گئے عالم میں ۔حکم کرتے ہو اچھے کاموں کا اور منع کرتے ہو برے کاموں سے اور ایمان لاتے ہو اﷲ پر اور اگر ایمان لاتے اہل کتاب تو ان کیلئے بہتر تھا ۔کچھ تو ان میں سے ہیں ایمان پر اور اکثر ان میں نا فرمان ہیں۔‘‘(القرآن )

بعض علماء فرماتے ہیں کہ آیت کا مطلب یہ ہے کہ لوح محفوظ میں تمہیں بہترین امت کے لکھا گیا ہے جسے لوگوں کیلئے بنایا گیا یعنی اﷲ تعالیٰ نے اسی مقصد کیلئے تمہیں بنایا ہے کہ تم لوگوں کو بھلائی کا حکم کرتے ہو اور اہل معاصی کو معصیت سے روکتے ہو ۔ ’’المعروف‘‘ وہ کام ہے جو اﷲ تعالیٰ کی کتاب اور عقل سلیم کے موافق ہو اور ’’المنکر‘‘ وہ کام ہے جو کتاب اﷲ کے خلاف ہو اور عقل سلیم بھی اسے پسند نہ کرے ۔ایک اور آیت میں ارشاد ہے :’’اور چاہے کہ رہے تم میں ایک جماعت ایسی جو بلاتی رہے نیک کام کی طرف اور حکم کرتی رہے اچھے کاموں کا اور منع کرتی رہے برائی سے اور وہی لوگ پہنچنے والے ہیں مراد کو۔‘‘(القرآن)

شروع آیت میں لام امر لگا ہوا ہے یعنی تم میں سے ایک ایسی جماعت ہونی چاہیے جو بھلائی کا حکم کرے اور برائی سے روکتی ہو ۔اور اسی فریضہ کو چھوڑنے پر اﷲ تعالیٰ نے اقوام سابقہ کی مذمت فرمائی ہے ۔ارشاد پاک ہے :’’آپس میں منع نہ کرتے برے کام سے جووہ کر رہے تھے۔‘‘

یعنی جن برائیوں کا وہ لوگ ارتکاب کرتے تھے باہم ایک دوسرے کو ان سے روکتے نہیں تھے ۔اور ان کا یہ عمل بہت برا تھا ۔ایک اور آیت میں ہے :’’کیوں نہیں منع کرتے ان کے درویش اور علماء گناہ کی بات کہنے سے اور حرام کھانے سے ۔بہت ہی برے عمل ہیں جو وہ کر رہے ہیں ۔‘‘(القرآن)

یعنی اہل علم اور نیک لوگوں کو انہیں برے کلام اور گندے کاموں سے روکنا چاہیے تھا ۔ تو کیوں نہ روکا ؟ یقینا انہوں نے بہت برا کیا ۔مناسب ہے کہ بھلائی کی دعوت و تبلیغ تنہائی یا پوشیدگی میں ہو سکے تو یونہی کرے کہ یہ موثر طریق ہے ۔حضرت ابو درداء رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں جس کسی نے اپنے بھائی کو اعلانیہ نصیحت کی اس نے اسے رسوا کیا اور جس کسی نے چپکے سے کی تو اسے زینت بخشی ۔اگر پوشیدہ وعظ موثر ثابت نہ ہو تو اعلانیہ کرے بلکہ دوسرے نیک لوگوں سے بھی تعاون حاصل کرے کہ سب مل کر اسے برائی سے روکیں ۔اگر ایسا نہ کریں ھے تو اہل معصیت ان پر غالب آجائیں گے اور سب کے سب عذاب کی لپیٹ میں آجائیں گے ۔

ترک تبلیغ کا نتیجہ:حضرت نعمان بن بشیر رضی اﷲ عنہما فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اﷲ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ اﷲ تعالیٰ کے حقوق نرمی یا سستی کرنے والے اور ان حقوق کو ضائع کرنے والے اور ان کی حفاظت کرنے والے ان تین قسم کے لوگوں کی طرح ہیں جو ایک بحری جہاز میں سوار تھے ۔انہوں نے اس کی منزلیں باہم تقسیم کر لیں ۔ایک کو بالائی ،دوسرے کو درمیانی اور تیسرے کو پہلی منزل ملی ۔سفر جاری تھا کہ ایک شخص کلہاڑا لے آیا ۔ساتھی کہنے لگے کہ کیا کرنا چاہتا ہے ؟کہنے لگا کہ اپنی منزل میں سوراخ کرنا چاہتا ہوں۔پانی بھی قریب ہو جائے گا اور دیگر حاجات کیلئے بھی آسانی رہے گی ۔اب بعض لوگ تو یوں کہنے لگے کہ اسے دفع کرو ،اپنے حصہ کی منزل میں جو چاہے کر ے ۔دوسرے بولے ہر گز ایسا نہ کرنے دو ورنہ یہ ہمیں بھی لے ڈوبے گا اور خود بھی غرق ہو گا۔ پس اگر وہ اس شخص کا ہاتھ پکڑتے ہیں تو وہ خود بھی بچتا ہے اور یہ لوگ بھی بچتے ہیں اور اگر اسے چھوڑتے ہیں تو وہ خود بھی ہلاک ہوگا اور انہیں بھی ہلاک کرے گا۔

