سالِ نو کا پیغام… نوجوانوں کے نام!!!

ابھی کل کی بات ہے2017ء کا سورج طلوع ہوا تھا۔ اپنے ساتھ امیدوں کے دیے، خواہشات کے جگنو، جینے کی امنگ، ترقی کی آرزو اور تبدیلی کی آس لایا تھا۔ آنکھوں نے کتنے ہی خواب پلکوں پہ سجائے تھے۔ امن و آشتی، سرمایہ و سکون، عزت و منزلت اور راحت و آرام کو گھر کے آنگن میں اترتے دیکھا تھا۔ لیکن اے بسا آرزو کہ خاک شدہ… دسمبر کا آخری پہر ہے۔ یوں لگتا ہے رفتارِ زمانہ رک گئی ہے۔ ہم وہیں کھڑے ہیں جہاں 2016ء کے آخر میں تھے۔ سکون بدستور معدوم ہے۔ عزت کسی اور کے گھر کی لونڈی ہے۔ آشتی کا جنازہ کاندھوں پر ہے۔جہالت کی وہ تاریکیاں مزید گہری ہو گئی ہیں جنہیں بھگانے کے لیے ارمان کی شمعیں جلائی گئی تھیں۔ دسمبر کی کہر آلود شامیں بتا رہی ہیں کہ قریب بعید ہو چکا اور جو بعید تھا وہ بدستور بعید تر ہے۔

انصاف کے جنگل میں ظلم و ستم کا مہیب رقص جاری ہے۔ غربت کے اسیر، سرمایہ داریت کی بھینٹ چڑھنے کو تیار ہیں۔ زیست کی لَو ٹمٹما رہی ہے۔ اندھیرا اتنا گہرا ہے کہ ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دے رہا۔ پھر بھی امید کا دِیا روشن ہے۔ ستاروں پہ کمند ڈالنے والے کچھ لوگ ابھی زندہ ہیں۔ سالِ نو کا پیغام انہی کے نام ہے۔ ان نوجوانوں کے نام… جن کے سینے میں پوری امت کا درد ہے۔ جنہوں نے منافقت کی دہشت نگری میں آنکھ کھولی۔طعن و تشنیع کے دھماکوں کی لوریاں سنیں۔ دشمنی کے بارود کی بو سونگھتے لڑکپن گزارا۔ عدل و مساوات کے کٹے پھٹے لاشے دیکھتے جوان ہوئے۔ سالِ نو کا پیغام انہی جوانوں کے نام ہے ، جنہیں دوسروں کے کل کے لیے اپنا آج تج دینا ہے۔ جنہیں اپنی آرزوؤں، امنگوں اور چاہتوں کا خون کرنا ہے۔ بھائی بہنوں کی خاطر ، آئندہ نسلوں کی خاطر، وطنِ عزیز کی خاطر، امت محمدیہ کے روشن مستقبل کی خاطر…

آنے والا سال زبانِ حال سے کہہ رہا ہے تمہیں سنِ گذشتہ میں مطلوبہ اہداف کیوں نہ حاصل ہو سکے؟ ذرا اپنے ماضی پر نظر دوڑائیے۔ دیکھیے کہاں غلطی ہوئی ہے؟ کون سی لغزش ہوئی اور کتنی ہوئی؟ اس کے اسباب کیا تھے؟ دوسرے الفاظ میں اپنا محاسبہ کیجیے۔ ان اغلاط کی فہرست بنائیے۔ اور ابھی سے ٹھان لیجیے کہ اس مرتبہ یہ غلطیاں نہیں کریں گے۔ اپنے نفس کو جھنجوڑیں گے۔ ضمیر کی آواز پر لبیک کہیں گے۔ مایوسیاں بھگائیں گے۔سابقہ کردہ خطائیں نہیں دہرائیں گے۔ محتاط زندگی گزاریں گے۔ اخلاق بلند کریں گے۔ احساسِ ذمہ داری پیدا کریں گے۔ کچھ بننے کے قابل ہوں گے۔ تعلیم و تعلم اور ہنر و فن کے میدانوں میں اپنا لوہا منوائیں گے۔ کچھ ایسا کریں گے کہ اس سال میں پورے نہ سہی کچھ اہداف ضرور حاصل کر سکیں۔ نئے دوست نہ سہی، نئے دشمن نہیں بنائیں گے۔ اخوت، مساوات اور بھائی چارے کا علم بلند رکھیں گے۔

