جہالت کاخاتمہ کیوں ضروری ہے؟ قسط 4

جب یہ حدیث بیان کی جاتی ہے کہ بچّے فطرت اسلام پر پیدا ہوتے ہیں اور ان کے والدین اور پرورش کرنے والے انھیں یا تو عیساِئی بنا لیتے ہیں یا یہودی بنا دیا جاتا ہے یا مجوسی بنا دیا جاتا ہے تو سیکولر دانشور اسی بات کو غلط طریقے سے نافذ کر دیتے ہیں کہ مسلمانوں کے بچّوں کی ہم تربیّت نہیں کرنے دیں گے تاکہ وہ فطرت اسلام پر پیدا ہوئے ہیں تو باقی خاندان برادری والوں کو ان کی پیروی کرنی چاہیے پھر کوئی اور پیر پکڑنے کی ضرورت ہی کیا ہے بچّے جو اسلام کی فطرت کے مطابق پیدا ہوتے ہیں تو ان کو ان حال پر چھوڑ کر ان کی پیروی سارے لوگ کریں حالانکہ حدیث کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے

سامری کے علاوہ کارون نے بھی جان بوجھ کر جہالت کا مظاہرہ کیا تھا وہ بھی جانتا تھا کہ میری ساری قوم فرعون اور اس کی قوم کی غلامی میں بدترین مظالم نسل در نسل سہتی رہی ہے لیکن شیطان جب دولت کا نشہ سر چڑھا دیتا ہے تو اولیاء تو اولیاء انبیاء کی باتیں بھی سمجھ میں نہیں آتیں ہیں بلکل اسی طرح جب ان سیکولر بے دین لوگوں کو اللہ کے دین کی دعوت دی جاتی ہے تو آگے سے یہ جوابات دیتے ہیں کہ ہمارے سال ہاسال کے تجربات سے یہ باتیں ثابت ہو چکی ہیں کہ غرق کارون نہیں ہوا تھا بلکہ اس کے مخالفین غرق ہوئے تھے زمین میں کارون نہیں دھنسا تھا اور ہلاک سامری نہیں ہوا تھا یہ صرف مسلمانوں نے اپنے بچّوں کی نیکی کی تعلیم کے یے باتیں مشہور کر دی تھیں تاکہ اللہ کا پیغمبر ہم سے ناراض نا ہو جائے اور جو ناراضگی انہیں کارون کے رویّہ سے ہوئی تھی اسے دور کرنے کے لیے موسیٰ علیہ السّلام کی امّت نے حکمت عملی اختیار کی تھی یہ باتیں ان آج کل کے سیکولر بے لوگوں نے تجربات سے حاصل کی ہیں انہوں اور تجربات انہوں نے کیسے کیے ہیں فلمیں اور ڈرامے بنا بنا کر اور اس طرح سے آج کل کے سیکولر سائنٹسٹوں اور دانشوروں نے دائمی قوانین ترتیب دئیے ہیں جیسے دائمی اوقات نماز اور دائمی اوقات سحر و افطار اور گھڑیوں کا سیٹ کرنا کہ آج کل ایسی کھڑیاں ایجاد ہو چکی ہیں جو یہ فرق بھی جانی ہیں کہ چار سال بعد فروری 29 دن کا ہوتا ہے اور ہفتہ اتوار سوموار کس کس تاریخ کو آنے والا ہے -

یہی وہ جاہلانہ سوچ ہے کہ مال دار میں زیادہ ہوں اور اس لیے کوئی ولی ہو یا نبی ہو اس کے معجزہ یا کرامت کا بھی میں ہی مالک ہوں بلکل وہی سوچ جو فرعون کی تھی کہ میں تمام معبودوں سے بڑا معبود ہوں کیونکہ میں ملک کا بادشاہ ہوں اور شیطان نے سائنٹسٹوں کاہنوں اور جادوگروں کو یہ باتیں ذہن نشین کرا رکھی ہیں کہ یہ جو قرآن پاک مسلمانوں کے پاس ہے یہ فرعون نے معاذاللہ محمد صاحب کو وحی کرائی تھی اور انہوں نے ان پڑھ ہونے کے باوجود اپنے اصحاب سے لکھوائی تھی اسی نے ساری کائنات کو تخلیق کیا تھا یہ باتیں ان لوگوں کو بتائی جاتی ہیں جو سال ہا سال کی فنون کہانت اور جادوگری کی تعلیم حاصل کر چکے ہوتے ہیں اور بڑے بڑے تجربہ کار ڈاکٹر بن چکے ہوتے ہیں اور دلائل وہ یہ دیتے ہیں کہ اسی لئے تو فرعون کی لاش ابھی تک محفوظ ہے اور اسی لئے اسے ممّی کہا جاتا ہے کیوں کہ اسی کے کلمات کی وجہ سے تمام کار ہائے کائنات انجام پا رہے ہیں اللہ کی پناہ ایسے باطل عقائد کے شر سے یہ ایک دنیا کی نہایت تلخ حقیقت ہے کیونکہ یہ شیطان کے پھیلائے ہوئے عقائد باطلہ ہیں جن کو لے کر آج کے سپر پاوریں کہلانے والے ممالک کے اہم دماغ ہیں مثال کے طور پر امریکہ برطانیہ اسرائیل بھارت چائنہ روس جنوبی کوریا وغیرہ یہی وہ انتہائی ایٹمی نوعیّت کے راز ہیں جو ایم ایس سی اور پی ایچ ڈی والوں کو بتائے جاتے ہیں جن کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو لیکن وہ اس معاملے میں اپنے مذہب کا پرچار نہیں کر سکتے مگر اپنے حلقہ احباب کی حد تک ان میں بھی کوئی ایک بھی ایسا نہیں ہوتا جو اسلام کے مطابق زندگی گزارتا ہو -

