احباب کیا کہتے ہیں۔۔.؟ قسط نمبر (4)

خاطراتِ دل : امیرجان حقانیؔ
:
گزشتہ کئی سالوں مختصر عنوانات کے ساتھ خاطراتِ دل احباب و قارئین کے گوش گزار کرتا آرہا ہوں۔ ان سالوں میں کروڈوں الفاظ لکھے لیکن ان کا کوئی ریکارڈ نہیں۔اب ارادہ کیا ہے کہ آئندہ خاطراتِ دل کو محفوظ کرکے شائع کروادوں۔اسی غرض سے تین چار مختصر تحریروں کی ایک قسط بنا کراحباب کی خدمت میں پیش کی جائے گی۔ہر مختصر تحریر کے ساتھ تاریخ بھی دی جائے گی کہ یہ تحریرکب لکھی گئی ہے تاکہ سیاق و سباق اور پیش منظر و پس منظر سے بھی آگاہی حاصل ہوتی رہے۔(امیرجان حقانی)

(1) علیحدگی پسندوں کا علاج
03/11/17
اچھا ہوا کہ ڈاکٹر اللہ نذر کی وائف کو وزیراعلیٰ بلوچستان ثناء اللہ زہری اور وزیرداخلہ سرفراز بگٹی نے احترام و محبت کا چادر پہنایا، قصور بیوی اور بچوں کا نہیں۔بغاوت اللہ نذر نے کی ہے۔اس کے ساتھ نمٹنے کے لیے آئین کا سہارا لیا جائے، یہی کافی ہے۔۔۔۔تاہم اس سے بڑا آئین’’محبت وشفقت‘‘ ہے۔۔محبت و شفقت کے آئین سے سے دھلا ہوا آدمی کبھی باغی یا علیحدہ پسند نہیں ہوسکتا۔۔علیحدگی پسندوں کو محبت وشفقت سے سمجھایا جائے تو بہت اچھا رزلٹ نکلتا ہے۔۔ بقول طفیل ہاشمی صاحب کے ،سندھ یونیورسٹی میں سندھیالوجی ڈیپارٹمنٹ کے صدر شعبہ کے بارے میں رپورٹس تھیں کہ وہ سندھو دیش کی تحریک کے حامی ہیں اور سندھی طلبہ میں ان کا بہت اثر و رسوخ ہے۔جنرل ضیاء الحق نے انہیں اسلام آباد کی ایک یونیورسٹی کا وائس چانسلر لگا دیا اور تعلیمی حوالے سے کچھ خاص اسائنمنٹس دیں اور اپنی خصوصی شفقت سے نوازنا شروع کیا۔اس قدر پرو.... ہوگئے کہ بعد میں بی بی نے اس بات پر انہیں فارغ کر دیا کہ ضیاء الحق کی قبر پر پھولوں کی چادر کیوں چڑھائی؟ تاہم ان کی محرومیوں کی شکایات ختم ہو گئیں۔

ہمارے بھی ایک دوست تھے جو علیحدگی پسندوں کے مان ہوا کرتے تھے۔ بڑے معروف تھے۔لیڈر بھی رہے ان کے،باہر جانے کا بھی پرتول رہے تھے۔ پھر اچانک ان پر بھی ’’محبت و شفقت ‘‘ کا ہاتھ پھیرا گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔تو اب اتنے پُرو ہوچکے ہیں کہ اب انہیں خالص لوگوں میں بھی ملاوٹ نظرآتا ہے۔ اب تویار لوگ اس کی خالصیت پر نہ صرف رشک کررہے ہیں بلکہ حیرت کا اظہار بھی کررہے ہیں۔ریاست ماں ہوتی ہے اور ریاست یا صوبے کا بڑا باپ کی حیثیت رکھتا ہے۔۔ماں باپ بچوں کے ساتھ ’’محبت و شفقت ‘‘ والا معاملہ فرمایا کرتےہیں۔۔۔۔ویسے ن لیگ والے کچھ کام تو بہت اچھا کرتے ہیں۔۔ تو
احباب کیا کہتے ہیں۔۔۔؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(۲) امیری یا غریبی۔۔۔۔۔۔فقط خیال کا نام ہے
04/11/17
