ولی اللہ کون؟

اولیاء کرام کی شان
بعض لوگ توحید و سنت کے علمبرداروں اور خالص قران و حدیث کے پیروکاروں پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ ”اولیا کرام“کی تعظیم نہیں کرتے- انہیں مانتے نہیں اور یہ کہ ان کی گستاخی کرتے ہیں - ہم نے ان الزامات کو سامنے رکھتے ہوئے خوب تحقیق کی ہے اور یہ تحقیق اللہ کی کتاب ” قرآن “ سے کی ہے - اللہ تعالیٰ کی کتاب نے اٹھاسی (۸۸) مقامات پر ”ولی“ ” اولیا “اور ”ولایت “ کے الفاظ استعمال کئے ہیں - اسی طرح اولیاء کرام کے لئے (12) مقامات پرا للہ کی کتاب نے ” لاَخَوف عَلَیھِم وَلاَ ھُم یَخزَنُونَ “ کے جملہ کو استعمال فرمایا ہے - ہم پوری پوری آیا ت کہ جن کا اختتام مذکورہ بالا جملے پر ہوتا ہے‘ وہ درج کر کے واضح کریں گے کہ وہ کونسے ” اولیاﺀ کرام “ ہیں؟ کونسی صفات کے حامل ہیں؟ کہ جن کے لئے بارہ مقامات پر اس جملے کو استعمال کیا گیا ہے- اور یہ کہ انہیں ماننے کا مطلب کیا ہے؟ انہیں کیا مانا جائے اور کیا نہ مانا جائے - ان کی عزت کیا ہے اور توہین کس طرح سے ہوتی ہے اور یہ کہ عزت کرنے والے کون ہوتے ہیں اور تو ہین کرنے والے کون ہیں ....؟؟ ان ساری باتوں کا جواب ہم اللہ کی کتاب سے لیتے ہیں کہ جس لاریب کتاب ” قران حکیم “ نے اٹھاسی اور بارہ بار مختلف پیرائے میں اولیاء کرام کا تذکرہ کیا ہے -

قارئین کرام ! ذرا غور کیجئے ! اگر آپ نوجوان ہیں تو کئی بار آپ کے ساتھ ایسا ہوا کہ کسی بزرگ نے آپ کو بیٹا کہہ دیا- اب اس ”بیٹا “کہنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ اس کے حقیقی بیٹے ہیں بلکہ یہ محض شفقت کا انداز ہے‘ جس کا مطلب یہ ہے کہ بزرگ آپ کے باپ کی عمر کا ہے اور آپ بزرگ کی اولاد کے مقام پر ہیں - اس کے بالکل برعکس اگر کوئی نوجوان ازراہ شرارت آپ کو” بیٹا “کہے تو اسے آپ گالی سمجھیں گے اور اپنی والدہ کی توہین خیال کریں گے‘ چنانچہ لڑائی یقینی ہے - پہلے واقعہ پر آپ خوشی ومسرت محسوس کریں گے جبکہ دوسرے واقعہ پر آپ غیض و غضب میں مبتلا ہو جائیں گے- حالانکہ واقعہ ایک ہی ہے-ظاہری بول ایک ہی ہے لیکن کرداروں کے فرق نے جملے کے مفہوم میں زمین وآسمان کا فرق پیدا کردیا -

یہی معاملہ ” ولی ‘ ‘ کا ہے - ولی کا معنی دوست ہے - اب ایسا دوست کہ جو مشکل وقت میں کام آتا ہے - نفع ونقصان کا مالک ہے- بندے کی دستگیری کرنے والا اور نگرانی کرنے والا ہے تو ایسا ” ولی“ صرف اللہ ہے -اس کے علاوہ کوئی ولی نہیں ہے - جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

وَ مَا لَکُم مِن دُون ِاللہِ مِن وَّ لِیٍ وَلاَ نَصِیرٍ
ترجمہ: اور اللہ کے علاوہ تمہارے لئے نہ کوئی ولی ہے اور نہ کوئی مدد گار - ( البقرہ : 107) قارئین کرام ! یقینا مذکورہ معنوں میں اللہ کے علاوہ کوئی ولی نہیں ہے اور اللہ نے اس بات کو واضح کردیا تو اب دیکھئے حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنے اللہ سے کس طرح مخاطب ہو رہے ہیں :

اَنتَ وَلِیُّنَا فَا غفِر لَنَا وَ ار حَمنَا و اَنتَ خَیرُ الغَافِرِین

ترجمہ: ( اے اللہ) تو ہی ہمارا ولی ہے -لہٰذا ہمیں بخش دے‘ ہم پر رحم فرما کیونکہ تو ہی سب سے بہتر بخشنے والا ہے-

( الاعراف:155)

اسی طرح حضرت یوسف علیہ السلام اپنے اللہ سے یوں مخاطب ہوتے ہیں :

فَا طِرَ السَّمٰوٰ تِ وَ الاَ ر ضِ اَ نتَ وَلِیِّ فِی الدُّ نیَا وَ الآ خِرَ ةِ تَوَ فَّنِی مُسلَِماً وَّ اَلحِقنِی بِا الصَّالِحِینَ

ترجمہ : آسمانوں اور زمین کے پید ا کرنے والے ! تو ہی دنیا اور آخرت میں میرا ولی ہے - مجھے مسلمان کی حیثیت سے فوت کرنا اور مجھے نیک لوگوں کے ساتھ شامل کرنا -

( یوسف : ۱۰۱)

جناب والا! اب اللہ کے آخری رسول کا انداز بھی ملاحظہ کیجئے- آپ مشرکین مکہ کو توحید کی دعوت دیتے رہتے - ان کے ٹھہرائے ہوئے معبودوں کی بے بسی ثابت کرتے کرتے انہیں آگا ہ کرتے ہیں :

اِ نَّ وَلِیَّ اللَّہُ الَّذِ ی نَزَّ لَ الکِتَا بَ وَ ھُوَ یتَولَّی الصَّالِحِینَ

ترجمہ : بلا شبہ میرا ولی تو وہ اللہ ہے کہ جس نے کتاب نازل فرمائی اور وہی نیک لوگوں کا والی ہے - ( الاعراف : 196)

