دل میں تیرا خیال رکھا ھے
دل سے اس کو سنبھال رکھا ھے
حسن شعروں میں ڈھالنے کے لئے
تیرے روپ کا جمال رکھا ھے
تم نہ آئے مگر خوابوں کا ایک
سلسلہ تو بحال رکھا ھے
تو سمندر ھے پھر بھی تو نے مجھے
مثل صحرا بے حال رکھا ھے
کون بزم طرب میں جان سکا
کس کی ہنسی میں ملال رکھا ھے
ہجر دینے والے نے جانے کہاں
نصیبوں میں وصال رکھا ھے
کیا جواب دوں بھلانے کا خود کو
عجب اس نے سوال رکھا ھے
میری دھرتی پہ خزاؤں نے ہر سو
کیسا پھیلا کے جال رکھا ھے
ہر دست بشر میں تو نے یارب
ایک حسن کمال رکھا ھے
کبھی مرتی نہیں معین الفت
گو ہر شے پہ زوال رکھا ھے