حضرت ابو درداء رضی اﷲ عنہ کا ارشاد ہے کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرتے رہو ورنہ اﷲ تعالیٰ تم پر ایسا ظالم حاکم مسلط کر دے گا جو نہ کسی بڑے کی تعظیم کا خیال کرے گا اور نہ چھوٹے پر رحم کھائے گا اور تمہارے نیک لوگ دعائیں بھی کریں گے تو قبول نہ ہوں گی اور مدد مانگیں گے تو مدد نہ کی جائے گی اور بخشش چاہیں گے تو بخشش عطا نہ ہو گی ۔حضرت حذیفہ رضی اﷲ عنہ حضور اکرم ﷺ کا ارشاد مبارک نقل کرتے ہیں کہ اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے ،تم امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ضرور کرتے رہو ورنہ بعید نہیں کہ اﷲ تعالیٰ تم پر اپنا عذاب بھیج دے ،پھر تم دعائیں بھی مانگو گے تو قبول نہ ہوں گی ۔ حضرت علی رضی اﷲ عنہ نبی کریم ﷺ کا فرمان نقل کرتے ہیں کہ میری امت جب ظالم کو ظالم کہنے سے خوف کھانے لگے تو ان سے الگ ہو جاؤ۔

حضرت ابو سعید خدری رضی اﷲ عنہ حضور اکرم ﷺ کا ارشاد نقل کرتے ہیں کہ تم میں سے کوئی شخص جب کسی برائی کو دیکھے تو اسے اپنے ہاتھ سے روکے ،ایسا نہ کر سکے تو زبان سے روکے اور یہ بھی نہ کر سکے تو دل سے برا جانے اور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے ،یعنی اہل ایمان کا یہ کمزور ترین عمل ہے ۔بعض علماء کہتے ہیں کہ ہاتھ سے روکنا امراء حکام کا فریضہ ہے اور زبان سے روکنا اہل علم کا اور دل سے برا سمجھنا اور بیزاری دکھانا عام لوگوں کا عمل ہے اور بعض حضرات کا کہنا ہے کہ جو شخص بھی ان تینوں درجوں میں سے کسی پر قدرت پائے لازم ہے کہ اسے اختیار کرے ۔