قارئین کرام ! آگاہ رہیے! جن معنوں میں اللہ ہی ولی ہے اور اس کے سوا دوسرا کوئی ولی نہیں ہے -ان معنوں اور مفہوم میں اگر کوئی شخص کسی بندے کو ”ولی “ بنادے تو یہ اللہ کے ساتھ شرک ہوگا - مثال کے طور پر مشکل وقت میں صرف اللہ ہی کو پکارنا چاہیے لیکن اگر کوئی شخص کسی بزرگ بندے کو آواز دیتا ہے کہ وہ میری کشتی کو پار لگائے - وہ قبر میں ہو روحانی قوت سے اس کو ساحل پر اتارے تو اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو چیلنج کے انداز میں یوں سمجھاتے ہیں :

اِنَّ الَّذِینَ تَدعُونَ مِن دُونِ اللَّہِ عِبَاد اَمثَالُکُم فَادعُوھُم فَلیَستَجِیبُوا لَکُم اِن کُنتُم صَادِقِینَ

ترجمہ : بلا شبہ وہ لوگ کہ جن کو تم اللہ کے سوا پکارتے ہووہ تمہارے جیسے بندے ہی ہیں ( اچھا ) تم ان کو پکار دیکھو پھر چاہئے تو یہ کہ وہ تم کو جواب بھی دیں اگر تم ( اپنے اس دعوے ) میں سچے ہو ( کہ وہ سنتے ہیں )

( الاعراف : 194 )

قارئین کرام ! ایسے بندے کہ جن کو بزرگ ‘ پیر اور ولی مان کر انہیں پکارا جاتا ہے - جب پکارنے والوں سے کہا جاتا ہے کہ اللہ کے بندو! ان ولیوں کی عبادت مت کرو‘ اولیاءکرام کو معبود نہ بن - تو فوراً جھٹ سے کہہ اٹھتے ہیں :

وَ الَّذِینَ اتَّخَذُو ا مِن دُونِہٓ اَولِیَآ ئَ مَا نَعبُدُھُم اِلاَّ لِیُقَرِّبُونَا اِلَی اللَّہِ زُلفَیٰ

ترجمہ : اور وہ لوگ کہ جنہوں نے اللہ کے علاوہ ولی بنا رکھے ہیں (کہتے ہیں ) ہم ان کی عبادت تو نہیں کرتے مگر اصل بات یہ ہے کہ وہ ہمیں اللہ کے بہت قریب کردیتے ہیں -

( الزمر : 3)

یعنی اولیاء کرام اللہ کے اور ہمارے درمیان واسطہ ہیں -وہ ہمیں اللہ کے قریب کردیتے ہیں اور چونکہ وہ خود اللہ کے بڑے قریبی ہیں اس لئے وہ مدد بھی کردیتے ہیں‘ اس لئے کہ اللہ ان کی موڑتا نہیں- رد نہیں کرتا -اور ہم چونکہ ان کے مرید ہیں اور مرید ہونے کے ناطے وہ ہمارے احوال سے آگاہ بھی ہیں -اس لئے ہماری فریاد ان کے آگے اور ان کی اللہ کے سامنے - تو ان عقائد پر اللہ تعالیٰ یوں ضرب کاری لگاتے ہیں :

وَ مَا کَانَ لَھُم مِّن اَولِیَآ ئَ یَنصُرُو نَھُم مِن دُونِ اللَّہِ

ترجمہ: اور ان کے لئے کوئی ایسے ولی نہیں ہیں کہ وہ اللہ کے علاوہ ان کی مدد کریں -

( الشوریٰ : 46)

یعنی اسباب کے بغیر مدد کو پہنچنے والا تو صرف اللہ ہی ہے- بندوں میں ایسا کوئی ولی نہیں ہے جو یہ مدد کرسکے - مگر جو بھی ولیوں کی پناہ میں آنا چاہتے ہیں -ولیوں کو سب کچھ سمجھتے ہیں تو پھر دیکھ لیں کہ قرآن کے الفاظ میں ان کا ڈیرہ ‘ ان کی پناہ گاہ ‘ ان کا حصار اور قلعہ کس نوعیت کا ہے اور وہ کتنے پانی میں ہے ؟فرمایا :

مَثَلُ الَّذِینَ اتّخذُو ا مِن دُونِ اللّہِ اَ ولِیَائَ کََمَثَلِ العَنکَبوتِ اِ تَّخَذَت بَیتاً وَ اِ نَّ اَ وھَنَ البُیُو تِ لَبَیتُ العَنکَبُوتِ لَو کَانُوا یَعَلَمُونَ

ترجمہ : جن لوگوں نے اللہ کے سوا ولی بنا رکھے ہیں ان کی مثال مکڑی کی سی ہے کہ وہ بھی ایک ( طرح کا ) گھر بناتی ہے اور یہ حقیقت ہے کہ سب گھروں میں سے کمزور گھر مکڑی کا ہے - کاش یہ لوگ ( اس حقیقت کو ) جانتے ہوتے-

( العنکبوت : 41)

غور فرمائیے ! مکڑی کے جال کی حیثیت کیا ہے - کچھ بھی نہیں یعنی یہ ایسا کمزور گھر ہے کہ جو نہ آندھی اور طوفان کا مقابلہ کرسکتا ہے اور نہ بارش سے بچنے کا کام دے سکتا ہے‘ یعنی اس گھر میں کو ئی تحفظ نہیں-اسی طرح وہ آستانے اور دربار کہ جہاں لوگ اپنی مشکلات کے لئے جاتے ہیں تو وہ آستانے ‘ دربار اور خانقاہیں ایسے لوگوں کا کچھ بھی تحفظ نہیں کرسکتیں جو مشکلات میں پھنس کر یہاں پنا ہ لینے آتے ہیں اور اس فرمان الہی سے غور وفکر کرنے و الوں کو یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ بھلا عنکبوت ( مکڑی ) اپنے اس جال میں پھانس کر کن کو لے جاتی ہے ؟ جناب ولا ! جن کو لے کر جاتی ہے وہ ہیں مکھی‘ مچھر - اب مکھیوں اور مچھروں کا ٹھکانا کہاں ہے - یہ بھی سو چو!؟جہاں تک مکھی کا تعلق ہے وہ غلاظت اور فضلے پر بیٹھی ہے اور جو مچھر ہے وہ گندی نالیوں ‘ جوہڑوں اور متعّفن و بدبودار تالابوں میں پرورش پاتا ہے -چنانچہ متعّفن جگہوں پر بیٹھنے والوں کو عنکبوت صاحب اپنے جال میں پھنسا لیتا ہے اور جو ایک بارپھنس گیا وہ وہیں تھوڑی دیر بعد ہی جان سے ہاتھ دھو بیھٹتا ہے اور جو کوئی زندہ رہا - اس کی قسمت اچھی ہوئی اور کہیں سے اسے مدد مل گئی تو خلاصی ہوجائے گی - وگرنہ یہیں مرنا ہوگا -

