سنت علاج

رنگ و نور .سعدی کے قلم سے
اﷲ تعالیٰ مجھے اور آپ سب کو تمام روحانی اور جسمانی بیماریوں سے شفا نصیب فرمائے. پہلے ایک بات سن لیں کہ بعض مسلمان بھی یہ کہہ رہے ہیں کہ بابری مسجد جس جگہ تعمیر ہوئی تھی اُس جگہ کا نام ’’جنم استھان‘‘ یعنی پیدائش کی جگہ تھا. یہ بات غلط ہے. اول تو یہ بات ہی ثابت نہیں کہ رام کی پیدائش اجودھیا میں ہوئی تھی. پھر جو لوگ اجودھیا میں پیدائش مانتے ہیں وہ بھی کئی جگہیں الگ الگ بتاتے ہیں. ہندوستان تو ویسے ہی جھوٹ نگری ہے. کچھ عرصہ قبل آر ایس ایس نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ نعوذ باﷲ، نعوذباﷲ’’حجر اسود‘‘ شیولنگ ہے. ویسے بھی ہندوستان کی عدالت کو سینکڑوں سال پرانے مسئلے کو حل کرنے کا کیا حق حاصل ہے؟. خود ہندوستان کو بنے ہوئے تریسٹھ سال ہوئے ہیں. پھر اس بات کا فیصلہ بھی ہونا چاہئے کہ اگر بابری مسجد کی جگہ رام مندر تھا تو. رام مندر سے پہلے وہاں کیا تھا. تب اس زمین کے حقدار تو وہ ہوں گے جو رام مندر سے پہلے اس زمین کے مالک تھے. کیا اب حضرت آدم علیہ السلام کے زمانے کی ملکیتوں کے فیصلے بھی آج کی عدالتیں کریں گی. کچھ لوگ دراصل خود کو منصف قرار دینے کے لئے ملی جلی باتیں کرتے رہتے ہیں. ان کو اتنا بھی خیال نہیں کہ یہ ایک مسجد کا مسئلہ ہے. اور مسجد اﷲ تعالیٰ کا گھر اور مسلمانوں کی غیرت ہے. بُت تو کعبۃ اﷲ میں بھی پوجے جاتے تھے. جب مسلمانوں نے آقا مدنیﷺ کی قیادت مبارکہ میں بزور تلوار مکہ مکرمہ فتح کیا تو کعبہ شریف میں تین سو ساٹھ بُت رکھے ہوئے تھے. مگر پھر کعبہ کو پاک صاف کر دیا گیا. اور اب کسی کو حق اور اختیار نہیں کہ پرانی تاریخ کو کھنگال کر کوئی فیصلہ کرے.اسلام اور کفر برابر نہیں ہیں. اہل توحید اور مشرکین کو ایک جیسے حقوق حاصل نہیں ہیں. مسجد جب بن جاتی ہے تو وہ قیامت تک کے لئے مسجد رہتی ہے. اور بابری مسجد تو پہلے دن سے بابری مسجد ہے. اﷲ کیلئے! مسلمانوں کے خون کو اتنا ٹھنڈا نہ کرو کہ لوگ اُسے جوس سمجھ کر پی جائیں. اﷲ کے لئے غیرت کے چراغ کو اتنا رسوا نہ کرو کہ بے غیرتی کو لوگ دانشمندی سمجھنے لگیں. یہ بات تو کسی پاگل نے نہیں کہی کہ مسجد کی جگہ رام مندر بننے سے اسلام خطرے میں پڑجا ئے گا. ہاں یہ ضرور کہا ہے کہ اگر خدانخواستہ ایسا ہوا تو یہ اسلام اور مسلمانوں کی توہین ہو گی. اور کوئی مسلمان جس نے واقعی اپنی ماں کا دودھ پیا ہو اسلام کی توہین گوارہ نہیں کر سکتا.