امر بالمعروف سے دین کی برتری اور اﷲ تعالیٰ کی رضا مقصود ہو:فقیہ رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ امر بالمعروف کرنے والے کو چاہئے کہ اس عمل سے اﷲ تعالیٰ کی رضا اور دین کی برتری کا قصد کرے ،اپنی کوئی غرض پیش نہ ہو کیونکہ اﷲ تعالیٰ کی رضا اور دین کی برتری مقصود ہو گی تو اس عمل کی توفیق اور نصرت خدا وندی حاصل ہو گی ۔اگر کوئی نفسانی غرض آگے رکھی تو اﷲ تعالیٰ اسے اپنی مدد سے محروم کر دیتا ہے ۔حضرت عکرمہ رحمۃ اﷲ علیہ راوی ہیں کہ ایک آدمی ایک درخت کے پاس سے گزرا جس کی لوگ پوجا کر رہے ہیں ۔ایک دن کلہاڑا پکڑ کر گدھا پر سوار ہو کر اس درخت کی جانب چل دیا کہ اسے کاٹ ڈالے ۔راستے میں ابلیس لعین انسانی شکل میں ملا اور پوچھنے لگا کہ کدھر جا رہے ہو؟ یہ شخص بولا میں نے ایک درخت دیکھا ہے کہ لوگ اس کی پوجا کرتے ہیں ۔میں نے اﷲ تعالیٰ سے عہد کیا ہے کہ گدھے پر سوار ہو کر وہاں جاؤں گا اور اسے کلہاڑے سے کاٹ ڈالوں گا۔ ابلیس کہنے لگا بھلا تجھے اس سے کیا غرض ؟ اس درخت کا خیال چھوڑ اور اس کے پجاریوں کو دفع کر ،ان کو خدا خود ہی سمجھ لے گا۔ دونوں میں تکرار ہونے لگی حتیٰ کہ دست و گریبان ہو گئے ۔ابلیس لعین عاجز آگیا اور یہ شخص اپنے ارادے پر پکا رہا ۔ یہ دیکھ کر ملعون شیطان کہنے لگا کہ تو واپس ہو جا ،میں تجھے روزانہ چار درہم دیا کروں گا۔ روزانہ اپنے بستر کا کنارہ اٹھا کر لے لیا کرنا۔ یہ شخص سن کر کہنے لگا کہ سچ کہتے ہو؟ وہ بولا میں بالکل اس کا ضامن ہوں۔ یہ شخص واپس آگیا اور حسب وعدہ دو تین دن تک چار درہم یومیہ وصول کرتا رہا ۔اس کے بعد ایک دن چادر اٹھائی تو نیچے سے کچھ نہ ملا اور اگلے روز بھی کچھ نہ ملا تو پھر کلہاڑا لے کر گدھے پر سوار ہو کر چلا ۔ابلیس پھر انسانی شکل میں سامنے آیا اور کہنے لگا کہاں کا ارادہ ہے ؟ یہ شخص بولا ایک درخت کی لوگ پرستش کرتے ہیں ،اسے کاٹنے جا رہا ہوں ۔ابلیس کہنے لگا کہ اب تو یہ کام نہیں کر سکتا کیونکہ تیرا پہلی بار کا جانا اﷲ تعالیٰ کے لئے تھا ۔اگر تمام زمین و آسمان والے بھی جمع ہو جاتے تو تجھے نہ روک سکتے ،اور اب تیرا جانا محض خود غرضی کا ہے کہ درہم نہیں ملے تو اٹھ کر چل دیا ہے ۔خبردار! اگر ذرا بھی آگے بڑھا تو تیری گردن مار دوں گا۔ یہ شخص چپکے سے واپس لوٹ گیا اور درخت کا خیال چھوڑ دیا۔

امر بالمعروف کیلئے پانچ چیزوں کی ضرورت:فقیہ رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ امر بالمعروف کرنے والے کو پانچ چیزوں کی ضرورت ہے پہلی چیز علم،کہ جاہل اس کام کو اچھی طرح نہیں کر سکتا۔ دوسری یہ کہ مقصد اﷲ تعالیٰ کی رضا اور دین کی برتری ہو ۔تیسری یہ کہ نرمی اور محبت کے ساتھ شفقت کا مظاہرہ کرے ،سخت اور تندخونہ بنے ۔اﷲ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ اور ہارون علیہم السلام کو فرعون کی طرف بھیجتے ہوئے فرمایا تھا۔’’کہ اس کے ساتھ نرمی سے بات کرنا۔‘‘(القرآن)

چوتھی یہ کہ صبر و تحمل اختیار کرے،اس لئے کہ اﷲ تعالیٰ نے حضرت لقمان رحمۃ اﷲ علیہ کے بیا ن میں فرمایا ہے :’’اور سکھلا بھلی بات اور منع کر برائی سے اور تحمل و صبرکر جوتجھ پر پڑے۔‘‘(القرآن)

پانچویں چیز یہ کہ جس بات کی دوسروں کو تلقین کرتا ہے ،خود بھی اس پر عمل کرتا ہوتا کہ لوگ اس کو خود عمل نہ کرنے کی عارنہ دلائیں اﷲ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ۔’’کیا حکم کرتے ہو لوگوں کو نیک کام کا اور بھولتے ہو اپنے آپ کو۔‘‘(القرآن)

حضرت انس ابن مالک رضی اﷲ عنہ حضور اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے معراج کے سفر میں ایسے لوگوں کو دیکھا جن کے ہونٹ قینچیوں سے کاٹے جا رہے تھے ۔میں نے جبریل سے پوچھا کہ یہ کون لوگ ہیں؟ جواب دیا کہ آپ کی امت کے خطیب ہیں جو لوگوں کو بھلائی کا حکم کرتے تھے اور خود اس پر عمل نہیں کرتے تھے۔ حضرت قتادہ رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم نے سنا ہے کہ تو رات میں لکھا ہوا ہے کہ اے آدم زاد! تو دوسروں کو میری یاد دلاتا ہے اور خود مجھے بھلاتا ہے ۔لوگو ں کو میری طرف بلاتا ہے اور خود مجھ سے بھاگتا ہے ۔یہ کیا غلط طریق ہے ؟