تو جناب والا !ہم بھی عنکبوت کے جال پر قرآن کی ضرب لگارہے ہیں قرآن جوکتاب حق ہے‘ اس کی ضرب کا تذکرہ اللہ تعالیٰ یوں کرتے ہیں :

بل نَقذِ فُ بِا لحَقِّ عَلَی البَاطِلِ فَیَدمَغُہُ فَاِ ذَا ھُوَ ذَاھِق ولَکُم الوَیل ُ مِمَّا تَصِفُون

ترجمہ : بلکہ ہم تو حق کو باطل پر دے مارتے ہیں تب وہ اس کا کچومر نکال دیتا ہے اور باطل اسی وقت تباہ ہوجاتا ہے اور ( یاد رکھو) جو ( اوٹ پٹانگ ) باتیں تم ( ولیوں کے بارے میں ) بتاتے ہو ان سے تمہارے ہی لئے بربادی ہے-

( الا نبیاء : 18)

قارئین کرام ! اس ” ضرب کاری“ کا فائدہ یہ ہوگا کہ مکھیوں اور مچھروں کے ساتھ اگر کوئی تتلی راستہ بھو ل کر یا انجانے میں عنکبوت کے جال میں جاپھنسی ہے تو اسے رہائی دلاکر دوبارہ گلاب کے پھو ل پر بٹھا دیا جائے- موسم خزاں سے نکال کر بہار میں لایا جائے- صوفیوں کے سلسلوں اور سلاسل سے نکال کر کتاب وسنت کی طرف لایا جائے - اسے اندھیرے سے نکال کر روشنی میں لے آیا جائے -جیسا کہ اللہ نے فرمایا:

اَللّہ ُ وَلِیُّ الَّذِ ینَ اٰ مَنُو ا یُخرِ جُھُم مِّنَ الظُّلُمَاتِ اِلَیٰ النُّورِ وَالَّذِینَ کَفَرُوا اَولِیَائُ ھُم الطَّاغُوتُ یُخرِجُونَھُم مِنَ النُّورِ اِلَی الظُّلُمَاتِ اُولَٰئِکَ اَصحَابُ النَّارِ ھُم فِیھَا خَالِدُ ونَ

ترجمہ: اللہ ان لوگوں کا ولی ہے جو ایمان لائے- وہ انہیں اندھیروں سے نکال کرروشنی میں لےجاتا ہے- اور وہ لوگ جو منکرین ( توحید) ہیں‘ ان کے ولی طاغوت ( اہل شرک ‘ شیطان ) ہیں جوانہیں روشنی سے نکال کر اندھیروں میں لے جاتے ہیں- یہ لوگ آگ والے ہیں‘ وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے -

( البقرہ : 257)

یادرہے ! ہر گناہ اندھیرا اور تاریکی ہے کہ جسے ظلم کہا جاتا ہے اور گناہ میں مبتلا ہونے والا ظالم ہے- مگر جو شرک کا ظلم ہے اسے اللہ نے ” ظلم عظیم “ سب سے بڑا اندھیرا کہا ہے اور شرک کا اندھیر مچانے والے ظالم ہیں - ان ظالموں کے ہتھے چڑھنے سے بچانے کے لئے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو یہ نصیحت کرتے ہیں کہ ان ظالموں کی طرف معمولی سامائل بھی نہیں ہونا - فرمایا :

وَلاَ تَر کَنُو ا اِلَیٰ الَّذِینَ ظَلَمُوا فَتَمَسَّکُمُ الَّنارُ وَمَالَکُم مِّن دُو نِ اللَّہ ِ مِن اَولِیآئَ ثُمَّ لاَ تُنصَرُونَ

ترجمہ: اور جو لوگ ظالم ہیں ان کی طرف مائل نہ ہونا‘ نہیں تو تمہیں ( جہنم کی) آگ آلپیٹے گی اور تمہارے لیئے اللہ کے سوا کوئی ولی نہ ہوگا‘ تو پھر تمہیں ( کہیں سے بھی) مدد نہ مل سکے گی -

( ھود : 113)

قارئین کرام ! اب اللہ تعالیٰ کا ایک اور انداز ملاحظہ کیجئے- وہ کل مخلوقات کا ” ولی “ اللہ رب العزت ....اپنے نبی کے ذریعہ ان لوگوں کے کا ن کھو ل رہا ہے جنہوں نے اللہ کے علاوہ ولی بنا رکھے ہیں - فرمایا :

قُل اَ فَاَ تَّخَذ تُم مِّن دُونِہٓ اَ ولِیَآئَ لاَ یَملِکُونَ لاَ نفُسِھِم نَفعاً وَّ لاَ ضَر

ترجمہ : ( میرے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ) کہہ دو کیا تم نے اللہ کو چھوڑ کر ایسے ولی بنا رکھے ہیں جو خود اپنے لئے نہ کسی نفع کا اختیار رکھتے ہیں اور نہ نقصان کا -

( الرعد : 16)

اور اب آخر میں ایک اعلان ملاحظہ کیجئے کہ جسے ” آیت عزت “ ( اعلان عزت) کہا جاتا ہے اور اس فرمان کو ” فرمان عزت “ اس لئے کہا جاتا ہے کہ لوگوں نے جوولی بنارکھے ہیں اور ان کے بارے میں وہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ یہ اولیا ءکرام- اللہ کے ایسے محبوب ہیں کہ اللہ ان کے کام کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے اور یہ کہ اللہ نے ان ولیوں کو بعض اختیارات اور طاقتیں سونپ رکھی ہیں یا یہ کہ ولی حضرات- اللہ اور اس کی مخلوق کے درمیان واسطہ ہیں تو یہ اور اس طرح کی دیگر باتیں اللہ کی عزت اور وقار کے منافی ہیں ‘ اس لئے کہ ان باتوں سے تو اللہ عزوجل کی کمزوری ظاہر ہوتی ہے اور یہ بہت بڑی توہین اور گستاخی ہے- چنانچہ اللہ تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اعلان کرواتے ہیں :

و قُلِ الحَمدُ لِلَِّہ الَّذِ ی لَم یَتَّخِذ وَلَداً وَّلَم یَکُن لَّہُ شَرِِیک فِی المُلکِ وَ لَم یَکُن لَّہُ وَ لِیّ مِّنَ الذُّ لِّ و َ کَبِّر ہُ تَکبِیر