ہندو جیسا مشرک جب ایک مفروضے پر اتنی جان لڑاسکتا ہے تو پھر مسلمان ایک حقیقت پر قربانی کیوں نہیں دے سکتا. یاد رکھنا بابری مسجد ہندوستان کے بیس کروڑ اور برصغیر کے پچاس کروڑ مسلمانوں کے مستقبل کا سوال ہے. ایڈوانی نے خود کہا تھا کہ ہم بابری مسجد کے بعد تین ہزار مساجد گرائیں گے. اور پھر میڈیا پر ان مساجد کے نام بھی جاری کر د یئے گئے. مگر اسلامی غیرت سے سرشار مسلمانوں نے اس ظلم اور بے غیرتی کو ٹھنڈے پیٹ سہنے سے انکار کر دیا. مشرق سے مغرب تک ہائے بابری مسجد، ہائے بابری مسجد کی صدا نے مسلمانوں کے لہو کو گرم کیا تو. ایڈوانی ہندوستان کا نائب وزیراعظم بن کر بھی رام مندر تعمیر نہ کر سکا. الحمدﷲ مسلمان آج بھی زندہ ہیں اور حالات کا مقابلہ کرنا جانتے ہیں. نہرو، گاندھی خاندان اسلام اور پاکستان کا بدترین دشمن ہے. کانگریس نے مزید پچاس سال تک اقتدار میں رہنے کے لئے بابری مسجد کا سودا کرنے کی ٹھانی ہے. مگر سونیا اور راھول گاندھی کو انشا اﷲ جلد احساس ہو جائے گا کہ یہ پتھر بہت بھاری ہے. آج اس موضوع کو یہاں روک کر ایک اور دلچسپ بات کرتے ہیں. کالم کا آغاز’’شِفا‘‘ کی دعا سے ہوا. بیمار تو ہر آدمی ہوتا ہی رہتا ہے. اور آج کل تو بیماریوں کا میلہ لگا ہوا ہے اور ڈاکٹر صاحبان خوب کما رہے ہیں. دنیا جب سے وجود میں آئی ہے اس میں سب سے اچھی صحت ہمارے آقامدنیﷺ کی تھی. اور آپﷺ نے بہترین علاج’’الحجامہ‘‘ یعنی پچھنے لگانے کو ارشاد فرمایا. ابھی تھوڑی دیر پہلے میں نے علامہ ابن قیم(رح) کی معروف کتاب’’زادالمعاد‘‘ میں’’الحجامہ‘‘ کا باب پڑھا تو حیران رہ گیا. سبحان اﷲ وبحمدہ سبحان اﷲ العظیم. اﷲ تعالیٰ نے اس آسان سے علاج میں کتنی بے شمار بیماریوں سے شفا رکھی ہے. علامہ ابن قیم(رح) نے بہت سی خوفناک بیماریوں کے نام گنوائے ہیں کہ وہ پچھنے لگوانے سے ٹھیک ہو جاتی ہیں. ’’الحجامہ‘‘ کہتے ہیں جسم کے مختلف حصوں کی کھال سے تھوڑا سا خون نکالنا. بیماریاں اسی فاسد خون کے ساتھ نکل جاتی ہیں اور جسم صحت مند اور توانا ہو جاتا ہے. ہمارے آقا و محبوب مدنیﷺ بہت اہتمام کے ساتھ پچھنے لگواتے تھے. یہاں تک کہ روزے اور احرام کی حالت میں بھی آپﷺ نے پچھنے لگوائے. اِدھر ہمیں دیکھیں کہ ہم ساری زندگی اس علاج اور نعمت سے محروم رہے. کچھ دن پہلے اچانک اِس علاج کی طرف توجہ ہوئی. حالانکہ جب سے دینی تعلیم حاصل کی ہے’’الحجامہ‘‘ کے بارے میں پڑھتے سنتے رہے ہیں. اب اﷲ تعالیٰ نے توجّہ نصیب فرمائی تو سوچا کہ’’مرکز رُشد و انوار‘‘بہاولپور میں اس ’’سنت علاج‘‘ کا احیا کیا جائے. سیکھنے کے لئے چند ساتھی متعین ہوئے اور ایک ماہر استاد کا انتظام بھی ہو گیا. صرف تین دن کے آسان سے کورس میں اب ماشا اﷲ چار ساتھی یہ’’فن ‘‘ سیکھ چکے ہیں اور درجنوں افراد کے جسم کو فاسد خون سے پاک کر چکے ہیں.