اکثر اسلامی سوچ رکھنے والے سٹوڈینٹس جب تک تعلیم حاصل کرتے ہیں انھیں اپنی مذہبی سرگرمیاں بھول جانا پڑتی ہیں - جہالت کا اس قدر تعلیم کے نام پر پرچار تاریخ میں کبھی نہیں ہوا ہوگا جتنا اس دور میں کیا جارہا ہے اس بڑھ کر اور کیا جہالت ہوگی کہ ماں باپ اور بہن بھائیوں کے رشتوں کا کوئی لحاظ ہی نہیں رکھّا جاتا اور کزن اور سالی اور سالے ہار اور بہنوئی تو دور کی بات ہے اور تو اور والدین اور گھر کے سرپرستوں اور کفیلوں کو اس بات پر کوئی گناہ محسوس ہی نہیں ہوتا بچَوں کو پیدا ہونے سے روکنے کا کتنا بڑا گناہ ہے لیکن دنیا بھر میں جدید تہذیب کو رائج کرنے کے لئے یہ بات ضروری سمجھی جاتی ہے کہ ایک یا دو بچّے ہوں تو بہت ہیں باقی آپریشن کرا دیا جاتا ہے تاکہ نس بندی ہو جائے اور میاں بیوی کے جنسی تعلقات میں بھی کوئی فرق بھی نا ہو اور بچّے بھی پیدا نا ہوں فرعون کے دور میں تو یہ ہوتا تھا کہ غلاموں یعنی بنی اسرائیل کے بیٹوں کو پیدا ہوتے ہی مار دیا جاتا تھا اور لڑکیوں کو زندہ رہنے دیا جاتا تھا لیکن اس دور میں کتنے بڑے پیمانے پر بچّوں کی نسل کشی ہو رہی ہے کہ لاکھوں کروڑوں بچّوں کو پیدا ہونے سے پہلے ہی مار ڈالا جاتا ہے کہ ایک یا دو بچّے ہی کافی ہیں ورنہ ہم ٹھیک سے لائف انجوائے نہیں کر سکیں گے اور جدید تہذیب کے معاملات میں ہم پیچھے رہ جائیں گے اور ہم غربت کا شکار ہو جائیں گے کیا یہ جہالت نہیں ہے تو اور کیا ہے اس معاملے میں بھی باقی معاملات کی طرح اللہ کے حکم کا لحاظ نہیں رکھّا جاتا حالانکہ اسلام کے مطابق تو ایک کی بجائے چار چار شادیاں کرنے کی اجازت ہے تاکہ اولاد کی ریل پیل ہو اور سب اپنے اپنے بچّوں کی تربیّت اسلام کے مطابق کریں اور جہاد فی سبیل اللہ میں آسانی ہو -