ترجمہ : کہہ دو ! سب تعریفیں اللہ کے لئے ہیں- جس نے نہ کسی کو بیٹا بنایا ہے اور نہ ہی کوئی اس کی بادشاہت میں شریک ہے اور نہ ہی عاجزی اور ناتوانی کی بناء پر اس کا کوئی ولی ہے -چنانچہ اس کی خوب زور دے کر بڑائی بیان کر و

( الا سراء : ۱۱۱)

لوگو! اس آیت پر ‘ اعلان پر ‘ فرمان عزت پر بار بار غور کرو اور سوچو ! کہ آخر تم نے اللہ میں کیا کمزوری دیکھی ہے کہ ولیوں کو اللہ اور مخلوق کے درمیان واسطہ مان لیا ہے -کیا اللہ ان واسطوں وسیلوں کے بغیر اپنی مخلوق سے رابطہ نہیں رکھ سکتا ؟ یقیناً وہ بڑا زبردست اور باریک بین ہے - قوتوں والا ہے- وہ ایسی کمزوریوں سے پاک ہے- لہٰذا ! باز آج ! اور اللہ کے اعلان عزت کے بعد اللہ کے وقار و عزت کے منافی عقیدہ وگفتگو سے رک ج-

اور یاد رکھو ! یہ جو لوگوں نے ولائیت ولائیت کی رٹ لگا رکھی ہے کہ فلاں ولی کو ولائیت مل گئی- فلاں ولی کو فلاں چِلّا کرنے سے ولائیت مل گئی تو ولائیت کہ.... جس کا معنی.... اقتدار و اختیار ہے -یہ اقتدار و اختیار کس نے دیا ؟ کیا اللہ نے دیا - کیا اللہ اپنے اختیارات بانٹ رہا ہے ؟ کیا وہ غوث ‘ قطب‘ ابدال اور قیوم کے عہدے بناکر اپنے اختیارات ان بندوں کے سپرد کر رہا ہے؟ اور کیا وہ خود فارغ ہوگیا ہے ؟ استغفر اللہ - نعوذ باللہ - اللہ کی پناہ ایسے خیالات اور فاسد تصورات سے - وہ مالک کل تو فرما رہا ہے :

وَمَاَکُنَّا عَنِ الخَلقِ غَافِلِین

ترجمہ : ہم ( اپنی ) مخلوق سے بے خبر نہیں - ( الم منون : 17 )

اور جب ہم بے خبر نہیں تو کسی کو ولائیت بانٹنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ!

ھُنَالِکَ الوَ لاَیَةُ لِلَّہِ الحَقِّ

ترجمہ : اب اسے معلوم ہوا کہ مکمل ولائیت ( اختیار ) تو اللہ برحق ہی کو ہے - ( الکہف : 44)

قارئین کرام ! بھلا کس کو معلوم ہوا اور کب معلوم ہوا ؟ جی ہاں - یہ ایک منکر تو حید تھا - شرک کرنے والا تھا- اس کے باغ کو اللہ نے تباہ کردیا تھا - اس تباہی کے بعد وہ ہاتھ ملتے ہوئے کہنے لگا :

یَا لَیتَنِی لَم اُ شرِ کُ بِرَبِی اَحداً

ترجمہ : اے کاش! میں اپنے رب کے ساتھ کسی کوشریک نہ کرتا ( الکہف : 42)

اور جناب ! پھر اللہ تعالیٰ اس واقعہ پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

وَ لَم تَکُن لَّہُ فِئَة یَّنصُرو نَہ‘ مِن دُ ونِ اللّہِ

ترجمہ :اس وقت تو اللہ کے سوا ( ولیوں کا ) کوئی گروہ اس کا مدد گار نہ بن سکا ( الکہف :43)

جی ہاں ! ثابت شدہ حقیقت یہی ہے کہ ولائیت اللہ ہی کے لئے ہے ‘ کسی دوسرے کے پاس کوئی ولائیت نہیں ہے -

مومن بھی ولی ہے :

قارئین کرام آپ نے دیکھ لیا کہ جن معنوں اور مفاہیم میں اللہ تعالیٰ ولی ہیں‘ ان معنوں میں دوسرا کوئی ولی نہیں ہے -باقی مومن بھی ولی ہیں مگر وہ ولی ان معنوں میں ہیں کہ وہ آپس میں ایک دوسرے کے کام آنے والے -خوشی اور غم میں ساتھ دینے والے ہوتے ہیں اور سب سے بڑی مدد گار ی یہ ہے کہ وہ آپس میں ایک دوسرے کو اللہ اور رسول کی اطاعت پر قائم رکھتے ہیں-چنانچہ ان معنوں میں دیکھئے ان اولیاءکرام کی صفات حمیدہ.... کہ وہ ولی کیسے ہوتے ہیں ؟

وَالمُومِنُونَ وَالمُومِنَاتُ بَعضُھُم اَولِیَائُ بَعضٍ یَا مُرُ و نَ بِالمَعرُوفِ ِوَ یَنھَون َ عَنِ المُنکَرِ وَ یُقِیمُو نََ الصَّّلٰو ةَ وَ یُ تُو ن َ الزَّ کا ة َ وَ یُطِیعُون َ اللَّہَ وَ رَسُولَہُ اُ ولٰٓئِکَ سَیَرحَمُھُمُ اللَّہُ اِ نَّ اللَّہََ عَزِیز حَکِیم

ترجمہ : مومن مرد اور مومن عورتیں ایک دوسرے کے ولی ہیں- وہ نیکی کا حکم دیتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں ا ور زکوٰة دیتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرتے ہیں - ان لوگوں پر اللہ ہر صورت رحم فرمائے گا- بلاشبہ اللہ غالب حکمت والاہے -

( التوبہ : 81)

قارئین کرام ! اس فرمان الٰہی سے معلوم ہوا کہ ولی وہ ہے جو !

