دنیا وی مذاہب چھوڑ دے
نہ زندگی یُوں گزار کر
جنت و فردوس ترے ہے
بس مذہبِ عشق اختیار کر
نشہ ہو گیا تجھے نفس کا
تو حسرتوں میں سو گیا
کیا کیا بدل گیا ذرا
دیکھ خود کو بیدار کر
نفرتوں کے شہر میں
محبتوں کی تبلیغ کر
دے درس سب کو نہالؔ
بس پیار کر بس پیار کر
مال و دولت ذرا بتا مجھے
ترے بھلا کس کام کی
سچے یار کی محبتیں
کسی شہر سے خریدار کر
خود ہی کو نیک کہہ دیا
تُو نے اے انسان کیا کیا
کر توبہ ایسے الفاظ سے
خود کو نہ گناہگار کر
کر مفلسوں کی تُو مدد
خدا تری کریگا آپ ہی
کر نیکی دریا میں ڈال دے
یُوں بہشت کی راہ تیار کر