حضرت ابو معاویہ فرازی رضی اﷲ عنہ حضور اکرم ﷺ کا یہ ارشاد نقل کرتے ہیں کہ تم لوگ آج اﷲ تعالیٰ کے بیان کردہ طریقہ پر قائم ہو ،بھلائی کی دعوت دیتے ہو،برائی سے منع کرتے ہو ،اﷲ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرتے ہو ،لیکن ایک وقت آئے گا کہ تم اس طریق سے ہٹ جاؤ گے جب کہ تم میں دنیا کی محبت عام ہو جائے گی ،تو تم امر بالمعروف اور نہی عن المنکر نہیں کروگے ۔اﷲ تعالیٰ کی راہ کے ما سوا میں جدو جہد کرنے لگو گے ۔اس وقت پوشیدہ اور اعلانیہ اﷲ تعالیٰ کی کتاب پر قائم رہنے والے ان مہاجرین اور انصار کا درجہ پائیں گے جو اول اول ایمان لائے تھے اور دوسرے سے سبقت لے گئے تھے ۔

دین کی حفاظت کیلئے ہجرت کرنا:حضرت حسن بصری رضی اﷲ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جس شخص نے اپنے دین کی حفاظت کی غرض سے ایک علاقہ سے دوسرے علاقہ کی طرف ہجرت کی ،خواہ ایک بالشت ہی سفر کیا ہو تو اس نے جنت اپنے لئے لازم کرلی اور وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ہمارے نبی حضرت محمد ﷺ کا ساتھی بنے گا کیونکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے عراق سے شام کی طرف ہجرت کی تھی جیسا کہ ارشاد ہے ’’اور فرمایا کہ میں اپنے پروردگار کی طرف ترک وطن کر کے چلا جاؤں گا ۔بے شک وہ زبردست حکمت والا ہے ۔‘‘(القرآن)

اور فرماتے ہیں۔’’میں اپنے رب کی طرف چلا جاتا ہوں وہ مجھ کو پہنچا ہی دے گا۔‘‘(القرآن)

اسی طرح اپنے رب کی اطاعت اور رضا کیلئے طرف اور نبی کریم ﷺ نے مکہ مکرمہ سے مدینہ طیبہ کی طرف ہجرت فرمائی تھی تو جو شخص ایسی جگہ میں ہو جہاں گناہ ہوتے ہیں اور وہ وہاں سے اﷲ تعالیٰ کی رضا کیلئے نکل آیا تو اس نے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت محمد مصطفےٰ ﷺ کی پیروی کی ۔لہٰذا جنت میں ان دونوں کا رفیق اور ساتھی بنایا جائے گا۔ اﷲ تعالیٰ کا ارشاد پاک ہے ۔’’اور جو شخص اپنے گھر سے اس نیت سے نکل کھڑا ہو کہ اﷲ و رسول کی طرف ہجرت کروں گا پھر اس کو موت آپکڑے تب بھی اس کا ثواب اﷲ تعالیٰ کے ذمہ ثابت ہو گیا اور اﷲ تعالیٰ بڑا مغفرت کرنے والا ہے۔‘‘(القرآن)

اللّٰہ تعالیٰ کی اطاعت یا جہاد یا حج کیلئے نکلنا:حضور اکرم ﷺ کا ارشاد مبارک ہے کہ جو مسلمان اپنے گھر سے اﷲ تعالیٰ اور اس کے رسول کی اطاعت کیلئے نکلتا ہے اور سواری کے رکاب میں پاؤں ڈال کر خواہ ایک قدم ہی چلا تھا کہ اسے موت آگئی تو اﷲ تعالیٰ اسے مہاجرین جیسا اجر و ثواب عطا فرمائے گا اور جو مسلمان جہاد کی غرض سے گھر سے نکلا اور ابھی لڑائی کی نوبت نہیں آئی تھی کہ جانور نے گرادیا یا کسی زہریلے جانور نے ڈس لیا یا یونہی فوت ہو گیا تو یہ شخص شہید ہو گا۔ اور جو شخص بیت اﷲ شریف کا قصد کر کے گھر سے نکلا اور راستے میں ہی موت آگئی تو اﷲ تعالیٰ اس کیلئے جنت واجب کر دیتا ہے ۔

فقیہ رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ جو شخص اپنے وطن کو نہیں چھوڑتا جب کہ وہ اﷲ تعالیٰ کے فرائض ادا کرنے کی طاقت رکھتا ہے اور اس میں کوتاہی نہیں کرتا اور کوئی رکاوٹ نہیں پاتا تو اسے گنجائش ہے کہ وطن نہ چھوڑے مگر لوگوں کے گناہوں سے بیزار رہے اور ناپسند سمجھتارہے ۔