( 1) نیکی کی تلقین کرے

(2) برائی سے روکے

(3) نماز قائم کرے

(4) زکوٰة اداکرے

(5) اللہ کی اطاعت کرے

(6) رسول کی اطاعت بجالائے

یہ چھ خصوصیات جن میں پائی جا ئیں وہ ولی ہیں اور مومنین جو ان خصوصیات کے حامل ہیں -ولی ہیں -قرآن و حدیث میں یہ کہیں نہیں آیا کہ ولی وہ ہوتے ہیں جن سے کرامات کا صدور ہو - جھوٹے سچے قصے ان کے بارے میں معروف ہوں- حیرت ہے کہ آج ولیوں کا ایک گروہ پیدا ہوگیا اور بعض ولی نسل در نسل چلتے ہیں - باپ مرگیا تو بیٹا گدی نشین بن کر ولی بن گیا - پھر پوتا بن گیا‘ یوں ولیوں کی نسلیں پید ا ہوگئی ہیں اور ہوتی چلی جارہی ہیں -

یاد رکھئے ! ولیوں کو ماننے کا مطلب یہی ہے کہ جو شخص مندرجہ بالا چھ خصوصیا ت کا حامل ہو‘ اس کے بارے میں حسن ظن رکھا جائے کہ وہ اللہ کاولی ہے -باقی ہم کوئی گارنٹی نہیں دے سکتے کہ وہ اللہ کا ولی ہے کیونکہ اللہ اپنے جس بندے کو ولی بنائے گا تو مندرجہ بالا خصوصیات کی بناء پر بنائے گا- اس نے کس کو بنایا ہے اور کس کو نہیں بنایا ہمیں کچھ معلوم نہیں- اور یہ یاد رکھئے ! کہ ہم جس شخص کے بارے میں حسن ظن کرکے اسے اللہ کا ولی یعنی اللہ کا دوست سمجھتے ہیں تو اسے ماننے کا مطلب یہ ہے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت میں دوسرے معنوں میں قرآن و حدیث کے ا حکامات کی روشنی میں ہمیں نیکی کا حکم کرتا ہے اور برائی سے روکتا ہے توہم اس کے اس وعظ ونصیحت سے فائدہ اٹھائیں اس پر عمل کریں اور ایسا کرنے والے کی عزت و توقیر کریں‘ اس کا احترام کریں -

لیکن احترام کا یہ مطلب نہیں کہ اسے اللہ کا شریک بنا کر اس کی پوجا پہ لگ جائیں -ا س کے مرنے پر اس کی قبر کو عبادت گاہ اور میلہ گاہ بنالیں-اس بات کو ایک دوسرے انداز سے یوں سمجھیں کہ ماں بھی عورت ہے اور بیوی بھی عورت ہے - ماں کا اس قدر بلند مقام ہے کہ اللہ نے قرآن میں متعدد مقامات پر جہاں اپنی بندگی کا ذکر کیا اس کے فوراً بعد ماں باپ کی اطاعت کا تذکرہ کیا - وجہ یہ ہے کہ اللہ نے بندے کو پیدا کیا تو پیدائش کا سبب ماں باپ کو بنایا - اللہ نے پھر ان دونوں میں بھی ماں کے مقام کو مقدّ م رکھا اور فرمایا: کہ وہ بچے کو نوماہ تک.... تکلیف اٹھائے پیٹ میںاٹھا ئے پھرتی ہے- اسی لئے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ایک نوجوان کو جو نصیحت کی تو ماں کے اکرام کی بات تین بار کی جب کہ باپ کا ذکر ایک بار کیا- اب اگر کوئی ناداں یوں کرے کہ بیوی کی محبت میںمبتلا ہوکر اس قدر آگے چلا جائے - اس کی عزت و توقیر میں اس حدتک چلا جائے کہ بیوی کو ماں کہنا شروع کردے“ تو کیا ہوگا ؟ لامحالہ ! اس کا نکاح خطرے سے دوچار ہوجائے گا ‘ محض بیوی کو ماں کہنے سے ‘ اب بیوی کے ساتھ وہ خاص تعلق اور رشتہ کھو بیٹھے گا جو خاوند اور بیوی کا ہوتا ہے - بالکل جناب والا! ....اسی طرح اگر کوئی مرید اپنے پیر اور مرشد کی محبت میں مبتلا ہو کر اسے ایسا ولی بنا ڈالے کہ اسے مشکل کشا ‘ داتا اور دستگیر کہنا شروع کردے تو یقیناً اس کا ایمان خطرے سے دوچار ہو جائے گا - وہ شرک کا مرتکب ہوجائے گا -

ولیوں سے محبت کیجئے !

میرے پیار ے بھائیو! اللہ کے ولیوں سے محبت کیجئے- ضرور کیجئے لیکن پہلی بات تو یہ ہے کہ سورة توبہ میں ولیوں کی دی ہوئی پہچان کو سامنے رکھ کرکسی کو ولی خیال کیجئے اور پھر اسے محبت دیجئے ....اور اس محبت میں بھی یہ خیال ضروررکھئے کہ محبت بھی کئی طرح کی ہوتی ہے -محبت ایک لفظ ہے جس کا تعلق جذبات سے ہے- تو یہ محبت ماں سے بھی ہوتی ہے لیکن یہ اور طرح کی ہوتی ہے‘ بڑے احترام واکرام والی ہوتی ہے- اور محبت بیوی سے بھی ہوتی ہے - یہ محبت بھی بڑی پاکیزہ ہوتی ہے لیکن یاد رکھئے ! بیوی والی محبت ماں سے نہیں کی جاسکتی کہ یہ محبت تو سراسر حرام اور ناپاک ہے -

جی ہاں! بات سمجھئے ! جو اللہ سے محبت ہے وہ بحیثیت معبود اور مسجود ہے - اللہ کی محبت میں ڈوب کر بندہ اس کے حضور قیام کرتا ہے - رکوع میں جاتا ہے - سجدے میں گرتاہے - اس کو پکارتا ہے - ہاتھ اٹھا کردعائیں کرتا ہے - رات کے اندھیر ے میں اس کو بن دیکھے اس کے ساتھ سر گوشیاں کرتا ہے- یہ عقیدہ رکھ کرکہ وہ میرا اللہ میری ہر حرکت اور میرے ہر بول سے آگا ہ ہے -وہ میرے ساتھ ہے - میر ی شہ رگ سے بھی زیادہ میرے قریب ہے -ہے وہ عرش پر مگر اپنے علم کے زور پر آگا ہ ہے - اب اگر ایسی محبت کا انداز آپ نے کسی اور کے ساتھ اختیار کرلیا- کسی مومن ولی کے ساتھ اختیار کرلیا تو آپ نے ظلم عظیم کرلیا - محبت میںشرک کا ارتکاب کر لیا- دوسرے لفظوں میں اللہ سے محبت کا مطلب یہ ہے کہ اللہ ہی کی عبادت کی جائے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا مطلب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل اطاعت ہے -جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

