’’کب سے بنجر تھی نظر، خواب تو آیا‘‘

خواب خرگوش کے مزے ہر کوئی لوٹتا ہے۔ چاہے معاشرے کے کسی بھی طبقہ سے تعلق رکھتا ہو، امیر ہو یا فقیر ہو، کوئی شاہ ہو یا وزیر ہو۔ ویسے خواب دیکھنے پر کوئی کسی قسم کی پابندی بھی نہیں ہے۔اور اس مہنگائی کے دور میں خواب ہی ایک ایسی چیز ہے، جو مفت میں دیکھے جاسکتے ہیں۔خوابوں میں مگن ہونے کا کوئی وقت مقرر نہیں ہے۔یہ کسی بھی وقت آسکتے ہیں۔یہ کسی کی ذات پات، رنگ نسل، قوم قبیلہ، ملک علاقہ نہیں پوچھتے ، بس نیند کی دیوی کے قربان ہوتے ہی آجاتے ہیں۔جونہی نیند کی دیوی کی آمد ہوتی ہے خواب بھی تشریف لے آتے ہیں۔اور پلکوں میں اتر کر اپنی نرم و گداز گود میں لے لیتے ہیں۔خوابوں کی اپنی ہی الگ ایک دنیا ہوتی ہے۔اپنا ضابطہ حیات ہوتا ہے۔اپنا قانون، اپنا طرز عمل ہوتا ہے۔کبھی رلاتے ، کبھی ہنساتے، کبھی ہنستے کو رلا دیتے اور کبھی روتے کو ہنسا دیتے ،کبھی ڈراتے اور خوفزدہ کر دیتے ہیں۔کبھی تو آسمان کی بلندیوں پر لے اڑتے ہیں اور بلند و بالاپہاڑوں، آبشاروں، ندی نالوں، مختلف ملکوں کی سیر کراتے ہیں، پرستان کی پریوں ، دیووؤں سے ملاقات کراتے اور آسمان کی پنہائیوں میں اڑائے لے جاتے ہیں ۔ اور کبھی صرف فضاؤں میں ہی قلابازیاں دے کر لا زمین پر پٹختے ہیں۔

ماہریں نفسیات کا کہنا ہے کہ دن کے اجالے میں تشنہ رہ جانے والی امنگوں، تمناؤں،شکستہ آرزوؤں کی تکمیل حضرت انسان خوابوں میں کر لیتا ہے۔ اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ یہ غریبوں، ناداروں، کمزوروں کے لیے بہت کم ہے، کم از کم خوابوں میں تو وہ اپنی آرزوؤں کی تکمیل دیکھتے ،وگرنہ تو کھلی اور جاگتی آنکھوں یہ ناممکنات میں سے لگتا ہے۔اور جاگتی آنکھوں معمولی سے معمولی چیز کی طرف دیکھتے ہوئے بھی ڈر لگتا ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ پوچھ بیٹھے: ’’اوئے! خریدنے کی طاقت نہیں ہے تو دیکھتا کیوں ہے؟جا، جا ہٹ یہاں سے، پرے ہٹ۔ ‘‘جیسے آج کل ٹماٹر، دام پوچھتے ہوئے بھی دانتوں کو پسینہ آجاتا ہے۔ کچھ لوگ جاگتے میں خواب دیکھتے ہیں۔ کوئی حالات کے سنورنے کے خواب، کوئی بیٹی کے ہاتھ پیلے کرنے کے خواب،کوئی یتیم و بے سہارا بچوں کی آسودگی کے خواب، تو کوئی اپنے مکان و کاروبار کے خواب۔ جاگتی آنکھوں دیکھے گئے خوابوں کی تعبیر کے لیے بعض لوگ سر دھڑ کی بازی لگا لیتے ہیں۔ یہاں تک کہ اس خواب کی تعبیر کو پا لیتے ہیں۔اور کچھ لوگ صرف آنسو بہانے اور شکوے کرنے میں اپنا قیمتی وقت ضائع کر لیتے ہیں۔

