لٹ گیا تو کیا کیجے آہ و فغاں
شوق کی راہ میں آرزو کا جہاں
شور خلق خدا ہے حد گماں
دشت تو نام ہی ہے سودو زیاں
دھول اڑتی ہے بس جدھر دیکھو
نہ بہاروں کا جشن، ہے نہ خزاں
ریگزاروں میں ریت اڑتے ہوئے
پوچھتی ہے کہاں گئے وہ نشاں
جن کو شوق سفر یہاں لایا
تپتے صحرا میں کیا ملی نہ اماں
جلتا سورج نگل گیا ان کو
جن کو ہمراہ ملا نہ ابر رواں
پھوٹتا تھا وہیں سے اک چشمہ
رقص کرتے ہیں اب بگولے جہاں
راز سرعت سے کھول دے نہ سبھی
دل کے جذبوں کو دیجئے نہ زباں
کاہے ابرُو چڑھائے بیٹھے ہو؟
آگ لگ جائے تو اٹھے ہے دھواں
تیری دنیا بھی دشت جیسی حیا
ہر تعلق ہی عارضی ہے یہاں