مَن اَ حَبَّ سُنَّتِی فَقَد اَ حَبَّنِی

”جس نے میری سنت سے محبت کی اس نے میرے ساتھ محبت کی “

اسی طرح ولی کے ساتھ محبت کا مطلب یہ ہے کہ اگر وہ کتاب و سنت کا پیرو کار ہے تو اس کی نصیحت کو سنا جائے- وہ کتاب وسنت کامبلغ ہے تو اس کا ساتھ دیا جائے- اس سے تعاون کیا جائے- دین کی سربلندی کے لئے اس کا ساتھی بن کر اپنا مال خرچ کیا جائے - پسینہ بہایا جائے اور خون بھی پیش کرنا پڑے تو وہ بھی پیش کردیا جائے- وہ بیمار ہوتو عیادت کی جائے - تحفہ تحائف پیش کیے جائیں کہ اس سے محبت بڑھتی ہے - ایسے زندہ ولی سے رب کے حضوردعا کروائی جائے - یہ ہے ولی سے محبت اور اسے ماننا - بس ماننے ماننے میں فرق ہے محبت محبت میں فرق ہے - ہم کہتے ہیں !

(۱) رب کو رب مانو اور اسی ہی کی عبادت کرو

(۲) رسول کو رسول مانو اور اس کی اطاعت کرو

(۳) نیک بندوں کو بندے ہی رہنے دو اور دین کی سربلندی کے لئے ان کا ساتھ دو اور اگروہ فوت ہوچکے ہیں تو ان کے لئے بخشش کی دعاکرو اور ان کے وہ اچھے کام جو کتاب و سنت کے مطابق تھے ان کو اختیار کرو-

خوف اور غم :

ایسے جو اللہ کے ولی یعنی دوست ہیں - ان کے بارے اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں ایک دو نہیں بارہ مقامات پر ” لا خوف علیھم ولا ھم یحزنون “ کا جملہ استعمال فرمایا ہے - لو گ تو صرف ایک آیت پڑھتے ہیں

اَلاَاِنَّ اَولِیَا ئَ اللَّہ لاَ خَوف عَلَیھِم وَلاَ ھُم یَحزَنُونَ ( یونس : 26)

اور پھر ہم پر الزامات کی بوچھاڑ کردیتے ہیں کہ جناب ! لو- دیکھو ! یہ تو اولیاء کرام کو مانتے ہی نہیں- جی ہاں! ہم مانتے ہیں مگر اس طرح نہیں کہ جس طرح آپ منوانا چاہتے ہیں - ہم مانتے ہیں اس طرح جس طرح رب کا قرآن منواتا ہے -تو آئیے ! ایک نہیں بارہ مقامات دیکھئے اور غور کیجئے کہ قرآن کس طرح منواتا ہے ؟فرمایا :

فَاِمَّا یَاتِیَنَّکُم مِّنِّی ھُدًی فَمَن تَبِعَ ھُدَایَ فَلاَ خَوف عَلَیھِم وَلاَ ھُم یَحزَنُونَ

پھر جب تمہارے پاس میری جانب سے ہدایت ( قرآن و حدیث ) آجائے تو جو شخص میری ہدایت کی پیروی کرے گا - ایسے لوگوں پر نہ خوف ہوگا اور نہ وہ غم کھائیں گے-

( البقرہ : 38)

دوسرا مقام ملاحظہ ہو!

بَلیٰ مَن اَسلَمَ وَجھَہُ لِلَّہِ وَھُوَ مُحسِن فَلَہُ اَجرُہُ عِندَ رَبِّہ وَلاَ خَوف عَلَیھِم وَلاَ ھُم یَحزَنُونَ

ترجمہ : کیوں نہیں ! جس کسی نے بھی اپنا چہرہ اللہ کے حضور خم کردیا اور وہ محسن بھی ہے ( یعنی سنت مصطفیٰ کا پابند ) تو اس کے لئے اس کا اجر اس کے رب کے پاس ہے اور ایسے لوگوں پر نہ خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے-

( البقرہ : 112)

تیسرا مقام :

الَّذِینَ یُنفِقُونَ اَموَالَھُم فِی سَبِیلِ اللَّہِ ثُمَّ لاَ یُتبِعُونَ مَا اَنفَقُو ا مَنًّا وَلاَ اَذًی لَّھم اَجرُھُم عِندَرَبِّھِم وَلاَ خَوف ........ الخ

ترجمہ : وہ لوگ جو اپنے مالوں کو اللہ کے راستے میں خرچ کرتے ہیں پھر خرچ کے بعد نہ تو احسان جتلاتے ہیں اور نہ ( جس کو دیا اس کو ) ستاتے ہیں - ان کے لئے ان کی مزدوری ان کے پروردگار کے ہاں ہے اور ( قیامت کے دن ) ان پر نہ ڈر ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے -

( البقرہ : 262)

چوتھا مقام:

اَلَّذِینَ یُنفِقُونَ اَمواَلَھُم بِالَّیلِ وَ النَّھَارِ سِرّاً وَ عَلاَنِیَةً فَلَھُم اَجرُھُم عِندَرَبِّھِم وَلاَ خَوف عَلَیھِم وَلاَ ھُم یَحزَنُونَ

ترجمہ : وہ لوگ جو اپنے اموال رات اور دن میں کسی بھی وقت ‘ پوشیدہ اور اعلانیہ خرچ کرتے ہیں- ان کےلئے ان کا ثواب ان کے رب کے پاس ہے اور ان پرنہ کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ غم کھائیں گے -

( البقرہ : 274)

پانچواں مقام :

اِنَّ الَّذِینَ اٰ مَنُوا وَ عَمِلُو الصَّالِحَاتِ وَاَ قَامُو ا الصَّلَوٰةَ وَ اٰ تُوا الزَّکوٰةَ لَھُم اَجرُھُم عِندَ رَبِّھِم وَلاَ خَوف عَلَیھِم وَلاَ ھم یَحزَنُونَ

ترجمہ : بلا شبہ وہ لوگ جو ایمان لائے اور انہوں نے نیک اعمال کئے اور نماز قائم کی‘ ان پر نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ غم میں مبتلا ہوں گے-

( البقرہ : 277)

چھٹا مقام:

اِنَّ الَّذِینَ اٰ مَنُو ا وَالَّذِین ھَادُوا وَالصَّابِئُونَ وَالنَّصَاریٰ مَن اٰ مَنَ بِاللَّہِ وَالیَومِ الآٰخِرِوَ عَمِلَ صَالِحاً فَلاَ خَوف عَلَیھِم وَلاَ ھُم یَحزَنُونَ

