تمہاری یاد کا منظررہی ہوں
کہ جیسے روح کو میں تر رہی ہوں
ہزاروں جستجوؤں کے جلو میں
منازل کا ہر اک منظر رہی ہوں
تھی بے معنی یہ میری زندگانی
ذرا دیکھو تو یہ محور رہی ہوں
ہماری بے قراری کے موافق
اگر بن جائے تو بہتر رہی ہوں
عجب سی دل کو راحت دے گیا وہ
کہاں ہو تم کہ ہر پتھررہی ہوں
ابھر آتا ہے دل میں درد میرا
نہیں سنتا دلِ بنجر رہی ہوں
کئی سے ڈھونڈ لا تقدیرمیری
مگر دل کا وہی منظررہی ہوں
ابھی الجھی ہوئی تعبیر یں ہے
تصور میں تھے شب ہی بھررہی ہوں
مرے اشعار کے زینے پہ پھر دیکھ
تصوف کے مضامیں کر رہی ہوں
تمہاری ذات اے وشمہ وفا کی
فضا میں لن ترانی بھر رہی ہوں