کسی کا امیر ہونا یا غریب ہونا ،فی الواقع کوئی چیز نہیں۔ صدیوں سے یہ سوال تشنہ ہی رہا کہ دولت کی غیر منصفانہ تقسیم کیوں ہوئی۔ حقیقت یہ ہے کہ سوچ و خیال کا امیر ہونا ہے سب سے بڑی امیری ہے اور سوچ و خیال کی غربت سب سے بڑی غربت ہےسینکڑوں لوگ مروجہ غریب ہونے کے باوجود بھی پسند کیے جاتےہیں، احترام کیا جاتا ہے۔ محبتوں سے نوازے جاتے ہیں۔ اور سینکڑوں لوگ متمول بلکہ امیر ترین ہونے کے باوجود بھی ناپسند کیے جاتے، کبھی ان کو دلی احترام نہیں ملتا۔قابل نفرت ٹھہراتے ہیں۔۔میں اپنا تجربہ بتانا چاہونگا۔

میں گزشتہ چار سال سے موٹر سائیکل استعمال کرتا ہوں۔ میرے ہر دوسرے جاننے والے کا یہی مشورہ ہوتا ہے۔ صاب، بہت ہوگیا، اب کوئی گاڑی لے لو، چھوٹی سی کیوں نہ ہو۔ وہ سمجھتے ہیں کہ میں جیسے ہی گاڑی لونگا تو امیروں یا آفیسروں کی فہرست میں گردانا جاونگا۔مگر حقیقت یہ ہے کہ میں موٹر سائیکل میں بھی خود کو امیر ہی محسوس کرتا اور آفیسر بھی۔میں موٹر سائیکل پر اتنے لوگوں کو ’’پِک‘‘ کرتا ہوں جتنا میرے احباب بڑی گاڑیوں میں بھی نہیں کرتے۔میں سات سو کا جوڑہ خریدتا، تین سو پچاس کی سلائی کرواتا۔ یوں تقریبا ایک ہزار روپے کا سوٹ تیار ہوتا ہے۔ یہ سوٹ میں کئی سال پہنتا ہوں۔ وزیراعلیٰ سطح کے ذمہ داروں سے بھی یہی نو سو روپیہ کے سوٹ پہن کر ملاقات کرتا ہوں۔میرے اس سستے سوٹ نے مجھے کبھی غربت کا احساس نہیں دلایا ۔ واللہ العظیم ! میں اس سوٹ میں بھی خود کو بہت امیر محسوس کرتا ہوں۔میں ہمیشہ یہی خیال کرتا ہوں کہ میں امیر ہوں۔میرے کپڑے اور موٹر سائیکل نے ایک دفعہ بھی مجھے غریب ہونے کا احساس نہیں دلایا۔میں نے ایک زمین خریدی ہے جس کی وجہ سے میں کافی مقروض بھی ہوں لیکن میں نے خود کو کبھی مقروض خیال نہیں کیا۔میں اپنی سوشل لائف اپنی طے شدہ ترتیب کے مطابق گزارتا ہوں۔ اور آہستہ آہستہ اپنے قرضے بھی اتارتا جاتا ہوں۔ سچ یہ ہے کہ قرض کے خوف سے مجھے پریشانی نہیں ہوتی کیونکہ میں اس کو اپنی پریشانی کا سبب بنانا ہی نہیں چاہتا۔میرا دل ہمیشہ مجھے یہی نوید دیتا ہے کہ ’’تم امیر ہو‘‘ تاہم دماغ کبھی کبھی ڈراتا بھی ہے لیکن دماغ کی مکاری کو میں ایک جھٹکے سے پَرے ہٹادیتا ہوں۔۔۔تو
احباب کیا کہتے ہیں۔۔؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(۳) ڈاکٹرقبلہ ایاز صاحب۔۔۔ مبارک ہو
05/11/2017