سالِ نو کہہ رہا ہے ’’اپنا ایک وژن بنائیں۔ خیالی دنیا میں کھونے کی بجائے ایک مقصد بنائیں، موقف اپنائیں، منزل چُنیں اور پھر اس کے حصول میں جُت جائیں۔ اپنا وژن ایک کاغذ پر لکھیں اور اس کاغذ کو ہمہ وقت اپنے پاس رکھیں۔ دن میں ایک دو مرتبہ اسے کھول کر پڑھیں۔ عزائم کو دہرائیں۔ اس طرح سبق تازہ اورمزاج میں استقلال رہے گا۔ کچھ کر گزرنے کا جذبہ بیدار رہے گا۔ ورنہ کچھ عرصے بعد قرطاسِ ذہنی سے مقصد اصلی محو ہو جائے گا اور منزل مزید دور ہوتی چلی جائے گی۔

اپنے وژن کے راستے میں آنے والی رکاوٹیں اور آسانیاں بھی مدنظر رہیں۔ اس طرح مسائل اور چیلنجز سے نمٹنے میں آسانی رہے گی۔اس کے ساتھ ساتھ یہ خیال بھی رہے کہ بعض مسائل و ادراک ’’سپیڈ بریکرز‘‘ کی مانند ہوتے ہیں۔ جنہیں پار کرنے کے لیے طاقت اور جوش کی نہیں ، سمجھ داری اور حوصلہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور بعض مسائل راستے پر لگے سائن بورڈز کی طرح ہوتے ہیں کہ اگر ان کی طرف توجہ کی تو دنیا کی شاہراہ پر زندگی کی گاڑی کا حادثہ بھی ہو سکتا ہے۔ منزل ہمیشہ کے لیے دور ہو سکتی ہے۔ اس لیے مسائل کی نوعیت سمجھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ پھر اسی نوعیت کے مطابق انہیں حل کیا جائے۔

وقت کی قدر کرنی ہوگی۔ نظام الاوقات ترتیب دینا ہوگا۔ پورا سال ایسے گزارنا ہوگا کہ کوئی بھی لمحہ ضائع نہ ہونے پائے۔ ورنہ لمحوں کی یہ خطا، صدیوںکو سزا دیتی ہے۔ اپنا وقت ضائع کرنا ہے اور نہ ہی کسی کا۔ ہر چیز کو اس کی حیثیت کے مطابق وقت دینا ہے۔ خاندان، دوست، رشتہ دار، تعلق دار، مقصد اور اپنی ذات ، سب کا خیال رکھنا ہے۔ اگر ایسا ہو گیا تو منزل کی جستجو میں بھٹکنا نہیں پڑے گا، وہ خود پکارے گی۔

نیز اپنے اہداف بھی متعین کرنے ہوں گے۔ اس سے حوصلے جواں اور عزائم بیدار رہتے ہیں۔ ورنہ مسلسل محنت انسان کو تھکا دیتی ہے۔ بالکل ویسے ہی جیسے راستے کے سنگِ میل۔ جنہیں دیکھ کر پتا چلتا جاتا ہے کہ ہمارا کتنا سفر طے ہو گیا اور کتنا باقی ہے؟ اگر سنگ میل نہ ہوں تو مسافر چلتا چلتا تھک جائے۔ اور جب مطلوبہ ہدف پورا ہو جائے تو اُس ذاتِ کریم کے آگے سربسجود ہونا بھی لازم ہے جس کی معیت اور نصرت نے یہاں تک پہنچایا۔ نیز اُن دوستوں کا شکریہ ادا کرنا بھی ضروری ہے جنہوں نے آپ کے راہ سے کانٹے چنے اور ہدف کا حصول ممکن بنایا۔ حدیث مبارکہ ہے من لم یشکر الناس لم یشکر اللہ، جو لوگوں کا شکر ادا نہیں کرتا وہ اللہ کا شکر بھی ادا نہیں کرتا۔ یہ بھی یاد رہے کہ ہر قدم اٹھانے سے پہلے بڑوں سے مشورہ، ان کی دعائیں اور رب کریم کی نصرت ضروری امر ہوتا ہے۔تاکہ تجربات کی بے موقع بھٹیوں میں پگھلنا نہ پڑے اور صلاحیتیں بے مقصد خرچ نہ ہو جائیں۔‘‘

Abdus Saboor Shakir
About the Author: Abdus Saboor Shakir Read More Articles by Abdus Saboor Shakir: 53 Articles with 90347 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.