ویسے بھی ہم لوگ کافی عرصہ سے یہی کام کر رہے تھے. جہاد بھی تو پورے عالم کی’’الحجامہ‘‘ہے. گندے خون کو نکال کر دنیا کو کفر، شرک، فتنے اور ظلم سے پاک کیا جاتا ہے. مکہ مکرمہ کا گندا خون جب نکال کر بدر کے کنویں میں ڈال دیا گیا تو. مکہ مکرمہ کی صحت بحال ہونا شروع ہوئی اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے مکہ مکرمہ پھر پورے عالم کا’’مرکز ہدایت‘‘ بن گیا. خیر یہ الگ موضوع ہے . آپ میں سے بھی کئی لوگ بیمار ہوں گے. ’’الحجامہ‘‘ کے ذریعہ جسمانی امراض کے علاوہ نظربد، عین حاسد، اور جادو کا علاج بھی ہوجاتا ہے.ہمارے محبوب اور کریم آقا ﷺ نے خود ہمیں جسم کے وہ مقامات بتا دیئے ہیں جہاں بیماریوں کے جراثیم کا چھتّہ بنتا ہے. بس وہاں سے خون نکالیں تو تمام بیماریوں کی جڑیں کٹ جاتی ہیں. احادیث مبارکہ میں’’الحجامہ‘‘ کے مقامات، اس کے لئے مناسب تاریخیں. اور مناسب دنوں تک کا تذکرہ ملتا ہے. بندہ نے اپنے ایک فاضل ساتھی سے عرض کیا کہ’’الحجامہ‘‘ کے بارے میں کچھ احادیث و روایات جمع کر دیں. اﷲ تعالیٰ اُن کو جزائے خیر نصیب فرمائے کہ انہوں نے فوری طور پر تیس روایات جمع کر دی ہیں. آئیے ہم سب ان روایات کو پڑھیں اور اپنے محبوب ِقلب آقا ﷺ کی شان مبارک کے ایک اور پہلو کو دیکھیں.اور پھر صبح شام، دن رات آپﷺ پر اور آپﷺ کی آل پر درود و سلام بھیجیں.

’’الحجامہ‘‘ چند احادیث مبارکہ
﴿۱﴾ حضرت ابن عباس(رض) سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے ارشادفرمایا شفا تین چیزوں میں ہے پچھنا لگوانے، شہد پینے اور آگ سے داغنے میں، اور میں اپنی امت کو آگ سے داغنے سے منع کرتا ہوں۔﴿بخاری ص ۸۴۸ ج ۲/زاد المعاد ص ۰۵۵ طبع بیروت﴾
﴿۲﴾ حضرت ابن عباس(رض) سے مروی ہے کہ آپﷺ نے ﴿ایک مرتبہ﴾ پچھنا لگوایا درانحالیکہ آپﷺ روزہ سے تھے۔﴿بخاری۹۴۸ ج ۲/ زادالمعاد ص ۴۵۵ بیروت﴾
﴿۳﴾ حضرت ابن عباس(رض) سے مروی ہے کہ آپﷺ نے حالتِ احرام میں پچھنا لگوایا۔﴿بخاری ص ۹۴۸ ج ۲﴾
﴿۴﴾ حضرت انس(رض) سے مروی ہے ، آپ(رض) سے پچھنا لگانے کی اجرت کے بارے پوچھا گیا﴿ کہ جائز ہے یا نہیں؟﴾ آپ(رض) نے فرمایا کہ رسول اﷲﷺ نے پچھنا لگوایا تھا آنحضورﷺ کو ابو طیبہ نے پچھنا لگایا تھا۔ آپﷺ نے انہیں دو صاع اناج﴿اجرت﴾ میں دیا تھا اور آپ نے ان کے آقاؤں سے گفتگو کی تو انہوں نے ان سے وصول کی جانے والی لگان میں کمی کر دی تھی۔ اور آنحضورﷺ نے فرمایا بہترین علاج جو تم کرتے ہو پچھنا لگانا ہے. ﴿بخاری ص ۹۴۸ ج ۲، مسلم ص۲۲ ج ۲، زادالمعاد ص ۱۵۵ طبع بیروت﴾