دیکھا جائے تو کامیاب لوگوں کی کامیابی کے پیچھے خوابوں کا عمل دخل کار فرما ہوتا ہے۔ کیوں کی کامیاب افراد کی زندگی کا مطالعہ کیا جائے تومعلوم ہوتا ہے کہ، انہوں نے سب سے پہلے خواب دیکھے۔ تعبیر تو انہیں کو ملتی ہے جو خواب دیکھتے ہیں۔کافی عرصہ قبل ایک طالب علم ، علم حاصل کرتا ہے۔ وہ خواب دیکھتا ہے کہ اندھیرے میں روشنی کا کوئی انتظام ہونا چاہیے۔ اندھیرے کا کوئی علاج ہونا چاہیے۔ وہ تجربات کرتا ہے۔ غور و حوض کرنے کے بعد تعبیر کو پا لیتا ہے۔ وہ بلب ایجاد کر لیتا ہے۔علامہ ا قبا لؒ خواب دیکھتے ہیں کہ مسلمانوں کے لیے الگ مملکت ہونی چاہئے، جہاں وہ دین اسلام کے مطابق شریعت کے اصولوں کو مدنظر رکھ کر زندگی گزار سکیں، سو! پاکستان وجود میں آجاتا ہے۔ اسی طرح عبدالستار ایدھی روڈ سائڈ پر ایک مریض کو تڑپتا ہوا دیکھ کر خواب دیکھتے ہیں کہ کوئی ایسی صورت ہو جائے کہ بیماروں کے لیے ایمبولینس کی سہولت میسر ہو۔ خواب سجا کر تعبیر پانے میں جت جاتے ہیں ۔ چند دنوں میں ایمبولینس کا سسٹم پورے پاکستان میں پھیلا دیتے ہیں۔

معلوم ہوا کامیابی کے لیے خواب دیکھنے ضروری ہیں ۔ یعنی کامیابی کا راز ہی اس میں ہے کہ خواب دیکھے جائیں۔آپ بھی خواب دیکھیں لیکن کسی کے دکھائے خوابوں پر یقین ہر گز نہ کریں۔ جیسے فصلی بٹیرے خواب دکھائیں ۔ کہیں پکی اور کشادہ سڑ ک کا خواب، پکی گلیوں کا خواب، کہیں پانی، ٹیوب ویل کا خواب، گندے پانی کی نکاسی کے کا خواب،پکے گھروں کا خواب، سوئی گیس کا خواب، صفائی ستھرائی کے بہترین نظام کا خواب، رشوت کلچر کے خاتمے کا خواب، میرٹ کی بالادستی کاخواب، ایسے خوابوں پر بالکل یقین نہ کریں۔ یہ خواب وہ صرف ووٹوں کے لیے دکھا رہے ہیں۔آپ نے ان کی آنکھوں خواب دیکھ لیے تو تعبیر نہ پائیں گے البتہ پانچ سال تک خود کو ضرور کوستے رہیں گے۔ یہ لوگ عوام کی خواہشات کا خون کرتے ہیں اور ان کی کوشش ہوتی ہے کہ عوام کی لگام یہ اپنے ہاتھ میں رکھیں۔

خواب کو ہتھیار بنا کر ووٹ حاصل کر لیے جاتے ہیں۔ بیان بازی ان کا پسندیدہ مشغلہ ہے۔بھاشن دیتے وقت ایسے ایسے خواب دکھاتے ہیں کہ بندہ خوابوں ہی خوابوں میں کہیں کا کہیں پہنچ جاتا ہے ۔ مگر اس غبارے سے ہوا تب نکلتی ہے جب وہ ہمارے ووٹوں کے ذریعے منتخب ہو کرہمارے علاقے کا رخ ہی نہیں کرتے۔ آنکھیں ان کی راہ تکتے ہی پتھرا جاتی ہیں۔ یہاں تک کہ دوبارہ ووٹوں کے دن قریب آجاتے ہیں۔یہ پھر سے نئے خواب سجانے ، آنکھوں میں دھول جھونکنے پروٹوکول سے آتے ہیں۔ پانچ سال قبل ہونے والی فوتگی کی دعا کرتے ہیں، کہیں مریض کی عیادت کرتے ہیں۔علاقے کے اسکول و کالج کا دورہ کرتے ہیں۔ کانفرس اور جرگے منعقد کیے جاتے ہیں۔ لوگوں کی شکایات و مسائل سننے، کھلی کچہری کا انتظام کیا جاتا ہے۔ لوگوں کی درخواستوں پر دستخط کیے جاتے ہیں۔ اس کے بعد پھر سے وہی تماشا ہوتا ہے۔

یاد رہے: ’’یہ فصلی بٹیرے فکر معاش سے آزاد ہوتے ہیں۔ بنی اسرائیل کے بعد یہی ایک قوم ہے جس پر’’ من و سلوٰی‘‘نازل ہوتا ہے۔‘‘اس لیے آپ ان کے دکھائے خوابوں میں نہ آئیں بلکہ اپنی آنکھوں خواب دیکھیں، پھر ان کی تعبیر پانے کے لیے محنت کریں۔تا کہ آپ اور آپ کی اولاد کی زندگی سنور جائے اور آپ ترقی کرتے ہوئے کامیابی سے ہمکنار ہوں۔

Abdul Basit Zulfiqar
About the Author: Abdul Basit Zulfiqar Read More Articles by Abdul Basit Zulfiqar: 38 Articles with 31074 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.