کسی کے آئینے کو ٹھیس لگنے سے بچانا ہے
جو ہو عہدِ وفا اس کو ہمیشہ ہی نبھانا ہے
کسی کی آہ نہ نکلے یہی لازم ہو ہم سب پر
کسی پر ظلم نہ ہو یہ یقینی ہی بنانا ہے
کسی کے درد سے جو واسطہ نہ ہم کبھی رکھیں
تو دنیا کی قیامت سے کبھی نہ بچ ہی پانا ہے
کسی کی جستجو میں رات دن بس ایک کرنا ہے
کسی کی آرزو میں آرزو اپنی مٹانا ہے
ذرا دیکھو یہ پروانے کیوں خود کو مٹاتے ہیں
اُنہیں دل کی صدا پر ہی قدم آگے بڑھانا ہے
کسی کی یاد میں بس محو رہنا خوش نصیبی ہے
یہ پل دو پل کی بس ہے زندگی اس کو بھنانا ہے
تجھے اے اثر کچھ معلوم ہے تخلیق کا مقصد
یہ خو جو زندگی کی بندگی کی خو ہوجانا ہے