﴿۵﴾ حضرت جابر بن عبداﷲ (رض) مُقَنَّّع کی عیادت کے لئے تشریف لائے۔پھر ان سے کہا جب تک تم پچھنا نہ لگوا لو گے میں یہاں سے نہیں جاؤنگا۔ میں نے رسول اﷲﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اس میں شفا ہے۔﴿بخاری ص ۹۴۸ ج ۲﴾
﴿۶﴾ حضرت ابن عباس(رض) سے روایت ہے کہ رسول اﷲﷺ نے اپنے سر مبارک میں پچھنا لگوایا۔﴿بخاری ص ۹۴۸ ج ۲﴾
﴿۷﴾ حضرت جابر(رض) سے مروی ہے کہ میں نے رسول اﷲﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ اگر تمہاری دوائیوں میں سے کسی میں خیر ہے تو شہد پینے میں، پچھنا لگوانے میں اور آگ سے داغنے میں ہے لیکن میں آگ سے داغ کر علاج کرنے کو پسند نہیں کرتا۔﴿بخاری ص۰۵۸ ج۲﴾
﴿۸﴾ حضرت انس(رض) فرماتے ہیں کہ رسول اﷲﷺ گردن کے دونوں جانب کی رگوں اور شانوں کے درمیان پچھنے لگوایا کرتے تھے اور یہ عمل سترہ، انیس یا اکیس تاریخ کو کیا کرتے تھے۔﴿ترمذی ص ۵۲ ج۲/ زادالمعاد ص ۳۵۵ بیروت﴾
﴿۹﴾ حضرت ابن مسعود(رض) فرماتے ہیں کہ رسول اﷲﷺ نے شب معراج کا قصہ سناتے ہوئے فرمایا کہ آپﷺ فرشتوں کے جس گروہ پر بھی گزرتے وہ یہی کہتا کہ اپنی امت کو پچھنے لگوانے کا حکم کیجئے گا۔﴿ترمذی ص ۵۲ ج ۲﴾
﴿۰۱﴾ حضرت عکرمہ(رض) فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عباس(رض) کے پاس تین غلام تھے جو پچھنے لگاتے تھے، ان میں سے دو تو اجرت پر کام کیا کرتے تھے اور ایک ان کو اور ان کے گھر والوں کو پچھنے لگایا کرتا تھا۔ راوی کہتے ہیں کہ حضرت ابن عباس(رض) رسول اﷲﷺ کا یہ ارشاد نقل فرماتے تھے کہ آپﷺ نے فرمایا: پچھنے لگانے والا غلام کتنا بہترین ہے، خون کو لے جاتا ہے، پیٹھ کو ہلکا کر دیتا ہے اور نظر کو صاف کر دیتا ہے۔ اور آپ(رض) نے یہ بھی فرمایا کہ جب آپﷺ معراج پر تشریف لے گئے تو فرشتوں کے جس گروہ سے بھی گزر ہوا انہوں نے یہی کہا کہ حجامت ضرور کیا کریں اور آپﷺ نے فرمایا پچھنے لگانے کے لئے بہترین دن سترہ، انیس اور اکیس کے دن ہیں... اور یہ بھی فرمایا کہ بہترین علاج سعوط لدود اور پچھنے لگانا ہے... ﴿ترمذی ص۵۲ ج۲/ زادالمعاد ص ۱۵۵ بیروت﴾
﴿۱۱﴾ حضرت ابو ہریرہ(رض) سے مروی ہے کہ رسول اﷲﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اگر تم لوگوں کی تمام ادویات میں سے کوئی دوا بہتر ہے تو وہ حجامت یعنی پچھنے لگوانا ہے۔﴿ابوداؤد ص ۳۸۱ ج ۲﴾
﴿۲۱﴾ رسول اﷲﷺ کی خادمہ حضرت سلمیٰ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں جو شخص بھی رسول اﷲﷺ کی خدمت میں سردرد کی شکایت کرتا تو آپﷺ اس کو پچھنے لگوانے کا فرماتے اور جو شخص پاؤں کے درد کی شکایت کرتا اسے فرماتے ان کو مہندی لگاؤ....!﴿ابو داؤد ص ۳۸۱ ج ۲﴾
