لاہور ہائی کورٹ نے پراپرٹی اونرشپ ایکٹ کے تحت کی گئی کارروائیوں کو چیلنج کرنے والی درخواستوں پر سماعت کرتے ہوئے سنگین سوالات اٹھا دیے۔ چیف جسٹس عالیہ نیلم نے انتظامی اقدامات کی قانونی حیثیت اور تحریری احکامات کی عدم موجودگی پر تشویش کا اظہار کیا۔
سماعت کے دوران عدالت نے درخواستوں کو فل بینچ کو بھجوا دیا۔ درخواست گزار کے وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ شیخوپورہ کے ڈپٹی کمشنر نے ہائی کورٹ میں معاملہ زیرِ سماعت ہونے کے باوجود زبانی حکم پر جائیداد کا قبضہ لینے کی ہدایت دی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ درخواستوں میں انتہائی سنگین الزامات موجود ہیں اور عدالت زمینی حقائق جانچ رہی ہے۔ انہوں نے سرکاری وکیل سے استفسار کیا کہ قانون کیا تقاضا کرتا ہے اور عملاً کیا اقدامات کیے جا رہے ہیں۔
عدالت نے نشاندہی کی کہ قانون کے مطابق ایسے معاملات میں ڈپٹی کمشنر کو سول کورٹ سے رجوع کرنا ہوتا ہے مگر نہ صرف سول عدالتوں کو بائی پاس کیا گیا بلکہ ہائی کورٹ کے احکامات کو بھی نظرانداز کیا گیا جو معاشرے میں انتشار کا سبب بن سکتا ہے۔
چیف جسٹس نے مزید کہا کہ آئین کے تحت محفوظ قانونِ شہادت کو کمزور کیا جا رہا ہے۔ درخواست گزار کے وکیل کے مطابق جائیداد بغیر کسی تحریری حکم کے قبضے میں لی گئی، جس کے باعث متاثرہ فریق کے پاس چیلنج کرنے کے لیے کوئی دستاویز موجود نہیں۔
سرکاری وکیل کے اس بیان پر کہ تاحال قانون کے تحت قواعد نہیں بنے چیف جسٹس نے سوال اٹھایا کہ قواعد کے بغیر کارروائیاں کیسے کی جا سکتی ہیں؟ انہوں نے پوچھا کہ تحریری حکم کے بغیر متاثرہ شخص قانونی چارہ جوئی کیسے کرے جبکہ بغیر حکم کے دائر درخواستوں پر دفتری اعتراضات لگا دیے جاتے ہیں۔
عدالت نے حکومت سے وضاحت طلب کی کہ ایسے حالات میں متاثرہ شخص کے پاس کیا قانونی راستہ موجود ہے اور کہا کہ قانون کو جزوی طور پر نافذ نہیں کیا جا سکتا۔ عدالت نے یہ بھی سوال اٹھایا کہ کیا ٹربیونلز کی باقاعدہ نوٹیفکیشن جاری کی گئی ہے یا نہیں۔ بعد ازاں سماعت مزید کارروائی کے لیے ملتوی کر دی گئی۔