حسن کی ھیں قیامتیں ساری
دل سے جاں تک جراحتیں ساری
بک گئیں پتھروں کے مول اک دن
موتیوں جیسی چاہتیں ساری
دامن دل پہ برستے آنسو
ھیں پیار کی عنا یتیں ساری
اک شب وصل پا کے بھول گئے
صد یوں کی ہم رفا قتیں ساری
روپ دکھلایا اس نے انساں کا
اپنی چھوڑ کے عداو تیں ساری
وقت ضرورت ہم نے بھی دیکھا
اپنوں نے بدلیں صورتیں ساری
وصل میں تھی اک د یوار انا
دل نے کر د یں بغاوتیں ساری
درد کے حرفوں سے عبارت ھے
چاہتوں کی حکایتیں ساری
اپنے بھی تھے معین پس بر بادی
کیا عدو سے شکا یتیں ساری