ترجمہ : بلاشبہ وہ لوگ جو (دل سے نہیں ظاھر ی طور پر) ایمان لائے اور وہ جو یہودی ہوئے اور صابی ( بے دین ) اور عیسائی ہوئے ( غرض ان میں سے ) جو کوئی بھی ( سچے دل سے ) اللہ اور قیامت پر ایمان لائے اور عمل صالح کرے تو ایسے لوگوں پر بھی نہ کوئی خوف ہوگا اورنہ وہ مبتلائے غم ہوں گے -

( المائدہ : 69)

ساتوا ں مقام :

وَمَا نُرسِلُ المُرسَلِینَ اِلاَّ مُبَشِّرِینَ وَ مُنذِرِینَ فَمَنَ اٰ مَنَ وَ اَصلَحَ فَلاَ خَوف عَلَیہِ ........ الخ

ترجمہ : اور نہیں بھیجتے ہم رسولوں کو مگر ( اس مقصد کے لئے کہ وہ نیکوں کو ) خوشخبری سنائیں ( اور منکروں کو ) ڈرائیں- پھر جو کوئی ایمان لایا اور اصلاح کی تو ایسے لوگوں پر نہ خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے -

( الا نعام : 48)

آٹھواں مقام:

َیَابَنِی اٰدَمَ اِمَّا یَا تِیَنَّکُم رُسُل مِّنکُم یَقُصُّونَ عَلَیکُم اٰ یٰتِی فَمَنِ اتَّقٰی وَ اَ صلَحَ فَلَا خَوف عَلَیھِم وَلاَ ھُم یَحزَ نُون

ترجمہ :اے آدم کے بیٹوں! جب تمہارے پاس تمہی میں سے رسول آئیں- تمہیں میری آیات سنائیں تو جس نے بھی تقویٰ اختیار کیا اور اصلاح کی تو ایسے لوگوں پر نہ ڈر ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے

( الاعراف : 35)

نواں مقام:

ان َّ الَّذِینَ قَالُوا رَبُّنا اللَّہُ ثُمَّ استَقَامُوا فَلاَ خَوف عَلَیھِم وَلاَ ھُم یَحزنُون َ

ترجمہ : بلاشبہ وہ لوگ کہ جنہوں نے کہا ہمارا رب اللہ ہے پھر وہ ڈٹ گئے تو ان پر نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ غم کھائیں گے -

( الا حقاف: 13)

دسواں مقام:

اَلاَ اِنَّ اَولِیَاءَ اللَّہِِ لاَ خَوف عَلَیھِم وَلاَ ھُم یَحزَنُونَ ٭ الَّذِینَ اٰ مَنُوا وَکَا نُو ا یَتَّقُونَ

ترجمہ : خبردار ! بلاشبہ اللہ کے ولی جو ہیں ان پر نہ خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے وہ کہ جو ایمان لائے اور وہ پرہیز گار رہتے تھے -

( یونس : 62: 63)

مزید دو مقامات :

قارئین کرام! ہم نے انہی بارہ مقامات کو درج کرنے کا ارادہ کیا کہ جن کے آخرمیں ” لاَخَوف عَلَیھِم وَلاَ ھُم یَحزَنُونَ “ کے جملے آتے ہیں تاہم ایسے بقیہ دو مقامات ہم آخر میں درج کریں گے- فی الحال یہاں درمیان میں ہمارا یہ مضمون اپنے عنوان کے لحاظ سے مزید واضح ہوگا کہ جب ہم قرآن کی مزید دو آیات پیش کریں گے- یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ یہ دو آیا ت جو ہم مزید وضاحت کےلئے پیش کررہے ہیں ‘ ان میں بھی خوف اور حزن ( غم ) کے الفاظ ہی آئے ہیں-تو اب ملاحظہ کیجئے یہ دو مقامات ! فرمایا:

(۱) اِنَّ الَّذِینَ قَالُو ا رَبُّنَا اللَّہَ ثُمَّ استَقَامُو ا تَتَنَزَّلُ عَلَیھِم المَلاَئِکَةُ اَلاَّ تَخَافُوا وَلاَ تَحزَ نُوا واَبشِرُوا بِا لجَنَّةِ الَّتِی کُنتُم تُوعَدُون ٭ نَحنُ اَولِیَا ئُ کُم فِی الحَیَا ةِ الدُّ نیَا وَ فِی لاٰ خِرَ ة ِ وَ لَکُم فِیھَا مَا تَشتَھِی اَنفُسُکُم وَلَکُم فِیھَا مَا تَدَّعُون ٭ نُزُلاً مِّن غَفُورِالرَّحِیم

ترجمہ : بلاشبہ وہ لوگ کہ جنہوں نے کہا: ہمارا رب توہے اللہ -پھر وہ ڈٹ گئے - ان پر ( رحمت کے ) فرشتے نازل ہوتے ہیں ( زندگی کی مشکلات میں ‘ دوران دعوت و تبلیغ ‘ جہاد و قتال ‘ مرتے وقت ‘ قبر میں اور قیامت کے دن اور وہ کہتے ہیں ) کہ مت ڈر و اور نہ ہی غم کھ بلکہ خوشخبری سنو اس جنت کی جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا - ( ڈر غم کی کیا ضرورت ) ہم تمہارے ولی ( دوست ‘ساتھی ) ہیں- دنیا کی زندگی میں بھی اور آخرت میں بھی اور اس جنت میں تمہارے لئے وہ سب کچھ ہوگا جسے تمہارے دل چاہیں گے اور وہاں تمہارے لئے موجود ہوگا جو تم مانگو گے - مہربان ‘ در گزر کرنے والے ( رب ) کی طرف سے مہمان نوازی ھوگی -

( حم السجدہ : 30 تا‘ 32)

(۲) اَلاَ خِلَّآَ ئُ یَو مَئِذٍ بَعضُھُم لِبَعض عَدُو اِلاَّ المُتَّقِینَ ٭ یَا عِبَا دِ لاَ خَو ف عَلَیکُم وَالیَو مَ وَلاَ اَنتُم تَحزَ نُون

ترجمہ : اس دن ( روز قیامت ) پرہیز گاروں کے علاوہ سب دوست ایک دوسرے کے دشمن بن جائیں گے ( متقین سے اللہ کہیں گے ) اے میر ے بندو ! آج کے دن تم پر کوئی خوف نہیں اور نہ ہی تم غمزدہ ہوگے-