﴿۳۱﴾ حضرت ابو کبشہ انماری(رض) سے مروی ہے آنحضرتﷺ اپنے سرمبارک کی مانگ میں اور دونوں کندھوں کے درمیان فصد لگواتے ، اور ارشاد فرماتے جو شخص ان جگہوں کا خون نکلوائے تو اس کو کسی مرض کے لئے کوئی دوا استعمال نہ کرنا نقصان نہیں پہنچائے گا۔ ﴿ابو داؤد ص ۳۸۱ ج ۲/ ابن ماجہ ص ۹۴۲﴾
﴿۴۱﴾ حضرت ابو ہریرہ(رض) سے مروی ہے کہ آنحضرتﷺ نے ارشاد فرمایا جس شخص نے سترہ، انیس اور اکیس تاریخ کو سینگی لگوائی اس کے لئے یہ ہر مرض سے شفا ہو گی۔﴿ ابو داؤد ص ۴۸۱ ج۲/ زاد المعاد ص ۳۵۵ بیروت﴾
﴿۵۱﴾ حضرت جابر(رض) سے مروی ہے کہ آپﷺ نے حضرت اُبی(رض) کے پاس ایک طبیب بھیجا چنانچہ اس طبیب نے ﴿پچھنے لگانے کیلئے﴾ ان کی ایک رگ کاٹی۔﴿ابو داؤد ص ۴۸۱ ج ۲﴾
﴿۶۱﴾ حضرت جابر(رض) سے مروی ہے کہ رسول اﷲﷺ نے اپنی ران مبارک کے بالائی حصہ پر ہڈی میں درد کی بنا پر پچھنے لگوائے۔﴿ابو داؤد ص ۴۸۱ ج۲/ زادالمعاد ص ۲۵۵ بیروت﴾
﴿۷۱﴾ حضرت ابو ہریرہ(رض) سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا جو علاج تم کرتے ہو ان میں سے اگر کسی میں بہتری ہے تو وہ پچھنے لگانے میں ہے۔﴿ابن ماجہ ص ۸۴۲﴾
﴿۸۱﴾ حضرت ابن عباس(رض) سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا شب معراج میں فرشتوں کی جس جماعت پر بھی میرا گزر ہوا ہر ایک نے مجھے یہی کہا اے محمدﷺ! پچھنے لگانے کا اہتمام کیجئے۔﴿ ابن ماجہ ۸۴۲﴾
﴿۹۱﴾ حضرت ابن عباس(رض) سے روایت ہے کہ رسول اﷲﷺ نے ارشاد فرمایا اچھا ہے پچھنے لگانے والا غلام۔ خون نکال دیتا ہے، کمر ہلکی کر دیتا ہے اور بینائی کو روشن کر دیتا ہے۔ ﴿ ابن ماجہ ۸۴۲﴾
﴿۰۲﴾ حضرت انس بن مالک(رض) سے مروی ہے کہ رسول اﷲﷺ نے ارشاد فرمایا شب معراج میں جس جماعت پر بھی میرا گذرہوا اس نے یہی کہا اے محمد اپنی امت کو پچھنے لگانے کا حکم فرمائیے۔﴿ابن ماجہ ص۸۴۲/ زادالمعاد ص ۱۵۵﴾
﴿۱۲﴾ حضرت جابر(رض) سے روایت ہے کہ ام المؤمنین حضرت سلمہ(رض) نے نبی کریمﷺ سے پچھنے لگوانے کی اجازت چاہی تو آپﷺ نے ابو طیبہ کو حکم فرمایا کہ انہیں پچھنے لگاؤ۔ راوی کہتے ہیں کہ ابو طیبہ سیدہ ام سلمہ(رض) کے رضاعی بھائی تھے یا کم سن لڑکے تھے۔﴿ابن ماجہ ص ۸۴۲﴾
﴿۲۲﴾ حضرت عبداﷲ بن بحینہ(رض) فرماتے ہیں کہ رسول اﷲﷺ نے لحی جمل﴿نامی مقام﴾ میں بحالت احرام اپنے سر مبارک کے وسط میں پچھنے لگوائے۔﴿ابن ماجہ ص ۸۴۲/ زادالمعاد ص ۲۵۵﴾
﴿۳۲﴾ حضرت علی(رض) سے مروی ہے کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام نبی کریمﷺ کے پاس، گردن کے دونوں جانب کی رگوں اور کندھوں کے درمیان پچھنے لگانے کا حکم لے کر آئے۔﴿ابن ماجہ ص ۹۴۲/ زادالمعاد ص ۲۵۵﴾