اس سلسلے میں بہت سارے معاملات میں نفسیاتی حربے استعمال کیے جاتے ہیں مثال کے طور پر چند ایک میں قارئین کی خدمت میں پیش کرتا ہوں امید ہے اس طرح سے دعوت حق پہنچانے میں یہ باتیں بہت زیادہ مددگار ثابت ہوں گی -
1- جب یہ حدیث بیان کی جاتی ہے کہ بچّے فطرت اسلام پر پیدا ہوتے ہیں اور ان کے والدین اور پرورش کرنے والے انھیں یا تو عیساِئی بنا لیتے ہیں یا یہودی بنا دیا جاتا ہے یا مجوسی بنا دیا جاتا ہے تو سیکولر دانشور اسی بات کو غلط طریقے سے نافذ کر دیتے ہیں کہ مسلمانوں کے بچّوں کی ہم تربیّت نہیں کرنے دیں گے تاکہ وہ فطرت اسلام پر پیدا ہوئے ہیں تو باقی خاندان برادری والوں کو ان کی پیروی کرنی چاہیے پھر کوئی اور پیر پکڑنے کی ضرورت ہی کیا ہے بچّے جو اسلام کی فطرت کے مطابق پیدا ہوتے ہیں تو ان کو ان حال پر چھوڑ کر ان کی پیروی سارے لوگ کریں حالانکہ حدیث کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے لیکن کیا کریں شیطان کی پھیلائی ہوئی جہالت کا شکار لوگوں کا کہ وہ بڑے بڑے فیصلے کرنے کے لیے فال کی پرچیاں ڈالتے ہیں کہ بچّہ جونسے فیصلہ کی پرچی اٹھا لے گا اس پر عمل کیا جائے گا یوں ان کے اس نفسیاتی حربے ذریعہ جاہلیّت کی فال کے تیر ڈالنا اور اس میں جو فیصلہ ہو جائے سو ہو جائے یہ جہالت باقاعدہ پلاننگ کے ساتھ گھروں میں نافذ کی جاتی ہے -
2 - جب یہ مسئلہ بیان کیا جاتا ہے کہ اسلام نے عورتوں کے حقوق کا خیال رکھنے کی بہت زیادہ تاکید کی تو اس بات کو غلط رنگ دے کر عقیدہ باطلہ لیڈیز فرسٹ کو لاگو کر دیا جاتا ہے کہ اگر مرد کو طلاق کا حق دیا گیا ہے تو حقوق کی برابری تو تب ہوگی جب عورتوں کو بھی طلاق دینے کا حق دیا جائے اور اب تو اسلامی ممالک میں بھی اس جہالت کو قانونی شکل میں مردوں پر مسلّط کر دیا گیا ہے اور تو اور یہ قانون سازی ہو چکی ہے کہ عورت کی اجازت کے بغیر مرد نا تو جہاد پر جاسکتا ہے اور نا دوسری شادی کر سکتا ہے اور مرد عورت کا غلام بن کر زندہ رہے ورنہ ذلّت و رسوائی بے بسی اور بے چارگی اس کا مقدّر بن جائے اور عورتیں کھلے عام جسم فروشی کا بازار گرم کرتی پھریں -

3 - مرد عورتوں پر حاکم ہے قرآن و حدیث میں عورتوں کی تربیّت ایسی کرنے کی تلقین کی گئی ہے اور عورتوں کو اللہ اور رسول نے احکامات دیے ہیں کہ اے مسلمان عورتو اور اے اسلامی ریاست کے حاکمو تم پر لازم ہے مردوں کو عورتوں کا حاکم بناو اور عورتیں مردوں کی اطاعت گزار اور شکر گزار بن کر رہیں مگر اس معاملے میں کونسا نفسیاتی حربہ استعمال کیا گیا ہے کہ باپ بھائی اور خاوند اور بیٹا عوتوں پر حاکم تب بن سکتا ہے کہ وہ عورتوں کو خرچہ ادا کریں باپ نے اگر اطاعت کروانی ہے تو وہ اس کو خرچہ دے بھائی نے کروانی ہے تو وہ خرچہ دے خاوند اور بیٹا بھی دے اور ان کو کھلے عام شاپنگ کرنے کے لیے تمام اخراجات اور سہولیات دے اور آزادانہ اداکاری اور دوستوں سے ملنے کے لئے بھی روک ٹوک نا کرے اگر وہ روز بروز گاہکوں کے ساتھ اپنی عزّت کا سودا کرے تو بھی اس کو روک ٹوک نا کرے اور ایسا ماحول ہمارے معاشرے میں نافذ کر دیا گیا ہے العیاذ باللہ اللہ کی پناہ
4 - فلموں اور ڈراموں میں اور تقریروں اور تحریروں میں جو یہ باتیں بیان ہوئی ہیں کہ فلاں اسلام کے مجاہد نے دین کی تبلیغ اور عدل و انصاف پر مبنی فیصلوں سے متاثر کر کے شہزادی کو متاثر کرکے مسلمان کر لیا تو آج کے دور میں عورتوں کی یہ تربیّت کی جارہی ہے کہ وہ مسلمانوں کی ہر نیکی اور دعوتی اور جہادی سرگرمیوں کو اور اعمال صالحہ کو چلا کر راکھ کر دیں اور مسلمانوں کی عورتیں ان سے یہ کہیں کہ ہماری یہ ناجائز خواہش پوری کرو وہ کر لیں تب بھی ان سے یہ کہیں کہ ہم عیسائی ہیں کیونکہ عیسائی اور مرزائی اور ہندو مسلمانوں سے زیادہ عورتوں کی قدر کرتے ہیں جیسا کہ سلطان صلاح الدّین ایّوبی نے جب عیسائی شہزادی کو اپنے بہادری کے کارناموں اور ایمانداری اور عدل وا نصاف کا مظاہرہ کیا اور عیسائی کافروں کے بے گناہوں پر کیے گئے ظلموں کا پردہ فاش کیا تو شہزادی نے اپنے بھائی کو بے عزّت کر کے واپس بھیج دیا اور کہا کہ میں مسلمان ہو چکی ہوں اور تم لوگوں کے جھوٹے عقائد کو جان چکی ہوں تو اس بنا پر مسلمانوں کی عورتوں کو گمراہ کر کے ان سے بدلہ لیا جاتا ہے

---------------- جاری ہے
 

محمد فاروق حسن
About the Author: محمد فاروق حسن Read More Articles by محمد فاروق حسن: 108 Articles with 126613 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.