حضرت عبد اﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہ سے منقول ہے کہ تمہارے کسی آدمی کیلئے یہ چیز کافی ہے کہ جب وہ کسی برائی کو دیکھے اور روکنے کی طاقت نہ رکھتا ہو تو اﷲ تعالیٰ کو معلوم ہے کہ وہ دل سے اس کو نا پسند کرتا ہے ۔بعض صحابہ رضی اﷲ عنہم سے منقول ہے کہ کوئی شخص جب کسی برائی کو دیکھے اور اسکو روکنے کی طاقت نہ رکھتا ہو تو تین مرتبہ یوں کہے کہ اے اﷲ !یہ بات یقینا بری ہے ۔تو مجھے اس کی وجہ سے نہ پکڑیو۔یوں کہنے پر اسے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنے والے کا ثواب مل جائے گا۔

جب لوگ دنیا کے حریص ہو جائیں اور برائیاں پھیل جائیں ۔اس وقت اپنی فکر کرو:ابو امیہ رحمۃ اﷲ علیہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ثعلبہ رضی اﷲ عنہ سے اس آیت کے متعلق سوال کیا کہ اس کا کیا مطلب ہے ۔’’اے مسلمانو! تم اپنی جانوں کی فکر کرو۔‘‘(القرآن)

فرمانے لگے : تو نے ایک باخبر آدمی سے سوال کیا ہے ۔پھر کہنے لگے میں نے رسول اﷲ ﷺ سے اس کے متعلق پوچھا تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ ثعلبہ !امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرتے رہو حتیٰ کہ جب دیکھو کہ دنیا کو ترجیح دی جا رہی ہے اور بخل و حرص کی اطاعت ہو رہی ہے اور ہر شخص اپنی عقل کے گھمنڈ میں مبتلا ہے تو پھر اپنی فکر میں لگ جاؤ کیونکہ تمہارے موجودہ حالات کے بعد بڑے صبر آزما ایام آنے والے ہیں ۔ان دنوں میں تمہاری جیسی دینداری پر پکارہنے والا شخص پچاس دینداروں کے برابر اجر پائے گا۔ صحابہ رضی اﷲ عنہم نے عرض کیا کہ وہ اپنے زمانہ کے پچاس عمل کرنے والوں کا اجر پائے گا یا ہمارے زمانے کے پچاس عمل کرنے والوں کا؟فرمایا بلکہ تمہارے زمانے کے پچاس عاملوں جیسا ثواب پائے گا۔

قیس بن ابی حازم رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اﷲ عنہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ تم لوگ یہ آیت ترجمہ:’’اے مسلمانوں تم اپنی جانوں کی فکر کرو۔‘‘۔ پڑھتے ہو مگر اس کا مطلب غلط لیتے ہو ۔ میں نے رسول اﷲ ﷺ کو ارشاد فرماتے سنا ہے کہ جس قوم میں برائیاں ہوتی ہوں اور وہ روک ٹوک نہ کرتے ہوں تو بعید نہیں کہ اﷲ تعالیٰ اس پوری قوم پر اپنا عذاب نازل فرمائے ۔حضرت ابن مسعود رضی اﷲ عنہ سے اس آیت کے متعلق پوچھا گیا تو فرمانے لگے کہ ابھی اس آیت کے مضمون کا زمانہ نہیں آیا ۔ ہاں! جب خواہشات بکثرت پھیل جائیں گی جھگڑے عام ہو جائیں گے تو ہر کسی کو اپنے دین کی فکر کرنی چاہیے ۔ بس اس آیت کا یہ مطلب ہے ۔

معززقارئین:شاید یہ زمانہ وہی ہے جب تبلیغ دین کے ساتھ ساتھ اپنی جانوں کی فکر کی ضرورت ہے ۔نیکی کا حکم کرنا اور برائی سے روکنا عمل خیر ہے مگر خود عمل کر کے دوہرا فائدہ حاصل کیا جا سکتا ہے ۔با عمل مبلغ کی تبلیغی کاوشوں میں زیادہ فائدے اور دین کی سربلندی ۔

اﷲ تعالیٰ ہمیں نیکی کا حکم کرنے والا اور برائی سے روکنے والا با عمل مسلمان بنا دے تاکہ قبر و حشر میں کامیابی کے ساتھ ساتھ دنیا میں بھی سرخرو ہوں اور میدان حشر میں اپنے نبی کریم ﷺ کی بارگاہ میں شرمندگی سے بچا جا سکے ۔آمین۔

Peer Tabasum
About the Author: Peer Tabasum Read More Articles by Peer Tabasum: 40 Articles with 61882 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.