﴿۴۲﴾ حضرت انس(رض) فرماتے ہیں کہ رسول اﷲﷺ نے گردن کے دونوں جانب کی رگوں اور کندھوں کے درمیان پچھنے لگوائے۔ ﴿ابن ماجہ ص ۹۴۲ / زادالمعاد ص ۲۵۵﴾
﴿۵۲﴾ حضرت جابر(رض) سے مروی ہے کہ نبی کریمﷺ اپنے گھوڑے سے کھجور کے ایک تنے پر گرے تو آپﷺ کے پاؤں مبارک میں موچ آگئی۔ وکیع فرماتے ہیں مطلب یہ ہے کہ نبی کریمﷺ نے ہڈی میں درد کی وجہ سے پچھنے لگوائے۔ ﴿ابن ماجہ ص ۹۴۲﴾
﴿۶۲﴾ حضرت انس بن مالک(رض) سے روایت ہے کہ رسول اﷲﷺ نے ارشاد فرمایا جو پچھنے لگانا چاہے وہ سترہ یا انیس یا اکیس تاریخ کو لگائے تاکہ ایسا نہ ہو کہ خون کا جوش تم میں سے کسی کو ہلاک کر دے۔﴿ابن ماجہ ص ۹۴۲/ زادالمعاد ص ۳۵۵ بیروت﴾
﴿۷۲﴾ حضرت نافع فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عمر(رض) نے فرمایا اے نافع! میرے خون میں جوش ہو گیا ہے اس لئے کوئی پچھنے لگانے والا تلاش کرو، اگر ہو سکے تو نرم خو آدمی کو لانا عمر رسیدہ ، بوڑھا یا کم سن بچہ نہ لانا۔ اس لئے کہ میں نے رسول اﷲﷺ کو فرماتے ہوئے سنا نہار منہ پچھنے لگوانا بہتر ہے اور اس میں شفا ہے اور برکت ہے۔ یہ عقل بڑھاتا ہے، حافظ تیز کرتا ہے۔ اﷲ برکت دے جمعرات کو پچھنے لگوایا کرو۔ اور بدھ، جمعہ، ہفتہ اور اتوار کے روز قصدا پچھنے مت لگوایا کرو ﴿اتفاقاً ایسا ہو جائے تو کوئی حرج نہیں﴾ اور پیر اور منگل کو پچھنے لگوایا کرو اس لئے کہ اسی دن اﷲ تعالیٰ نے حضرت ایوب علیہ السلام کو بیماری سے شفا عطائی فرمائی اور بدھ کے روز وہ بیمار ہوئے تھے۔ اور جذام اور برص ظاہر ہوا تو بدھ کے دن یا بدھ کی رات کو ظاہر ہوتا ہے۔﴿ابن ماجہ ص ۹۴۲/ زادالمعاد ص ۴۵۵﴾
﴿۸۲﴾ حضرت ابوبکرہ(رض) سے روایت ہے کہ رسول اﷲﷺ نے ارشاد فرمایا کہ منگل کا دن خون کا دن ہے اس میں ایک گھڑی ایسی آتی ہے کہ اس میں خون نہیں بند ہوتا۔﴿ زادالمعاد ص ۴۵۵/ سنن ابی داؤد ص ۸۴۱ ج۲﴾
﴿۹۲﴾ نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا گُدی کے اوپر کی ہڈی کے وسط میں پچھنے ضرور لگوایا کرو اس لئے کہ یہ پانچ بیماریوں سے شفا ہے۔﴿زادالمعاد ص ۲۵۵ بیروت﴾
﴿۰۳﴾ نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا گُدی سے اوپر کے گڑھے ﴿یعنی ہڈی کے اوپر﴾ میں ضرور پچھنے لگواؤ اس لئے کہ یہ بہتر﴿۲۷﴾ بیماریوں سے شفا ہے۔ ﴿ زادالمعاد ص ۲۵۵ بیروت﴾

اللھم صل علی سیدنا و مولانا محمد النبی الطَّاہر الزکیّ صلوٰۃً تُحَلُّ بھا العُقَدُ وتُفَکُّ بھا الکُرَب وعلی الہ وصحبہ وسلم تسلیما کثیرا کثیرا
٭.٭.٭
Shaheen Ahmad
About the Author: Shaheen Ahmad Read More Articles by Shaheen Ahmad: 99 Articles with 199028 views A Simple Person, Nothing Special.. View More