ڈاکٹر قبلہ ایاز صاحب کے ساتھ عقیدت و احترام کو چار سال پورے ہوگئے ہیں۔میرے لیے بہت ہی خوشی کی بات ہے کہ وہ اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین مقرر کیے گئے۔۔۔۔۔۔دل کی اتھاہ گہرائیوں سے مبارک ہو۔ڈاکٹر صاحب پشاور یونیورسٹی کے وائس چانسلر بھی رہے اور شعبہ علوم اسلامیہ و شرقیہ کے چیرمین و ڈین بھی ۔۔ایچ ایس سی کا پروگرام سیرت چیئر کے چیئرمین بھی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ڈاکٹر صاحب ایک خوش گفتار اسپیکر ہونے کے ساتھ ایک اچھے دوست اور محقق استاد بھی ہیں۔۔

ڈاکٹر صاحب سے درجنوں ملاقاتیں ہوئی ہیں لیکن سب سے دلچسپ اور اہم ملاقات پشاور یونیورسٹی کے سمر کیمپس باڑہ گلی میں ہوئی۔۔میرے لیے اعزاز کی بات یہ تھی کہ میں بہت دیر تک بولتا رہا اور ڈاکٹر صاحب سنتے رہے۔۔۔۔۔۔۔ایک طالب علم کے لیےخوشی کی بات ہوتی ہے کہ ایک کہنہ مشق استاد اس کی بات غور سے سنیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔خیر
ڈاکٹر صاحب کو اسلامی نظریاتی کونسل کا چیئرمین بناکر حکومت وقت نے ایک مستحسن فیصلہ کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں سمجھتا ہوں کہ ڈاکٹر قبلہ ایاز کے ذریعے اس عہدے کو عزت بخشی گئی ہے۔یہ ڈاکٹر صاحب کے لیے ضرور اعزاز کی بات ہے لیکن اس عہدے کو ڈاکٹر صاحب پر فخر کرنا چاہیے۔۔۔تو
احباب کیا کہتے ہیں۔۔۔؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(۴) پسند اوناپسند کا معیار۔۔۔اور۔۔۔اللہ کی پناہ
06/11/17
فکری زوال اور پسند اور ناپسند کا معیار اتنا گرِا ہے کہ الامان والحفیظ!کسی کی تحریر اور فکر و نظر کو پسند ناپسند کرنے کا معیار اتنا پست ہوا کہ اس پر بات کرنا بھی معیوب سمجھتا ہوں۔ فلاں کی تحریر یا فلاں کی سوچ اس لیے اچھی ہے کہ کسی وزیر، مشیر، ممبر یا بیورکریسی کے کسی آفیسر نے پسند کیا تھا ۔قلم اور سوچ دونوں اللہ کی ودیعت بھی ہے اور امانت بھی۔ اس امانت کو مکمل دیانت داری کے ساتھ ان تک پہنچانا ہے جن کا حق ہے۔ میرا قلم اور میری سوچ دونوں عوام کی امانت ہے۔ میں نے آج تک کسی وزیر مشیر، کسی ممبر و آفیسر کوخوش کرنے کے لیے ایک بھی لفظ نہیں لکھا۔ بلکہ ہمیشہ وہی لکھتا ہوں کہ میرے الفاظ ان کے سینے چیر کر دل میں پوست ہوجائیں۔تضحیک و تذلیل کے بجائے مثبت تنقید کو اپنا فرض سمجھتے ہوئے لکھتا ہوں۔الحمدللہ! آج تک کسی کی تضحیک و تذلیل نہیں کیا۔ ہاں البتہ کوئی پی ایچ ڈی محقق، صائب فکر انسان اور اداریہ/کالم نویس قلم کار میری تحریر و سوچ پر تنقید کرتا ہے۔ میری کمزوریوں کی نشاندہی کرتا ہے تو میں انتہائی خوشی محسوس کرتا ہے۔ صاحبان فکر و نظر اور اصحاب علم و دانش کی پسند اور ناپسند اور گرفت اور تنقید کو بطور اصلاح لیتا ہوں ۔ البتہ اس دن سے اللہ کی شدت سے پناہ مانگتا ہوں کہ میری کسی تحریر یا میری سوچ پر کسی ممبر، کسی وزیر مشیر ، کسی آفیسر یا سیاسی لیڈر کی تحسین ہو، اس دن میں سمجھونگا کہ حقانیؔ! تجھ سے کچھ بھول ہوئی ہے۔ فوری توبہ کر۔میں تاریخ میں اپنا نام درباری کے بجائے ایک زندہ قلم کار کے طور پر مندرج کروانا چاہتا ہوں۔ اس لیے مجھے ارباب اقتدار اور صاحبان اختیار کو خوش کرنے کی کبھی ضرورت محسوس نہیں ہوئی ۔ تب تو نہ کسی کا طرفدار ہوں نہ ہی مخالف۔جو سچ محسوس کرتا ہوں وہی تحریر کرتا ہوں۔ اللہ کے فضل سے روزانہ مجھے شاندار فیڈ بیک(یعنی پسند اور ناپسند ) کی شکل میں ملتا ہے۔۔تو
احباب کیا کہتے ہیں۔۔؟
(۵) جی بی: ایک اہم مسئلہ کی نشاندہی(نجی تعلیمی ادارے)
11/11/17
گلگت بلتستان کے درجنوں مسائل کے ساتھ ایک بڑا مسئلہ کھمبیوں کی طرح اُگنے والے نجی تعلیمی اداروں کا ہے۔ ملک بھر کی طرح جی بی میں نجی شعبہ تعلیم اتنا پھیلا نہیں اس لیےاب بھی یہ مسئلہ آسانی سے حل کیا جاسکتا ہے۔ 73ء کے آئین میں ہونے والی اٹھارویں ترمیم کے بعد آئین کی آرٹیکل 25-A کے مطابق ریاست پر لازم کیا گیا ہے کہ ریاست ہر بچے کے لیے اچھی تعلیم کا مفت میں بندوبست کرے۔
[Article: 25-A: Right to education.—The State shall provide free and compulsory education to all children of the age of five to sixteen years in such manner as may be determined by law]
اور بہت سارے اختیارات صوبوں کو منتقل بھی ہوئے ہیں۔میں نے خاموشی کے ساتھ گلگت بلتستان کے سینکڑوں نجی تعلیمی اداروں کا جائزہ لیا ہے۔ بلڈنگیں دیکھی ہے۔ اساتذہ اور ملازمین کی قابلیت، اور ان کی تنخواہوں کا بھی جائزہ لیا ہے۔ مجموعی طور پر ان نجی اداروں کا سسٹم انتہائی بدحالی کا شکارہے۔ اور بدقسمتی سے گلگت بلتستان کی حکومت نے ان نجی تعلیمی اداروں کو مکمل من مانی کرنے کی چھوٹ دے رکھی ہے۔ دنیا بھر میں نجی تعلیمی ادارے ہیں اور ان کی اہمیت سے قطعا انکار نہیں کیا جاسکتا۔ تاہم دنیا بھر میں ریاستیں اور صوبے اپنے سرکاری تعلیمی نظام کو اتنا مضبوط بناتی ہے کہ لوگ نجی اداروں کے بجائے ریاستی اداروں میں تعلیم حاصل کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اور پرائیوٹ(نجی) اداروں کے لیے بھی مضبوط قانون سازی کی جاتی ہےتاکہ یہ ادارے اپنی من مانی نہ کریں بلکہ ریاستی نظم و ضبط کے پابند ہوکر کام کریں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ سرکاری تعلیمی نظم کو بہتر سے بہتر بنانے کے ساتھ پرائیوٹ(نجی) تعلیمی اداروں کے لیے واضح قانون سازی کی جائے۔ اس مقصد کےلیے جی بی حکومت ماہرین تعلیم، سرکاری نمائندے، نجی تعلیمی اداروں کے نمائندے اور والدین پر مشتمل ایک بڑے سیمنار کا انعقاد کریں۔ ان تمام کے اراء اور تجاوزیز کو سن کر ، ان کی روشنی میں قانون سازی کرے جس میں ادارے کی رجسٹریشن، فیسیں، ملازمین کی تنخواہیں ، بلڈنگ، نصاب، ملازمین کی بھرتی اور نوکری کا تحفظ اور ملازمین کی مراعات، فیس میں سالانہ اضافہ،ٹیکس وغیرہ غرض ہرچیز واضح ہو۔ورنہ یاد رہے کہ نجی تعلیمی شعبے اتنے بڑے مسائل کریٹ کریں گے کہ آنے والے دنوں میں ان کو سنھبالنا مشکل ہوجائے گا۔ یہ ادارے والدین اور طلبہ کے ساتھ سرکار کے لیے بھی درد سر بن جائیں گے اور ساتھ ہی سرکار بھی ان اداروں کے لیے عذاب بن جائے گا۔تو تمام اسٹیک ہولڈرز کو ملکر اس مسئلے کو نمٹانا چاہیے۔۔۔تو
احباب کیا کہتے ہیں۔۔۔؟
(۶) بابائے صحافت۔۔۔جناب سرتاج صاحب
12/112017
جب ہوش سنھبالا تب سے’’ آئینہ دیامر ‘‘ کے مصنف جناب سرتاج صاحب کو جانتا ہوں۔ بلاشبہ وہ گلگت بلتستان کے ’’بابائے صحافت‘‘ ہیں۔ محترم سرتاج صاحب صرف اخبار اور ٹی وی کا رپورٹر نہیں، ایک بہترین رائٹر، مصنف اور دانشور بھی ہیں۔میری عمر سے زیادہ انکا تجربہ ہے۔ علاقائی اور ملکی سطح پر بڑے بڑے نشریاتی و طباعتی اداروں کے ساتھ ایک طویل عرصے سے منسلک ہیں۔۔بڑھاپے میں بھی ’’صحافت کا جنون‘‘ جوان ہے۔۔ میری خوش قسمتی دیکھیں۔۔ کہ مجھے انکا نیاز حاصل ہے۔۔محترم سرتاج صاحب میرے بزرگ دوستوں میں سہرفرست ہیں۔۔اس سے بھی بڑی بات یہ ہے کہ سرتاج صاحب میرے روز اول سے قاری ہیں۔۔ میری کئی تحریروں کو انہوں نے اپنی کتاب میں شامل کیا ہے۔۔جو بہت جلد شائع ہوگی۔۔ 2008 میں جب میں کراچی میں بی اے کا اسٹوڈنٹ تھا اور قلم و کاغذ کے ساتھ رشتہ استور ہوا چاہتا تھا تب سالانہ تعطیلات میں چلاس، ان سے ملنے آیا تھا، تب سے اب تک ان کے ساتھ تعلق و دوستانہ ہے۔۔صحافت کے میدان میں ان کی ملنسار شخصیت ہمارے لیے قابل تقلید ہے۔گزشت دنوں راما فیسٹول میں ان سے ایک مختصر ملاقات ہوئی۔۔ ان کا محبت بھرا لب و لہجہ دیکھ کر خوش گوار حیرت بھی ہوئی کہ ’’ بابا‘‘ قسم کے لوگ نوآموزوں کی قدر بھی کرتے ہیں۔۔ بڑے آدمیوں کی یہی شان ہوتی ہیں کہ وہ چھوٹوں کی عزت کرتے ہیں۔اور حوصلہ بڑھاتے ہیں۔بہر صورت پورے گلگت بلتستان کی حد تک مجھے جناب سرتاج صاحب سے سینئر رپورٹر اور صحافی نہیں ملا جو اب تلک رپورٹنگ کے شعبے سے منسلک بھی ہو۔۔۔تو
احباب کیا کہتے ہیں۔۔؟
جاری ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہے�

Amir jan haqqani
About the Author: Amir jan haqqani Read More Articles by Amir jan haqqani: 443 Articles with 383477 views Amir jan Haqqani, Lecturer Degree College Gilgit, columnist Daily k,2 and pamirtime, Daily Salam, Daily bang-sahar, Daily Mahasib.

EDITOR: Monthly
.. View More