( الزخرف 67 : 68 )

گیارھواں مقام :

وَلاَ تَحسَبَنَّ الَّذِ ینَ قُتِلُو ا فِی سَبِیلِ اللَّہ اَموَاتاً بَل اَحیَا ئ عِندَ رَبِّھِم یُرزُقُونَ ٭ فَرِ حِینَ بِمَا اٰ تٰھُم اللَّہُ مِن فَضلِہ وَ یَستَبشِرُونَ بِالَّذِینَ لَم یَلحَقو ا بِھِم مِّن خَلفِھِم اَلاَّخَوف عَلَیھِم وَلاَ ھم یَحزَنُونَ

ترجمہ : جو لوگ اللہ کے راستے میں قتل کردئے گئے انہیں مردہ مت خیال کرو بلکہ وہ تو زندہ ہیں‘ اپنے رب کے ہاں سے رزق دئیے جارہے ہیں- وہ اس بات پر خوش ہیں کہ جو اللہ نے انہیں اپنے فضل سے عطا فرمایا ہے اور ان لوگوں ( مجاہدین ) سے بہت خوش ہوتے ہیں جو ان کے پیچھے ( دنیا ) میں ہیں -اور ابھی تک ( شہید ہوکر ) ان سے ملے نہیں کہ انہیں کچھ خوف نہیں ہوگا اور نہ وہ غمزدہ ہوں گے -

( اٰ ل عمران : 169‘ 170)

بارھواں مقام:

اُدخُلُو الجَنَّةَ لاَ خَوف عَلَیکُم وَلاَ انتُم تَحزَنُونَ

ترجمہ : ( اللہ اعلان کریں گے ) جنت میں داخل ہو - تم پر کوئی خوف نہیں ہے اور نہ ہی تمہیں کسی غم کا اندیشہ ہے -

( الاعراف : 49)

خلاصہ کلام

قارئین کرام ! آپ نے بارہ کے علاوہ مزید دو مقاما ت بھی ملاحظہ فرمالئے.... ! وہ ولی کہ جسے کوئی خوف اور غم نہیں مندرجہ بالا قرآنی مقامات کے مطابق اسے خوف و غم سے نجات کا مقام تب ملے گا جب وہ !

(1) اللہ کی طرف سے نازل شدہ ہدایت کی پیروی کرے گا

(2) اس نے اپنا چہرہ اللہ کے سامنے خم کردیا اور نیک بن گیا

(3) اس نے اللہ کے راستے میں مال خرچ کیا پھرنہ احسان جتلایا اور نہ ستایا

(4) دن رات خفیہ اور اعلانیہ اپنا ما ل خرچ کیا

(5) ایمان لایا ‘ نیک عمل کئے ‘ نمازی بنا ‘ زکوٰة ادا کی

(6) منافق ‘ یہودی ‘ بے دین ‘ عیسائی وغیرہ کوئی بھی ہو وہ تائب ہو کر اللہ پر ایما ن لے آیا اور آخرت کے دن کو مان لیا تو وہ بھی ولیوں کے زمرے میں شامل ہوجائے گا

(7) جو ایما ن لایا اور اس نے اپنی اور لوگوں کی اصلاح کا کام کیا

(8) اللہ کی طرف سے نازل شدہ ہدایت کو مانا پھر تقویٰ اختیار کیا اور اصلاح کی

(9) ا للہ کو رب مان کر پھر اس کی توحید پر‘ اس کے دین پر ڈٹ گیا

(10) ایمان لایا پرہیز گار بن گیا

(11) اللہ کے راستے میں جہادو قتال کرتے ہوئے‘ شہید ہوئے وہ جنتوں میں خوش ہیں اور اس بات پر بھی خوش ہیں کہ ان کے جو ساتھی ان کے پیچھے دعوت و اصلاح اور جہاد و قتال کے راستے پہ لگے ہوئے ہیں جب وہ ان سے آن ملیں گے تو ان کی طرح انہیں بھی خوف ہوگا نہ غم

(12) ان لوگوں کے لئے اللہ تعالیٰ اعلان فرمائیں گے کہ جنت میں داخل ہو -

قارئین کرام ! یہ ہیں اللہ کے ولیوں کی خصوصیا ت جو قرآن بیان کررہا ہے اور واضح کررہا ہے کہ یہ لوگ توحید و سنت کا احیاء کرنے والے ‘ اصلاح کا کام کرنے والے - جہاد کرنے والے ‘ جانیں دینے والے اور شہادت کی موت پانے والے ہیں .... جی ہاں ! یہ ہیں وہ لوگ کہ جنہیں مظلوم عورتیں ‘ بوڑھے اور بچے کافروں کے ظلم سے تنگ آ کر پکار رہے ہیں‘ اپنی مدد کے لئے بلارہے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے یوں فریا د کناں ہوتے ہیں :

وَاجعَل لَّنَا مِن لَّدُنکَ وَلِیَّاً

وَاجعَل لَّنَا مِن لَّدُنکَ نَصِیراً

” اے ہمارے پروردگار ! ہمارے لئے اپنے پاس سے کوئی ولی بھیج- اپنی جناب سے کوئی مدد گار بھیج -“

اور پھر یہ ولی .... صحیح مسلم میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق ” یطیر علی متنہ “ گھوڑے کے دوش پر اڑتا ہوا پہنچتا ہے اور” یَبتَغِی القَتلَ مَظَانَّةً “

موت کو موت کی جگہوں سے تلاش کرتا ہے - شہادت پانے کے لئے بے تاب ہوتا ہے - تو یہ ہیں جناب اللہ کے سچے ولی - ان کو کون نہیں مانتا ؟ اور کون انکی گستاخی کرسکتا ہے ؟

اور اب آئیے ! پڑھتے ہیں ان ولیوں کی داستانیں کہ جنہیں نہ ماننے کی وجہ سے ہمیں گستاخ کہا جاتا ہے .... آئیے ! ملاحظہ کیجئے ! فیصلہ کیجئے - قرآن کی میزان میں تول کر .... میرے پیارے بھائی !

فیصلہ تیرا تیرے ہاتھوں میں ہے !!میں تیرے لئے اپنے اللہ کریم و رحیم سے دعا گو ہوں کہ وہ تجھے اسی فانی دنیا میں ہی اپنے سچے ‘ سُچے اور صحیح ولی کی پہچان کرنے کی توفیق دے -( آمین)
Hameed Qadri
About the Author: Hameed Qadri Read More Articles by Hameed Qadri: 2 Articles with 10167 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.