کسی کے درپہ سجدہ کر رہی ہوں
یہ کس احساس پر اب مر رہی ہوں
جو اک طوفاں ہے اپنی خامشی میں
جو بن کر یاد میں اکثر رہی ہوں
اک اس کی ہی کمی رہتی ہے ورنہ
جو آ نکلا کبھی کیوں کر رہی ہوں
سناؤں کیا میں اپنے غم کے قصے
تمہارے وعدے کے نشتر رہی ہوں
مجھے معلوم ہے رستہ تمہارا
غموں کا دیکھ کر یہ ڈر رہی ہوں
ہمارا انتظار اب بھی ہے قائم
ابھر آتا ہے لمحہ بھر رہی ہوں
ہماری آنکھ میں ہے حسرتِ دید
مقدّر پر ہی گر کر گھر رہی ہوں
اتر کر دل کے آئینوں میں وشمہ
کہیں جھونکا ہوا سر کر رہی ہوں